وجود

... loading ...

وجود
وجود

آج کھانا صرف حامد اللہ کے لیے بھیجا جائے

جمعه 20 جنوری 2023 آج کھانا صرف حامد اللہ کے لیے بھیجا جائے

میرٹھ کے مفتی عصمت اللہ کا تعلق محلہ مفتی صاحبان میں سکونت پذیر مفتیوں کے مشہور خاندان سے تھا۔اپنے بزرگوں کی روایت کے مطابق مفتی صاحب بھی عالم فاضل آدمی تھے۔طویل عرصہ ایک مقامی سرکاری مدرسے میں اردو اور فارسی پڑھانے پر مامور رہے۔
مفتی صاحب کے صاحب زادے حامد اللہ نے جب ہوش سنبھالا تو انھوں نے بچے کی تربیت کے لیے ایک نرالی راہ اختیار کی۔ابتدا میں گھر پر خود ہی اردو اور فارسی پڑھانا شروع کی۔جب دیکھا کہ میاں صاحب زادے لکھنے پڑھنے میں رواں ہو گئے ہیں تو حکم ہوا کہ روزانہ اپنی پسند کے کسی موضوع پر اردو میں ایک مضمون لکھ کر ہمیں دکھایا کرو۔دل چسپ بات یہ ہے کہ موضوع کی کوئی قید نہیں تھی ۔حامد اللہ چاہے تو گائے ، بھینس پر بھی لکھ سکتا تھا ، اور چارپائی ، برتن اور پھول جیسے موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کی اجازت تھی ۔اب فنِ مضمون نگاری سیکھنے کی ترتیب یہ تھی کہ میاں صاحب زادے روزانہ ایک صفحے کا مضمون لکھ کر نمازِ مغرب کے بعد ابا حضور کی خدمت میں پیش کرتے۔مفتی صاحب بیٹے کا لکھا ہوا مضمون اونچی ا?واز سے پڑھتے ، مضمون نگار کو خوب شاباش دیتے اورسال کے ا?خر میں یہ تین سو پینسٹھ مضامین مجلّد کرا لیے جاتے۔نیا سال شروع ہوتا تو مفتی صاحب کی طرف سے حامد اللہ کو دو کام سونپے جاتے۔پہلا یہ کہ مضمون نویسی کی یہ مشق حسبِ معمول جاری رکھی جائے ، اور دوسرا یہ کہ مضمون نگار گزشتہ برس اسی تاریخ کو لکھے گئے اپنے مضمون کی سرخ روشنائی سے خود ہی اصلاح بھی کرے۔مضمون نویسی کی یہ مشق کئی برس تک جاری رہی ۔
حامد اللہ تھے تو آخر بچے ہی ،سو کسی روز مضمون لکھنے کا ناغہ بھی ہو ہی جاتا۔اور مضمون نویسی کی مشق میں ناغہ مفتی عصمت اللہ کو ہر گز گوارا نہ تھا۔چنانچہ جس رو ز حامد اللہ مضمون نہ لکھ پاتے ، اْس روز انھیں سزا ضرور ملتی۔لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مفتی صاحب بیٹے سے خفا ہوتے ، نہ ہی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ، بلکہ تنبیہ کے لیے بھی انھوں نے ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا۔عام معمول یہ تھا کہ دونوں باپ بیٹے رات کا کھانا دیوان خانے میں اکٹھے کھاتے تھے۔لیکن جس دن حامد اللہ مضمون نہ لکھتے ، اْس شام مفتی صاحب زنان خانے میں کہلوا بھیجتے کہ آج کھانا صرف حامد اللہ کے لیے بھیجا جائے۔کھانا ا? جانے کے بعد حامد اللہ کو حکم ہوتا کہ آج تم اکیلے کھانا کھاو ، ہم نہیں کھائیں گے۔اور یہ ایسی سخت سزا تھی ، جس کی حامد اللہ تاب نہ لا پاتے۔یہی وجہ تھی کہ بعض مرتبہ تیز بخار میں جلتے بھْنتے بھی وہ ایک صفحے کا مضمون ضرور لکھ لیتے تاکہ شام کو انھیں اکیلے کھانا نہ کھانا پڑے۔
چونکہ رات کو حامد اللہ دیوان خانے میں والد کے پاس ہی سوتے تھے ، اس لیے مفتی صاحب سونے سے پہلے انھیں تاریخ اسلام کی برگزیدہ اور معروف شخصیات کی زندگیوں کے قصے سنایا کرتے۔چنانچہ گھریلو تعلیم مکمل ہونے کے بعد جب حامد اللہ کو انگریزی سکول میں داخل کرایا گیا، تب مفتی صاحب کی طرف سے حکم ہوا کہ اب اپنی پسند کے موضوع پر لکھنے کے بجائے پچھلی شب کو سْنے گئے مشاہیر کے واقعات میں سے کوئی ایک قصہ اپنے الفاظ میں لکھ کر دکھایا کرو۔
مالک رام نے ‘ تذکرہِ معاصرین ‘ میں مفتی عصمت اللہ کے جس بیٹے کی مضمون نگاری کا یہ قصہ بیان کیا ہے ، انھوں نے بڑے ہو کر ادبی دنیا میں حامد اللہ افسر میرٹھی کے نام سے شہرت پائی۔جوتعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ جوبلی کالج لکھنو میں اردو کے استاد مقرر ہوئے اور وائس پرنسپل کے عہدے تک ترقی پائی۔شاعری ، افسانہ ، ڈرامہ ، تنقید ، ترجمہ ، بچوں کے لیے کہانیاں ، الغرض مختلف اصنافِ ادب میں کئی کتابیں بطور یادگار چھوڑیں۔یہ اشعار انھی کے ہیں۔۔
تاروں کا گو شمار میں آنا محال ہے
لیکن کسی کو نیند نہ آئے تو کیا کرے
جو غم حد سے زیادہ ہو ، خوشی نزدیک ہوتی ہے
چمکتے ہیں ستارے ، رات جب تاریک ہوتی ہے
بے شک اس قصے میں آج کل کے ماں باپ کے لیے بڑا سبق
پنہاں


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر