وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی میں بین الاقوامی کرکٹ کی شاندار واپسی

پیر 19 ستمبر 2022 کراچی میں بین الاقوامی کرکٹ کی شاندار واپسی

 

گزشتہ کئی ماہ سے طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں کی زد پر آئے ہوئے سندھ کی پریشان حال عوام اور انتظامی فکرات میں گھری ہوئی سندھ حکومت کے لیئے ایک بڑی مثبت خبر یہ ہے کہ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کراچی پہنچ چکی ہے ۔یاد رہے کہ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم 17 سال کے طویل عرصہ کے بعد پاکستان کے دورہ پر آئی ہے ۔ اس سے قبل انگلینڈ کی مہمان کرکٹ ٹیم آخری مرتبہ 2005 میں پاکستان کے دورے پر آئی تھی اور 2005 کے اُس ہنگامہ خیز دورے میں دونوں ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز کھیلی گئی تھی۔ لیکن اس مرتبہ انگلینڈ اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان صرف ٹی ٹونٹی میچز پر مشتمل سیریز ہی کھیلی جائے گی ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں دونوں ممالک کی کرکٹ ٹیمیں تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ٹی20 سیریز میں مدمقابل ہوں گی۔جبکہ صوبہ سندھ کی عوام کے لیئے سب سے زیادہ خوش آئند بات یہ ہے کہ حالیہ سیریز کا آغاز کراچی سے ہو رہا ہے اور سیریز کے پہلے مرحلے میں دونوں ٹیموں کے درمیان نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں 4 ٹی20 میچ کھیلے جائیں گے۔یہ میچز بالترتیب20، 22، 23 اور 25 ستمبر کو کھیلے جائیں گے۔بعد ازاں انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کراچی سے لاہور کے لیے روانہ ہو جائے گی، جہاں قذافی اسٹیڈیم، لاہور میں 28، 30 اور 2 اکتوبر کو مذکورہ سیریز کے آخری تینوں میچز کھیلے جائیں گے۔ واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلے جانے والے سیریز کے پہلے میچ کی تمام ترگیٹ منی سیلاب زدگان کو عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔
یہاں ہمیں سب سے پہلے تو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو داد، دینی چاہیئے کہ انہوں نے سندھ میں سیلاب کی پیش آمدہ ،قدرتی آفت کے بعد، اَن گنت انتظامی مسائل میں گھرے ہونے کے باوجود انگلینڈ کرکٹ ٹیم کی میزبانی کی ذمہ داری نبھانے سے کسی بھی مرحلے پر انکار نہیں کیا۔ حالانکہ اگر وہ چاہتے تو صوبہ میں جاری سیلاب کی ہول ناک تباہ کاریوں کو جواز بنا کر وفاقی حکومت اور انٹرنیشنل کرکٹ بورڈ کی خدمت میں یہ عرض داشت پیش کرسکتے تھے کہ ’’صوبہ سندھ میں غیرمعمولی سیلابی صورت حال کے باعث سندھ حکومت ،پاکستان اور انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے میچز کی انتظامی ذمہ داری احسن طور پر نبھانے سے قاصر ہے۔لہٰذا ،نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں شیڈول کرکٹ میچز فی الحال ملتوی یا پھر کسی دوسرے مقام پر منتقل کردیئے جائیں ‘‘۔
یاد رہے کہ جس طرح کی غیر معمولی سیلابی کیفیت سے اِس وقت سندھ حکومت نبرد آزما ہے ،اُس کی موجودگی میں غالب امکان یہ ہی تھا کہ صرف وفاقی حکومت ہی نہیں بلکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل بھی سندھ حکومت کی مذکورہ درخواست کو لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر قبول کرلیتی اور کراچی میں ہونے والے انگلینڈ اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ہونے والے کے تمام مقابلے فوری طور پر قذافی اسٹیڈیم ،لاہورمنتقل کردیئے جاتے ۔اگر ایسا ہوجاتا تو اِس پر کسی کو حیرت بھی نہ ہونی تھی ۔کیونکہ عالمی کرکٹ کی تاریخ ، ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے ،جب غیر معمولی حالات کاحالات کا بہانہ بنا کر بڑے بڑے مقابلے ملتوی کردیئے گئے یا اُن کے مقام تبدیل کروادیئے گئے تھے۔ مگر تمام تر مشکل اور سنگین انتظامی حالات کے باوجود سندھ حکومت نے نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کو کرکٹ کے کھیل سے آباد کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں ایک طویل مدت بعد کراچی میں عالمی کرکٹ کا نقارہ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ بج رہا ہے۔
دوسری جانب ایسے عاقبت نااندیش اور شریر لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے ، جو’’ خیر ‘‘کے اتنے بڑے واقعہ سے بھی صبح و شام’’ شر‘‘ برآمد کرنے کی ناکام و نامراد کوشش کررہے ہیں ۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر سندھ حکومت کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے پوسٹیں لگائی جارہی ہیں کہ ’’ سندھ حکومت ، انگلینڈ کرکٹ ٹیم کی آمد سے قبل کراچی شہر کی چند سڑکیں ہی بنا دیتی تو کتنا اچھا ہوتا، کیونکہ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم ائیر پورٹ سے جس شاہراہ کے ذریعے ہوٹل پہنچی تھی ،وہ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی‘‘۔یقینا طوفانی بارشوں کے بعد کراچی شہر کی اکثر شاہرائیں ٹوٹ پھوٹ شکار ہیں ، لیکن یہ کیفیت صرف سندھ کے ایک شہر تک محدود نہیں ہے بلکہ صوبہ سندھ کے ہر شہر کا موصلاتی نظام زبوں حالی کا شکار ہے اور بلاشبہ ،اِس صورت حال تک پہنچے میں سندھ حکومت کی انتظامی کوتاہیوں کا بھی بہت عمل دخل ہے۔
بہرکیف، سندھ حکومت کی تمام تر انتظامی کوتاہیوںکو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے بھی من حیث القوم، ہمارے لیے سب سے زیادہ مستحسن طرز ِ عمل تو یہ ہی بنتا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ سندھ ، سید مراد علی شاہ، پاکستان کرکٹ بور ڈ اور وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر عروس البلاد کراچی میں ، سیلاب کی تباہ کاریوں کی بیچ منجدھار میں ،شہر میں عالمی کرکٹ کی واپسی کے لیے پوری تند ہی کے ساتھ کمر بستہ ہیں تو پھر ہمیں بھی اُن کے اس جذبے کی دلی قدر کرنی چاہئے ۔ یادرہے کہ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں بین الاقوامی کرکٹ کا میلہ سجنے سے نہ صرف ، صوبہ سندھ، میں کرکٹ کے کھیل کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوگا ،بلکہ ہماری جانب سے دنیا بھر کو یہ پیغام بھی جائے گا کہ پاکستانی قوم ہر طرح کے مشمل اور نامساعد حالات میں بھی آپس میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں بانٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے ضائع جانے نہیں دیتی۔
علاوہ ازیں ، پاکستانی میدانوں میں بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے سے جہاں ہمارے کھلاڑیوں میں خود اعتمادی پیدا ہوگئی ،وہیں مقامی تماشائیوں کے سامنے اُن کے کھیل کے جوہر بھی خوب کھل کر سامنے آئیں گے۔یقینا، جس کا فائدہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو اگلے ماہ ، آسٹریلیا میں شروع ہونے والے ٹی ٹونٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں ضرور ہوگا۔ یاد رہے کہ انگلینڈ کرکٹ ٹیم ، ٹی ٹونٹی فارمیٹ میں دنیا کی مضبوط ترین ٹیم شمار ہوتی ہے ۔ لہٰذا ، کافی عرصہ بعد کراچی کی عوام کو نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کرکٹ کے سنسنی خیز مقابلے براہ راست دیکھنے کو ملیں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر