وجود

... loading ...

وجود
وجود

بے گناہ کون ہے اِس شہر میں قاتل کے سِوا

پیر 10 اپریل 2023 بے گناہ کون ہے اِس شہر میں قاتل کے سِوا

معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرقہ وارانہ فسادات ہندوستان کی پیشانی پر ایک بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں۔سیاسی قیادت ان خوفناک فسادات کا سدباب کرنے کی بجائے ان میں اپنا سیاسی فائدہ تلا ش کرتی رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ فسادات اس ملک میں ایک منافع بخش سیاسی صنعت کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ حالیہ رام نومی کے موقع پر ملک کے کئی حصوں میں مسلمانوں کے جان ومال کے ساتھ کھلواڑ اس کا تازہ ثبوت ہے ۔ ہر فساد میں جانی ومالی نقصان مسلمانوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے ۔ تحقیقات ہوتی ہے اور عدالتی کارروائی کا سوانگ بھی رچایا جاتا ہے ۔ لیکن کسی بھی مجرم کو سزا نہیں ہوتی۔ اس کا تازہ ثبوت میرٹھ کے ملیانہ قصبے میں مسلمانوں کے قتل عام پر عدالتی فیصلہ ہے ۔ ملیانہ میں 23/مئی 1987کو جن 72مسلمانوں کو سفاکی اور بربریت کے ساتھ قتل کیا گیا تھا، ان کے سارے ملزمان ثبوتوں کے فقدان کی وجہ سے باعزت بری کردیے گئے ہیں۔ 37برسوں تک چلی عدالتی کارروائی کا نتیجہ صفر برآمد ہوا ہے ۔ عدالت کا تازہ فرمان یقینا متاثرین کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے جس کی ٹیس وہ تازندگی محسوس کریں گے ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 1987میں جس وقت یہ قتل عام ہوا تھا تو ملک میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ جن اپوزیشن لیڈروں نے وہاں جاکر متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی تھی، ان میں بی جے پی لیڈر لال لرشن اڈوانی بھی شامل تھے ۔ آنجہانی وزیراعظم وی پی سنگھ بھی ملیانہ گئے تھے ۔ ان کے ساتھ ملیانہ جانے والے صحافیوں میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ ملیانہ میں ہم نے مظلوموں کی دلخراش داستانیں خود ان ہی کی زبانی سنی تھیں۔ وہاں ایک گہرا کنواں تھا جس میں پی اسے سی کی مدد سے درجنوں لوگوں کو مارمار کر ڈال دیا گیا تھا۔ آج جب ملیانہ قتل عام کے ۰۴ ملزمان کو ایڈیشنل ضلع جج لکھوندر سود کی عدالت نے بری کیا ہے تو اس میں نہ تو موت کے اس کنویں کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی ان لوگوں کا جو اس قتل عام کے گواہ بنے تھے ۔ ۶۳سال کے تھکا دینے والے اس بے سود عدالتی عمل کے بعد تمام ملزمان کی رہائی کو اگر کوئی عنوان دیا جاسکتا ہے تو وہ علی سردار جعفر ی کا یہ شعر ہے
تیغ منصف ہو جہاں’ دارورسن ہوں شاہد
بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا
جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں توگجرات سے میرٹھ تک اس قسم کی خبروں کا ایک سلسلہ ہے ۔ یہ سب فسادات کے دوران ہونے والی سنگین وراداتوں کی دلخراس کہانیاں ہیں جن کے کردار ایک جیسے ہیں۔ ان کو سزا دلانے والوں کی شکلوں اورعمل میں حیرت انگیز مشابہت ہے ۔ فسادات میں وحشیانہ طورپر قتل ہونے والوں کے چہرے لوگوں کی یادداشت میں محفوظ نہیں رہتے مگر ہم جیسے اخبار نویس جنھوں نے ان فسادات کو قریب سے دیکھا ہے ، وہ انھیں کبھی بھلا نہیں سکتے ۔ اپنی آنکھوں کے سامنے گولیاں اورخنجر چلتے ہوئے دیکھنایا پھر مورچری میں لاشوں کے انبار وں کی چشم دید رپورٹنگ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ۷۸۹۱ میں میرٹھ کے ان فسادات کے دوران معروف انگریزی صحافی دوست سمتا گپتا اور میں پی اے سی کو گولی سے بال بچے تھے ۔میرٹھ کی ایک گلی میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پی اے سی کے ظالم جوانوں نے ہمارے اوپر بندوقیں تان دی تھیں۔ وہ اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کرنا چاہتے تھے اور ہمیں انھیں بے نقاب کرنے کی ضد تھی۔ اگر بروقت مجسٹریٹ کی گاڑی وہاں نہیں پہنچتی تو کوئی انہونی بھی ہوسکتی تھی۔ سمتا اورمیں آج بھی اس واقعہ کو یاد کرتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔
یکم فروری1986کو بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد ملک میں جو زبردست اشتعال پھیلا تھا، میرٹھ اور ملیانہ اس کی زدمیں آنے والے دوسب سے بدنصیب علاقے تھے ۔ میرٹھ کے ہاشم پورہ علاقہ سے پی اے سی کے جوانوں نے چالیس مسلم نوجوانوں کا اغواء کرکے گولیوں سے بھون کران کی لاشین ہنڈن ندی میں بہادی تھیں۔ اس وقت وبھوتی نارائن رائے جیسا فرض شناس پولیس آفیسر اگر غازی آباد کا ایس ایس پی نہ ہوتا تو ہاشم پورہ کا قتل عام بھی منظرعام پر نہیں آتا۔ان کی کوششوں سے ہی برسوں بعد ہاشم پورہ کے قاتلوں کو سزا ملی۔انھوں نے ہاشم پورہ قتل عام کو حراستی قتل کی سب سے بڑی واردات قرار دیا تھا۔ پولیس ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعدوبھوتی نارائن رائے نے اس واقعہ پر ایک پوری کتاب ‘ہاشم پورہ 22/مئی’ لکھی جو اردو، ہندی انگریزی تینوں زبانوں میں شائع ہوچکی ہے ۔ملیانہ کا معاملہ بھی سیشن کورٹ میں اٹکا ہوا تھا۔ وبھوتی نارائن رائے اور سینئر ہندی صحافی قربانی علی نے دومتاثرین کو ساتھ لے کر /۹۱اپریل ۱۲۰۲ کوالہ آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ملیانہ قتل عام کی جانچ ایس آئی ٹی سے کرانے کی اپیل کی تھی۔اسی کے بعد عدالتی کارروائی میں تیزی آئی تھی۔وبھوتی نارائن رائے نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ملیانہ میں ہندوؤں کے ایک مشتعل ہجوم اور پی اے سی کے جوانوں نے درجنوں مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کردیا۔ہاشم پورہ اور ملیانہ میں فرق یہ تھا کہ ملیانہ کے متاثرین ہاشم پورہ کی طرح پولیس کی حراست میں نہیں تھے۔ ملیانہ کے حصہ میں ہاشم پورہ سے زیادہ بدنامی آئی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملیانہ قتل عام کی جانچ کے لیے اس وقت کے وزیراعلیٰ ویربہادر سنگھ نے مئی 1987کے آخری ہفتہ میں الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جی کے سری واستو کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن قایم کیا تھا۔اس کمیشن نے جانچ بھی کی لیکن اس کی رپورٹ آج تک منظرعام پر نہیں آسکی ہے ۔اگر آپ آزادی کے بعد برپا ہونے والے فسادات کی جانچ کرنے والے کمیشنوں پر نظر ڈالیں تو سب کا ایک ہی انجام ہوا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی حکومت نے ان مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی جو فساد برپاکرتے ہیں اور بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فسادات کے دوران خود سرکاری مشنری کا رویہ فسادیوں سے
مختلف نہیں ہوتا اور پولیس تو اس میں ایک اہم فریق ہوتی ہے ۔ اگر اس کی حقیقت جاننی ہوتو آپ کو وبھوتی نارائن رائے کی کتاب ‘فرقہ وارانہ فسادات اور ہندوستانی پولیس’ کا مطالعہ کرنا چاہئے ، جس میں انھوں نے خود اپنے ہی محکمہ کی جانبداریوں اور فرقہ وارانہ ذہنیت کو پوری جرات سے بے نقاب کردیا ہے ۔
ملک کو جھنجھوڑنے والے ملیانہ قتل عام میں 72 بے قصوروں کی موت ہوئی۔ اس میں 93 لوگوں کے خلاف ایف آئی آردرج کرکے انھیں ملزم بنایا گیا۔آٹھ سو سے زیادہ تاریخیں پڑیں، تیس ملزمان ابھی تک فرار بتائے جاتے ہیں،23ملزمان کی موت ہوچکی ہے اور باقی چالیس زندہ ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا ہے ۔آزاد ہندوستان میں ہر مسلم کش فساد کا مقدر یہی ہے ۔ہرفساد کے بعد اس کی عدالتی تحقیقات ہوتی ہے ۔ ملزمان کے خلاف مقدمے بھی چلتے ہیں، لیکن نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک میں جو فسادات برپا ہوئے اور جن میں ہزاروں بے گناہ مسلمان ہلاک ہوئے ان میں آج تک کسی ملزم کو کوئی سزا نہیں ملی۔ خود دن کے اجالے میں بابری مسجد شہید کرنے والے باعزت بری ہوگئے ۔اس سلسلہ کا سب سے خوفناک فساد1992-93میں بمبئی میں ہوا تھا جس کی تحقیقات جسٹس سری کرشنا کمیشن نے نہایت ایمانداری کے ساتھ کی تھی اور تمام مجرموں کو بے نقاب کردیا تھا۔ یہ شاید کسی فساد کی سب سے سچی تحقیقاتی رپورٹ تھی، لیکن جب اسے اسمبلی میں پیش کیا گیا تو وہی شیوسینا اقتدار میں تھی جس نے فساد برپا کیا تھا۔ اس وقت کی شیوسینا حکومت نے اس رپورٹ کو نامنظور کردیا اور یہ آج تک فرقہ وارانہ فسادات کی سیکڑوں تحقیقاتی رپورٹوں کے ساتھ خاک پھانک رہی ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر