وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا بھارت میں’عبادت گاہ ایکٹ‘ختم ہوجائے گا؟

پیر 28 نومبر 2022 کیا بھارت میں’عبادت گاہ ایکٹ‘ختم ہوجائے گا؟

مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے عبادت گاہ ایکٹ کے تناظر میں کہا ہے کہ ’’کوئی بھی قانون عدالتی جانچ پڑتالسے ماوراء نہیں ہے۔‘‘ان کا یہ بیان اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ مرکز نے اس معاملے میں جواب داخل کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے جو مہلت مانگی ہے وہ آئندہ 12دسمبر کو ختم ہورہیہے۔امت شاہ کے بیان میں مرکز کے موقف کی جھلک صاف نظرآرہی ہے۔ عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ کی دستوری حیثیت پر سپریم کورٹ میں جو ناجائزسوال کھڑے کئے گئے ہیں، ان پر مرکزی حکومت ابھی تک کوئی واضح موقف اختیار کرنے سے بچتی رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس ایکٹ کی دستوری حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، ان کا براہ راست تعلق حکمراں جماعت سے ہی ہے۔
گزشتہ ہفتہ اس معاملے کی سماعت کے دوران سالسٹر جنرل تشار مہتا نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی بنچ کے روبرو اس معاملے کو التوا میں ڈالنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھاکہ مجھے تفصیلی جواب داخل کرنے کے لیے حکومت سے اعلیٰ سطحی مشورہ کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔ بنچ نے انھیں 12دسمبر تک کی مہلت دیتے ہوئے اس پر آئندہ سال جنوری میں سماعت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔واضح رہے کہ اس معاملہ میں سپریم کورٹ گزشتہ سال مارچ کے مہینے سے مرکزی حکومت کے جواب کا انتظار کررہا ہے۔
سبھی کو معلوم ہے کہ جس وقت ایودھیا تنازعہ اپنے عروج پر تھا تو مستقبل میں اس قسم کے تباہ کن تنازعات سے بچنے کے لیے1991میں اس وقت کی نرسمہاراؤ سرکار نے پارلیمنٹ سے ایک خصوصی ایکٹ منظور کرایا تھا۔اس ایکٹ کی رو سے ملک کی آزادی کے وقت جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اس کی وہی حالت برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔بابری مسجدمعاملے کو اس قانون سے اس لیے الگ رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ اس وقت عدالت میں زیرسماعت تھا۔اس قانون کے منظور ہوجانے کے بعد لوگوں کو یقین ہوچلا تھا کہ اگر بابری مسجد پر کوئی آنچ آئی بھی تو اس قانون کی رو سے ملک کی دیگر تاریخی مسجدیں محفوظ ہوجائیں گی۔اس وقت بعض دانشوروں کا بھی یہی خیال تھا کہ اگر بابری مسجد سے دستبرداری کی صورت میں دیگر عبادت گاہوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن دوراندیش لوگوں کی اس وقت بھی یہی رائے تھی کہ بابری مسجد کا معاملہ اس ملک میں سیکولرازم کی سب سے بڑی آزمائش ہے، کیونکہ اس وقت بھی وشوہندو پریشد کے ہاتھوں میں ایسی تین ہزار مسجدوں کی فہرست تھی جو ان کے خیال میں مندروں کوتوڑ کربنائی گئی تھیں اورجن کی’واپسی‘کے لیے وہ تحریک چلارہے تھے۔لیکن بابری مسجد کی اراضی رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندوفریق کے سپرد کئے جانے کے بعد تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک پٹارہ سا کھل گیا ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی مسجد کے مندر ہونے کی بات کہہ کر مقامی عدالتوں میں جھوٹے مقدمات دائر کئے جارہے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عدالتیں عبادت گاہ تحفظ ایکٹ کی روشنی میں مسترد کرنے کی بجائے انھیں سماعت کے لییمنظور کررہی ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ملک کی سبھی تاریخی مسجدوں کے نیچے ایک مندر تلاش کرکے مسلمانوں کو ان عبادت گاہوں سے محروم کردیا جائے گا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ سپریم کورٹ کی دستوری بنچ نے جب بابری مسجد کی اراضی فریق مخالف کے سپرد کرنے کا فیصلہ سنایا تو اس میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی تسلیم کیا تھاکہ عدالت کو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔لیکن بابری مسجد کا فیصلہ ہوجانے کے بعد جو لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ اب یہ تنازعہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے اور مسلمان چین کی نیند سوسکیں گے، انھیں اس وقت اپنی غلطی کا احساس ہوا جب سپریم کورٹ کے فیصلے سے تحریک پاکر شرپسندوں نے دیگر مسجدوں پربھی سوال کھڑے کرنے شروع کردئیے۔ اس سلسلہ کی سب سے خطرناک سازش بنارس کی گیان واپی مسجد کے خلاف کی گئی ہے۔ مقامی عدالت کی مدد سے یہ معاملہ اس حد تک قانونی پیچیدگیوں میں الجھادیا گیا ہے کہ اس کا حشر بھی بابری مسجد جیسا ہوتا ہوانظر آرہا ہے۔ خدا کرے ایسا ہرگز نہ ہو، لیکن اس گتھی کو جس انداز میں الجھایا گیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔بنارس کی گیان واپی مسجد ہی نہیں، متھرا کی شاہی عیدگاہ، بدایوں کی شمسی جامع مسجد کے بعد ابھی حال ہی میں منگلور(کرناٹک) کی ملالی مسجد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی ہے۔ایڈیشنل سول جج نے ملالی مسجد کے پیروکاروں کی اس درخواست کو خارج کردیا جس میں ہندو تنظیموں کے مقدمہ کی پائیداری کو چیلنج کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ ہندو تنظیموں کی طرف سے مسجد کا سروے کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عدالت نے مسجد کے پیروکاروں کی اس معاملے کی سماعت وقف ایکٹ کے مطابق وقف ٹریبونل کے ذریعہ کرانے کی دلیل بھی خارج کردی۔یہ عدالتی فیصلہ بنارس کی گیان واپی مسجدکے معاملے میں کئے گئے خطوط پر دیا گیاہے۔کیونکہ ملالی مسجد کے نیچے بھی ایک مندر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے دنوں جس وقت گیان واپی مسجد کے خلاف سازشوں کا بازار گرم تھا تو مسلم حلقوں اور سیکولر عناصر نے زور دے کر کہا تھا کہ1991کے عبادت گاہ ایکٹ کے تحت تمام عبادت گاہیں محفوظ ہیں اور ان کی حالت تبدیل نہیں کی جاسکتی۔لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ متعلقہ جج نے کہا کہ مذکورہ ایکٹ عدالتی سروے کرانے میں رکاوٹ نہیں ہے۔ اس کے بعد اس ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے معاملات بڑھنے شروع ہوئے اور اب اس کی دستوری حیثیت کو ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے کی جانب سے پیش ہوئے سینئر وکیل راکیش دویدی نے سپریم کورٹ کی بنچ کو بتایا کہ1991کے ایکٹ برائے مذہبی مقامات کی حیثیت کو پارلیمنٹ میں ناکافی بحث کے بعد منظور کیا گیا تھا، اس لیے اس ایکٹ کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ اس سے قومی اہمیت کے سوال جڑے ہوئے ہیں۔اس کے بعد مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کا تازہ بیان زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون کو چیلنج کرنے والی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک ایسے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس کو خود سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ہندوستان کے اس عزم کا اظہار ہے کہ ملک میں تمام مذاہب برابر ہیں۔واضح رہے کہ بابری مسجد مقدمہ کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اپنے تبصرے میں کہا تھا کہ ’’یہ قانون دراصل اس بات کا اقرار ہے کہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ملک کے تمام مذاہب کو یکساں احترام اور تحفظ فراہم کرنے کی ہے اور یہ ہندوستانی آئین کی بنیادی خصوصیت بھی ہے۔‘‘
اس سلسلے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ میں داخل درخواست میں کہا ہے کہ اس قانون کی بنیادی حیثیت اور اس پر عدالت عظمیٰ کے تبصرے کے باوجود اگر درخواست کنندگان کے دعوؤں کو تسلیم کیا گیا تو اس سے نئے مسائل اور تنازعات کھڑے ہوجائیں گے۔ بورڈ نے یہ بھی کہا کہ ان مفادات عامہ کی درخواستوں کے پس پردہ درخواست دہندگان کے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں۔ اس طرح کے تنازعات دراصل سماج کے تانے بانے کو متاثر کرتے ہیں اور سماج کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کردیتے ہیں، جس کا مظاہرہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد قتل وغارت گری کی شکل میں سامنے آیا تھا۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ1991کے قانون کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ مستقبل میں اس طرح کے دعوؤں پر روک لگائی جائے، کیونکہ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق تنازعات بہت حساس ہوتے ہیں،جو قانون کی بالا دستی کو نہ صرف چیلنج کرتے ہیں بلکہ سماج کے امن وسکون کو بھی درہم برہم کردیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر