وجود

... loading ...

وجود
وجود

بے سہارا ملکی معیشت کا سہارا کون بنے گا؟

جمعرات 26 جنوری 2023 بے سہارا ملکی معیشت کا سہارا کون بنے گا؟

 

اِس وقت دنیا میں کون سا ایسا ملک ہے ،جسے مہنگائی اور کساد بازاری کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا۔تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی تو بات ہی چھوڑیے ،فی الحال تو ترقی یافتہ ممالک بھی مہنگائی کے گرداب میں چہار جانب سے بری طرح سے پھنسے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ المیہ ملاحظہ ہو کہ مہنگائی کا عفریت عظیم برطانیہ کے دو، جمہوری وزیراعظم کا اقتدار نگل چکا ہے ۔جبکہ فرانس ،جرمنی ،اٹلی ،چین ،جاپان ،آسٹریلیا حتیٰ کہ عالمی سپر پاور امریکا کی حکومتیں بھی عالمی کساد بازاری کے طوفان کے مقابل سوکھے پتوں کی مانند لرز رہی ہیں ۔ جب مغربی اور یورپی ممالک ہی عالمی کساد بازاری کے شکنجہ سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کروا رہے تو ایسے میں قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی پاکستانی معیشت سے معجزے دکھانے کی خوش اُمید ی رکھنا ،سراسر زیادتی ہی بلکہ بے وقوفی بھی ہے۔
وہ ضرب المثل تو یقینا آپ نے سُنی ہی ہوگی کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہوتاہے۔ اگرتھوڑی دیر کے لیے ہی چشم تصور میں ،ہاتھی کو مہنگائی تسلیم کرلیا جائے تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سرِ دست، دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک کا پاؤں ،ہاتھی کے پاؤں تلے آگیا ہے اور پاکستان جیسے ممالک کا تو معاشی پاؤںبری طرح سے کچلا گیا ہے۔ہماری ملکی معیشت کس بُری طرح سے عالمی کساد بازاری کی زد پر ہے ،اِس کا اندازہ صرف اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان تاجروں کے کسی وفد سے ملاقات کرتے ہیں تو بے چارے تاجر سوال کرنے کے بجائے گورنر اسٹیٹ بنک کے سامنے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردیتے ہیں ۔ جبکہ گورنر اسٹیٹ بنک اپنی معاشی تنگ دامنی کے باعث اس قدر مجبو ر ہیں کہ وہ روتے ہوئے تاجروں کو چپ کرانے کے لیے کوئی جھوٹا دلاسہ بھی اِس خوف سے نہیں دیتے کہ کہیں اُنہیں تاجروں سے کوئی ایسا وعدہ نہ کرنا پڑ جائے ،جسے پورا کرنا اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی انتظامی دست رس سے باہر ہو۔
یاد رہے کہ ہمارے گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ،جناب جمیل احمد صاحب سیدھے سادھے جمع ،تفریق اور ضرب ،تقسیم کے آدمی ہیں اور وہ جو بھی بات کرتے ہیں بالکل کھری اورسیدھی کرتے ہیں ۔اس لیے اُن کی کہی گئی زیادہ تر باتیں یا بیان کی گئی معاشی پالیسیاں سیدھا تاجروں کے دل میں تیر کی مانند کھب جاتی ہیں ۔ موصوف نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہاہے کہ ’’ ڈالر کے ریٹ کا فرق تب ہی ختم ہوگا جب عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا پروگرام مکمل ہوگا پروگرام کی تکمیل پر کرنسی مارکیٹ کے اعتدال پر آنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔اس کے لیے ہمیں آج مشکل فیصلے لینے ہوں گے تاکہ آنے والا کل بہتر ہوسکے۔ اس کے لیے خرچے کم کرنے کی گنجائش نہیں بلکہ آمدنی میں اضافہ کرنا ہوگا۔‘‘مگر یہاں انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کب تک مکمل ہوگا؟دراصل وہ بتا بھی نہیں سکتے تھے ،کیونکہ ابھی تک تو آئی ایم ایف پروگرام ٹھیک سے شرو ع بھی نہیں ہوا ،اور آئی ایم ایف کے منتظمین ابھی تک اِسی مخمصے میں ہیں پاکستان کو قرضہ کی نئی قسط دی بھی جائے یا نہیں ؟یعنی سردست امریکی ڈالر کا پاکستانی روپیہ مقابلے میں کسی ایک مقام پر کھڑا ہونا ممکن نہیں ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے قومی کفایت شعاری کمیٹی (این اے سی) بھی مختلف تجاویز پر غور کررہی ہے جن میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی، وزارتوں/ ڈویژنوں کے اخراجات میں 15 فیصد کمی، وفاقی وزرائ، وزیر مملکت، مشیروں کی تعداد 78 سے کم کرکے صرف 30 کرنا شامل ہیں جبکہ باقی بلامعاوضہ کام کریں گے اور قومی خزانے سے کسی قسم کے وسائل سے مستفید نہیںہوں گے۔مگر یہاں بھی لطیفہ یہ ہے کہ حکومت ایک جانب کفایت شعاری کے نام پر سفارشات کو حتمی شکل دینے کا کام کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف حکومت نے ترقیاتی اہداف کے حصول کے پروگرام میں 3 ارب روپے کا اضافہ کیا اور صوابدیدی فنڈنگ کو 86 ارب روپے سے بڑھا کر 89 ارب روپے کر دیا جو پارلیمنٹیرینز کے ذریعے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اَب دیکھنا یہ ہے کہ قومی کفایت شعاری کمیٹی بڑے پبلک سیکٹر اداروں کے نقصانات سے کیسے نمٹے گی کیونکہ اس سال پی آئی اے کا خسارہ 67 ارب روپے تک پہنچ گیا، پاکستان اسٹیل ملز، پاسکو، پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اور دیگر بڑے پیمانے پر نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے تشکیل دی گئی کفایت شعاری کمیٹی اگلے ہفتے اپنی رپورٹ اُنہیں بھجوائے گی۔ کیا وہ مذکورہ کمیٹی کی رپورٹ کے ذریعے پیش ہونے والی انتظامی نوعیت کی سفارشات پر عمل درآمد کا مشکل فیصلہ کرسکیں گے؟بظاہر تو ناممکن لگتاہے ، اگر کرگئے تو بہت بڑی بات ہوگی۔
دوسری جانب گورنر اسٹیٹ بنک نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ تمام بینکس کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ بندرگاہوں پر اترے ہوئے کینٹینرز کلئیر کرنے کے لئے امپورٹرز کی سہولت کاری کریں۔مذکورہ بیان کے تسلسل میں فوری اور سب سے اچھی خبر یہ سننے میں آئی ہے کہ وفاقی وزیر بحری امور سینیٹر فیصل سبزواری نے کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم پر درآمد کنندگان کے پھنسے ہوئے ہزاروں کنٹینرز کے مکمل چارجز معاف کردیے ہیں۔ تاجر برادری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ ہم اس معاملے پر کئی روز سے اسٹیک ہولڈز سے مشاورت کر رہے تھے اورپھر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میںشپنگ لائنز کا کاروبار جاری رہے گا، دنیا بھر میں کساد بازاری ہے، چین نے کورونا کی وجہ سے پابندیاں عائد کیں، جن ممالک نے ڈیفالٹ کیا وہاں بھی شپنگ کمپنیوں نے کاروبار بند نہیں کیا اور پاکستان میں بھی ایسا نہیں ہونے جارہا‘‘۔یہ اقدام اِس لیئے بھی بالکل ٹھیک لگتا ہے کہ اگر ملکی معیشت شدید خسارے میں ہے تو خسارے سے نکلنے کے لیئے حکومت کو جو پیسے درکار ہوں گے وہ بھی کاروباری سرگرمیوں سے ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ یقینا ایل سیز کھلنے کا سلسلہ شروع ہونے سے معطل کاروباری سرگرمیوں کا ازسرِ نو آغاز ہو گا اور ملکی معیشت کا پہیہ سست رفتاری سے ہی سہی بہرحال چلنا تو شروع کرے گا۔
لیکن دوسری طرف اِس حکومتی اقدام کا یہ منفی پہلو بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ درآمدات کے باعث پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی بڑھے گا ۔اَب حکومتی معاشی اداروں کا اصل امتحان یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں اور تجارتی خسارہ کے درمیان توازن کیسے قائم کیا جاتاہے۔ اس بابت بھی گورنراسٹیٹ بنک نے بڑی پتے کی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ امسال گروتھ کی شرح دو فیصد تک رہنے کا امکان ہے جبکہ امپورٹس کا حجم کم کرنے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارا بھی کم ازکم دس ارب ڈالر سے نیچے لایا جاسکتا ہے۔ عالمی کساد بازاری اور مہنگائی کے باعث بیرونی ممالک سے ترسیلات زر میں کمی ہورہی ہے اورملکی سیاست میں سر گرم حکومت مخالف عناصر کی منفی سرگرمیوں سے فزوں تر ہوتی سیاسی کشیدگی کے نتیجے میں چھائی بے یقینی کی فضا ملکی معاشیات پر جو برے اثرات مرتب کر رہی ہے وہ ملک و قوم کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے اسی بے یقینی کی وجہ سے پاکستان کو درپیش اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے مددگار کے طور پر پیش آنے والے عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے بھی پاکستان کے ساتھ طے شدہ معاہدات پر عمل درآمد کے لیے مزید سخت شرائط لگائی جارہی ہیں جنہیں تسلیم کرنے کی صورت میں پاکستانی عوام مزید مشکلات کا شکار ہوسکتے ہیں‘‘۔
دراصل گورنر اسٹیٹ بنک جمیل احمد صاحب سادہ ترین الفاظ میں کہنا یہ چاہ رہے ہیں ،سیاسی استحکام کے بغیر ملکی معیشت کے لاعلاج مرض کا شافی علاج کسی بھی صورت نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ہمارے ملک میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ سیاسی استحکام پاکستانی عوام، تاجر وں ، صنعت کاروں اور سب سے بڑھ کر ملکی معیشت کے مفاد میں تو ضرور ہے لیکن بعض عاقبت نااندیش اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں کے مفاد میں بالکل بھی نہیں ہے اور مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ایسے سیاست دانوں کی دلی خواہش یہ ہے کہ ملک زیادہ سے زیادہ سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو کر جلد ازجلد ڈیفالٹ ہوجائے ۔ تاکہ اُن کے لیئے اقتدار کی مشکل راہیںہموار اور موافق ہوسکیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
میں مینار پاکستان ہوں! وجود جمعرات 23 مارچ 2023
میں مینار پاکستان ہوں!

آٹے کے ساتھ دو تھپڑ مفت وجود جمعرات 23 مارچ 2023
آٹے کے ساتھ دو تھپڑ مفت

اِس حادثہ وقت کو کیانام دیا جائے وجود جمعرات 23 مارچ 2023
اِس حادثہ وقت کو کیانام دیا جائے

23 مارچ 1940 ء کے تاریخی جلسے کا آنکھوں دیکھا حال وجود جمعرات 23 مارچ 2023
23 مارچ 1940 ء کے تاریخی جلسے کا آنکھوں دیکھا حال

لیڈی ہائی جیکر وجود بدھ 22 مارچ 2023
لیڈی ہائی جیکر

پینے کے صاف پانی کی کمی وجود بدھ 22 مارچ 2023
پینے کے صاف پانی کی کمی

اشتہار

تہذیبی جنگ
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے

توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا بلاک کر دیا گیا وجود هفته 04 فروری 2023
توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا بلاک کر دیا گیا

برطانوی رکن پارلیمنٹ کی پاکستانیوں سے متعلق بیان پر معافی وجود بدھ 01 فروری 2023
برطانوی رکن پارلیمنٹ کی پاکستانیوں سے متعلق بیان پر معافی

اوآئی سی کا غیر معمولی اجلاس، یورپ میں قرآن مجید جلانے کے اشتعال انگیز واقعات کی مذمت وجود بدھ 01 فروری 2023
اوآئی سی کا غیر معمولی اجلاس، یورپ میں قرآن مجید جلانے کے اشتعال انگیز واقعات کی مذمت

مودی سرکار کی مسلم تاریخ مٹانے کی مہم، ایوان صدر کے مغل گارڈن کا نام تبدیل وجود پیر 30 جنوری 2023
مودی سرکار کی مسلم تاریخ مٹانے کی مہم، ایوان صدر کے مغل گارڈن کا نام تبدیل

بھارتی انتہا پسندوں کا حکومت سے ٹیپو سلطان سے منسوب باغ کا نام بدلنے کا حکم وجود اتوار 29 جنوری 2023
بھارتی انتہا پسندوں کا حکومت سے ٹیپو سلطان سے منسوب باغ کا نام بدلنے کا حکم

اشتہار

شخصیات
انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے وجود اتوار 12 مارچ 2023
انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے

جسٹس (ر) ملک محمد قیوم انتقال کر گئے وجود جمعه 17 فروری 2023
جسٹس (ر) ملک محمد قیوم انتقال کر گئے

معروف ہدایت کار، اداکار اور ٹی وی میزبان ضیاء محی الدین انتقال کر گئے وجود پیر 13 فروری 2023
معروف ہدایت کار، اداکار اور ٹی وی میزبان ضیاء محی الدین انتقال کر گئے
بھارت
بھارت کے لیے نامزد امریکی سفیر کا نام 2 سال کی تاخیر کے بعد منظور وجود جمعرات 16 مارچ 2023
بھارت کے لیے نامزد امریکی سفیر کا نام 2 سال کی تاخیر کے بعد منظور

بھارت کے تیار کردہ کھانسی کے شربت سے بچوں کی ہلاکت، کمپنی کے 3 ملازمین گرفتار وجود اتوار 05 مارچ 2023
بھارت کے تیار کردہ کھانسی کے شربت سے بچوں کی ہلاکت، کمپنی کے 3 ملازمین گرفتار

خالصتان تحریک، مودی سرکار کی بھارتی پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی سازش وجود هفته 04 مارچ 2023
خالصتان تحریک، مودی سرکار کی بھارتی پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی سازش

برطانوی اخبار نے مودی سرکار کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کر دیا وجود پیر 20 فروری 2023
برطانوی اخبار  نے مودی سرکار کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کر دیا
افغانستان
افغان صوبہ کنڑ میں فائرنگ، کالعدم ٹی ٹی پی کمانڈر نور سعید محسود ہلاک وجود جمعرات 23 فروری 2023
افغان صوبہ کنڑ میں فائرنگ، کالعدم ٹی ٹی پی کمانڈر نور سعید محسود ہلاک

طالبان قیادت میں غیر معمولی اختلافات، وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کی اعلی قیادت پر تنقید وجود هفته 18 فروری 2023
طالبان قیادت میں غیر معمولی اختلافات، وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کی اعلی قیادت پر تنقید

سعودیہ کے بعد امارات نے بھی افغانستان میں سفارت خانہ بند کر دیا وجود پیر 06 فروری 2023
سعودیہ کے بعد امارات نے بھی افغانستان میں سفارت خانہ بند کر دیا
ادبیات
اردو کے ممتاز شاعر احمد فراز کا یوم ولادت وجود جمعرات 12 جنوری 2023
اردو کے ممتاز شاعر احمد فراز کا یوم ولادت

کراچی میں دو روزہ ادبی میلے کا انعقاد وجود هفته 26 نومبر 2022
کراچی میں دو روزہ ادبی میلے کا انعقاد

مسجد حرام کی تعمیر میں ترکوں کے متنازع کردار پرنئی کتاب شائع وجود هفته 23 اپریل 2022
مسجد حرام کی تعمیر میں ترکوں کے متنازع  کردار پرنئی کتاب شائع