وجود

... loading ...

وجود
وجود

انتخابی عمل سے فرار کے جواز

منگل 25 اپریل 2023 انتخابی عمل سے فرار کے جواز

حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رواں ماہ حکومتی اتحاد نے آئین کی پچاسویں سالگرہ منائی مگرعملی طورپر دیکھیں تو آئین کی پاسداری کے حوالے سے صورتحال قابلِ رشک یا قابلِ تحسین نہیں ،ہر فریق آئینی شقوں کواپنے مفاد کے تناظر میں دیکھتاہے۔ آئین کاجو حصہ مفاد کے مطابق لگے، اُس کی تعریف جو مفاد سے متصادم محسوس ہوں اسے نظراندازکرنے میں ملک کی بہتری تصورکرتاہے۔ یہ کوئی اچھا طرزِ عمل نہیں بلکہ سیاستدانوں کو جائزہ لینا چاہیے کہ انھوں نے آئین کی پچاسویں سالگرہ کی خوشیاں تومنالیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اب اپنے اطوارسے پچاسویں برس خود ہی نقصان پہنچانے کا موجب ہیں ۔آئین کو نقصان پہنچتا ہے تو ملک جس سیاسی عدمِ استحکام کا شکار ہے اِس کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ نیا آئین بنانے پر شاید ہی سیاسی قیادت متفق ہو موجودہ آئین سے محرومی کے بعد ملک کاسرزمین ِ بے آئین بننے کا خطرہ جنم لے سکتا ہے۔ ایسا ہونا ملک وقوم کی بدقسمتی ہوگی۔
آئین میں واضح طورپر نگران سیٹ اَپ کی مدت نوے روز ہے اور اسی عرصہ میں انتخابی عمل مکمل کرنا لازم ہے۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس میں اسی طرف توجہ مبذول کرائی لیکن ازخود نوٹس سے معاملات سلجھنے کی بجائے پیچیدگیاں جنم لینے لگی ہیں۔ پنجاب اور کے پی کی نگران حکومتیں اپنی معینہ مدت مکمل کر چکیں مگر ابھی تک انتخابی شیڈول پر سیاسی رہنمائوں کا اتفاق نہیں ہورہا ۔دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی عمل کو نامکمل رکھنے میں نہ صرف ملک میں موجود آدھی ادھوری قومی اسمبلی کی منظورکی جانے والی قراردادوں کا کلیدی کردار ہے بلکہ اسپیکر راجہ پرویز اشرف بھی قومی اسمبلی میں واپس آنے کے خواہشمند ممبران کو ایوان سے باہر رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اِسی لیے اراکین کے استعفے مرحلہ وار منظور کیے اور پھر اِ ن کے حلقے خالی قرار دیکر الیکشن کمیشن نے بھی جھٹ سے انتخابی شیڈول جاری کر دیا۔ یہاں حیرانگی والی بات یہ ہے کہ جو الیکشن کمیشن مستعفی ممبران قومی اسمبلی کے حلقوں کا ضمنی الیکشن کرانے پر بضدہے ،وہی صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کرانے سے یہ کہہ کر انکاری ہے کہ اس صورت میں انتشار و افراتفری کاخطرہ ہے۔ ایک عام فہم بات ہے کہ آٹے کی تقسیم کے لیے سینکڑوں افراد کی لگی لائنیں یا ہزاروں کے اجتماعات میں شامل افراد نے ہی ووٹ ڈالنے جانا ہے جب آج کوئی بدامنی نہیں رہی تو انتخابی عمل میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ اسی لیے الیکشن کمیشن کا خوف بے جا معلوم ہوتاہے اور پیش کردہ جواز کوئی بھی فہمیدہ شخص تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اب تو امن وامان کی صورتحال پھر بھی بہتر ہے۔ اِس سے کئی گناخراب حالات کے باوجود ماضی میں ملک میں عام انتخابات ہوچکے جن کے دوران ہمارے اِداروں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے امن یقینی بنایا۔ اب انتخابی عمل سے فرارسمجھ سے بالاترہے۔
ملک کی حفاظت پر مامور عسکری حکام بھی پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے چودہ مئی کو ہونے والے انتخاب کو ملتوی کرانے کے لیے ایسے عجیب عجیب اور بچگانہ جواز پیش کررہے ہیں جن پر ہنسی آتی ہے ۔مثال کے طور پر تاثر دیاجارہا ہے کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی
کے انتخاب چودہ مئی کو کرائے تونہ صرف دشمن ملک سے جنگ کا خطرہ ہے بلکہ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را بڑے پیمانے پر دہشت گردی کرا سکتی ہے ۔ یہ جواز ناقابلِ فہم ہے، ارے بھئی چودہ مئی کو جنگ لگنے نیز را کی طرف سے بدامنی کے امکانات کیا آٹھ اکتوبر کوالیکشن ہونے سے ختم ہو جائیں گے؟ ہمارے اِداروں سے را اتنی طاقتور کیسے ہو گئی کہ نتخابی عمل کو سبوتاژ کرسکے؟ ہمارے اِداروں میں اتنی صلاحیت ہے کہ اُسے منہ توڑ جواب دے سکیں ۔اِس پر ہرشہری کو کامل یقین ہے ،علاوہ ازیں یہ یقین دہانی کس نے کرائی ہے کہ آٹھ اکتوبرکوالیکشن ہونے سے نہ تو جنگ لگے گی اور نہ ہی را جیسی بدنام ایجنسی مداخلت کرے گی؟ صاف ظاہر ہے سیکورٹی پر مامور اِدارے اور الیکشن کمیشن دراصل حکومتی ہدیات پر عمل پیرا ہیں جسے بھانپتے ہوئے سپریم کورٹ نے وزارتِ دفاع کی طرف سے دائر ہونے والی عرضی ناقابلِ سماعت قرار دے کر رد کردی پھر بھی سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد سے فرار کے لیے بودے جواز تراشنے کاسلسلہ تھم نہیں رہا۔ حکومت نے اسٹیٹ بینک کولیکشن کمیشن کو فنڈز دینے سے قائمہ کمیٹی کے ذریعے روک دیاہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ حکومت کسی صورت انتخابی میدان میں اُترنے کو تیار نہیں کیونکہ مہنگائی سے عام آدمی بلبلا رہے ہیں جوکسی صورت اُس کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دے سکتے بلکہ قوی امید ہے کہ ووٹ دیتے وقت نفرت کا اظہار کرتے ہوئے دیگر امیدواروں کو ترجیح دیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جوں ہی سپریم کورٹ نے چودہ مئی کو صوبائی اسمبلی کے انتخاب کرانے کی تاریخ دی حکومت ، الیکشن کمیشن اور دیگر اِدارے نظرثانی کی عرضی دائر کرتے اسی طرح اب جو سیکورٹی کے اِداروں نے چیف جسٹس کو بریفنگ دینے کے لیے بھاگ دوڑ کی وہی بھاگ دوڑابتدا میں کرلی جاتی تو عدالت حتمی حکم نامہ جاری کرتے وقت شاید عجلت نہ کرتی ۔اب جب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا ہے توعملدرآمد میںرکاوٹیں کھڑی کی جانے لگی ہیںجس پر اذہان میں قیاس تقویت پکڑ رہے ہیں کہ بھاگ دوڑ کا مقصد انتخابی عمل رکوانے کے سوا کچھ نہیں جس کی تائید ملک میں ایک ہی روز انتخاب کرانے کی قرار داد سے بھی ہوتی ہے ۔یہاں ایک سوال ہے جو اِدارے ایک یا دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی عمل کی حفاظت کا فریضہ ادا کرنے سے قاصر ہیں وہ پورے ملک میں عام انتخابات کے دوران کیسے امن و امان کی صورتحال یقینی بنا سکیں گے؟ اگر حکومت چاہتی ہے پورے ملک میں ایک ہی دن الیکشن ہوں آصف زرداری بھی اِس پر آمادہ ہیں تو قومی اسمبلی توڑکر عام انتخابات کا اعلان کردیاجائے ایسا کرنے میں کسی طرف سے کوئی رکاٹ نہیں مگروہ قرارداد پاس کرنے کے ساتھ قومی اسمبلی کی مدت پوری کرنے کی بھی آرزومند ہے اوراسی آڑ میں دوصوبوں میں خلافِ آئین روزمرہ کے امور سرانجام دینے کو جائز تصور کرتی ہے جو ذہنوں میں ایسے شبہات جنم دینے کا باعث ہے کہ حکومت کو فی الحال انتخاب کرانے سے دلچسپی ہی نہیں کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں اُسے بدترین شکست واضح نظر آرہی ہے ۔
سپریم کورٹ نے بہت اچھا کیا جو سیاسی جماعتوں کو گفتگو کا موقع دیا تاکہ مل بیٹھ کر کوئی درمیانی راستہ نکال سکیں مگر جب تمام جماعتیں مذاکرات پر آمادہ نیز رویے میں لچک لانے پر تیار ہیں تو مولانا فضل الرحمٰن سخت موقف سے نہ صرف الگ تھلگ کھڑے ہیں بلکہ انتخاب کی صورت میں عوام کے پاس جانے کی دھمکی دیتے نظرآتے ہیں ۔دھمکی سے عیاں ہے کہ وہ انتخابی فضا بنانے کے خلاف چلنے کی بات کررہے ہیں کیونکہ اگر ووٹوں کے لیے عوام کے پاس جانے کی بات ہوتی تو سپریم کورٹ کا حکم بھی تو یہی ہے جس پروہ طیش میں ہیں، حالانکہ انھیں کِس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ کسی سیاستدان کو سیاست سے مائنس کریں۔ یہ حق عوام کا ہے اور عوام اِس وقت بلامبالغہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ ہیں۔ اسی بنا پر تیرہ جماعتیں خوفزدہ ہیں اور الیکشن سے فرارکے جواز پیش کررہی ہیں کیونکہ انھیں بخوبی معلوم ہے کہ ایک برس کے دوران حکومت کی غلط پالیسیوں اور احمقانہ فیصلوں سے جس طرح مہنگائی اور بے روزگار ی میں اضافہ ہوا ہے اِ س کے بعد پی ڈی ایم کے کسی امیدوار کو کوئی دانشمند ووٹ دینے کا حوصلہ کرہی نہیں سکتا،ویسے بھی مولانا تو اسمبلی کے ممبر ہی نہیں اسی بناپراُن کے منہ سے مائنس کرنے کی دھمکی عجیب لگتی ہے۔ حامد میرجیسے باخبرصحافی نے ایک نجی چینل پر گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران ایسے واقعات پیش آئیں گے جس سے انتخاب ملتوی ہوسکتے ہیں۔ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عین ممکن ہے جلدہی بلاول ،فضل الرحمٰن ،شہباز شریف اور عمران خان شاید اِداروں کے خلاف یکے بعد دیگرے بولتے نظر آئیں۔ ایسا ہونا ملک کی بدقسمتی ہوگی کیونکہ اِدارے کمزور کرنا ملک کمزور کرنے کے مترادف ہے ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے انتخابی عمل کی طرف جانا زیادہ سودمندہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر