وجود

... loading ...

وجود
وجود

عمرکومعاف کردیں

اتوار 04 دسمبر 2022 عمرکومعاف کردیں

آدھی رات کا وقت تھا لوگ گھروںمیں آرام کررہے تھے ماحول پرایک ہو کا عالم طاری تھا اندھیرااتنا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دے رہاتھا بیشتر گھروں میں تاریکی تھی غالباً زیادہ تر لوگ سو گئے تھے اکا دکا گھروںمیں زردی مائل روشنی بکھری ہوئی تھی اس عالم میں ایک باوقار شخص ،نورانی صورت ،چہرے پر سختی نمایاں، شکل و صورت ایسی کہ انہیں دیکھ کر ایمان تازہ ہو جائے وہ مختلف گلیوں اور بازاروںسے ہوتے ہی ایک مکان کے آگے رک گئے روشندان سے باہر جھانکتی روشنی سے محسوس ہورہاتھا کہ دیا ٹمٹا رہاہے کھڑکی سے باتیں کرنے کی مدہم مدہم آوازیں آرہی تھی نورانی صورت والے نے کان کھڑکی کے ساتھ لگا دئیے کوئی لڑکی اپنی والدہ سے کہہ رہی تھی
’’ہم کب تک فاقے کرتے رہیں خلیفہ کو اپنا حال بتانے میں کیا امر مانع ہے؟
’’ میں عمرؓ کو کیوں بتائوں؟ بوڑھی عورت استکامت سے بولی وہ خلیفہ بنے ہیں تو انہیں ہماری خبرہونے چاہیے لڑکی اپنی والدہ کو پھر سمجھانے لگ گئی۔ان کی باتیں سن کر کھڑکی سے کان لگائے نورانی صورت والا کانپ کانپ گیا ۔اس نے بے اختیار دروازے پر دستک دیدی ۔۔۔ اس وقت۔ کون ؟ اندر سے ڈری۔ سہمی آواز میں کسی نے پوچھا گھبرائیں مت ۔نورانی صورت والے نے بڑی متانت سے جواب دیا میں عمرؓ کی طرف سے آیا ہوں ۔دروازہ کھلاخاتون نے اسے اندر آنے کی اجازت دی اس نے خاتون کی خیریت اور حال احوال دریافت کیالڑکی کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اس نے فرفر انہیں اپنے فاقوںکااحوال کہہ ڈالا
’’ عمرؓ کی طرف سے میں معذرت چاہتاہوں ۔نورانی صورت والے نے بڑے رقت آمیز لہجے میں خاتون کو کہا۔۔ لیکن اسلامی سلطنت بڑی ہے وہ کہاں کہاں توجہ دیں ؟جواب میں خاتون نے وہ بات کہہ ڈالی جس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی ۔’’ عمرؓ اگر توجہ نہیں دے سکتا تو اتنی فتوحات کیوں کئے جارہا ہے؟رب کو کیا جواب دے گا؟
’’ماںجی ! ۔نورانی صورت والا کہنے لگا ’’ عمرؓ کو معاف کردیں
’’کیوں۔معاف کردوں ؟خاتون نے جواب دیا وہ کون سامیری خبر گیری کو آیا ہے
’’ماںجی ۔۔ نورانی صورت والے نے مضطرب ہوکر پہلو بدلا۔۔اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اس نے اٹک اٹک کرکہا میں ہی عمرؓ ہوں۔ وہ شخصیت جس کے نام سے قیصرو کسریٰ جیسی عالمی طاقتیں تھر تھر کاپتی تھیں ایک عام خاتون کے سامنے جوابدہ اندازمیں کھڑے تھے خاتون کے چہرے پر قوس قزح کے کئی رنگ بکھر گئے، بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی بولی ،اگر تم عمرؓ ہو تو مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں دیر سے آئے ہو لیکن کوئی بات نہیں مسلمانوںکا خلیفہ ایسا ہی ہونا چاہیے جو راتوں کو جاگ جاگ کر لوگوںکی خبر گیری کرتا رہے۔اسی جلیل القدر کا ایک قول ہے ’’ اگر دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو قیامت کے روز خدا کے حضور عمر جوابدہ ہوگا’’ دنیا آج تک حکمرانی کا ایک دعویٰ۔ ایسا منشوراور ایسی مثال پیش کرنے سے قاصرہے دنیا جہاں کی غیر مسلم حکومتیں آج بھی حضرت عمرؓ کے دور ِ حکومت پر ریسرچ کرکے اپنے شہریوںکو ریلیف دے رہی ہیں اس کے بر عکس ہماری کی حالت ہے ہم کیا کررہے ہیں ؟ا رباب ِ اختیارکو شایدحالات کی سنگینی کا اندازہ ہو جائے ’’ حکمرانوںکے کتے مربے کھارہے ہیں،اربوںکی سرکاری زمینیں اونے پونے فروخت کی جارہی ہیں کروڑوں روپے کے میلے ٹھیلے سجائے جارہے ہیں ان حالات میںغریب آدمی کو سستا آٹا نہیں دے سکتے تو چوہے مار گولیاںہی دیدیں عوام اپنے بچوںکو اس طرح مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے یہ صرف پاکستان کے غریبوں کے حالات نہیں جنوبی ایشیاء کے بیشتر ممالک کا نوحہ نہیں بلکہ ہر پسماندہ ملک کے گھرگھرکی کہانی ہے پاکستان کے ایک فاضل جج نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ایسے ہی ریمارکس دئیے تھے۔انہوںنے یہ بھی کہاجمہوری حکومت عام آدمی کو سستا آٹا بھی فراہم نہیں کرسکتی تو اس کے اقتدار میں رہنے کا کیا جواز رہ جاتاہے ،خواتین اپنے بچے فروخت کررہی ہیں ہرپسماندہ ملک کے غریب لوگ خودکشیاں کررہے ہیں جو سیاستدان بھی ان کو سبز باغ دکھاتاہے غریب سمجھنے لگ جاتے ہیں یہ ان کے دل کی آوازہے بغور جائزہ لیں تو ایسے حالات ی جمہوری ،سیکولراور اسلامی حکومتوںکے لیے لمحہ ٔ فکریہ بھی۔
دنیامیں کہیں غریبوںکی خبر گیری کا تو سرے سے رواج ہی نہیں۔کوئی حکومت اس طبقہ کے لیے کچھ کرنا بھی چاہتی ہے ’’تو کاریگر‘‘اسے اپنے ذاتی مفادکے لیے مخصوص کرلیتے ہیں طریقہ ٔ کار اتنا پیچیدہ بنادیا جاتاہے کہ غریبوںکیلئے بنائی گئی سکیموںسے غریب فائدہ بھی اٹھانا چاہیں تو نہیں اٹھا سکتے ۔موجودہ حکومت نے بھی عام آدمی کی بھلائی کیلئے اپنی خوشنما ترجیحات کااعلان کررکھاہے لیکن اس سے کوئی تبدیلی آ سکتی ہے نہ آئے گی۔ پاکستانی وزیر ِ اعظم عمران خان کے جذبات دیکھیں تو محسوس ہوتاہے وہ واقعی ملک وقوم کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں یہی دعوے کئی ملکوںکے سربراہ بھی کرتے نہیں تھکتے میرا ان سب کو مشورہ ہے اگر وہ’’ دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو قیامت کے روز خدا کے حضور عمر جوابدہ ہوگا‘‘کو اپنی حکومت کا ماٹو قراردیکراس کی روشنی میں حکمت ِ عملی تیار کریں تو اس سے بہتوںکا بھلاہوگا حالانکہ حکومتوںکے پاس درجنوں خفیہ ایجنسیاں ہوتی ہیں جو ہر فیملی بارے حقیقی سروے تیار کرے جو یونین کونسل سطح پر ان کے وسائل ،ضروریات اور دیگر امورکی مکمل چھان بین کرے جوکسی کاروبار،روزگار یا کسی ملازمت کے اہل ہوںان کو بلا امتیازکسی رشوت یا سفارش اورگارنٹی کے بغیر وسائل مہیا کئے جائیں اس سے نہ صرف معاشرہ میں مثبت تبدیلی آئے گی بلکہ روزگارکے مواقع بھی بڑھیں گے ۔ کیونکہ اکثر غریبوں کو قرضے لینے کے لیے کوئی گارنٹر ہی میسر نہیں آتا جس کی وجہ سے وہ کسی بھی حکومتی سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے عام آدمی کی حالت ِ زار بہتر بنانے کے لیے یہ پروگرام مرحلہ وار بھی شروع کیا جا سکتاہے جن شہروں میں غربت کی شرح زیادہ ہے وہاں ترجیحی بنیادوںپر ایسی ا سکیمیں جاری کی جا سکتی ہیںسب سے اہم بات یہ ہوگی کہ صرف حقدار وںکو ان کا حق ملے گا یہ بات بھی ریکارڈپرہے کہ غریبوںکو ملنے والے قرضوںکی واپسی کی شرح قریباً90% تک ہے جبکہ موٹی رقموںکے بڑے بڑے قرضے یا تو معاف کروا لئے جاتے ہیں یا بیشتر کمپنیاں دیوالیہ ہو جاتی ہیں عام آدمی کو خود روزگار کے قرضے دینے سے حکومت کے وسائل جو اکثر ضائع ہو جاتے ہیں مفید ہاتھوںمیں جانے سے ملک میں حقیقتاً انقلاب بپا ہو سکتاہے یقین جائیے رشوت، شفارش اور کرپشن فری ا سکیمیں ملک کو ایک فلاحی مملکت بنانے میں بے حدممدو معاون ہو سکتی ہیںملک میں خوشحالی آگئی تو کسی کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ غریب آدمی کو سستا آٹا نہیں دے سکتے تو چوہے مار گولیاںہی دیدیں ان تجاویزسے دنیا کی ہر پسماندہ حکومت عمل کرکے اپنے شہریوںکی حالت بہتربناسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر