وجود

... loading ...

وجود
وجود

کھیل پُرانا ہوچکا!!

بدھ 14 ستمبر 2022 کھیل پُرانا ہوچکا!!

قومی ریاستوں میں سیاست کا فعال عامل محض قوت کا حصول ہے ۔ یہی اس کی نظریاتی اور عملی جہت رہتی ہے۔ اگرچہ اس کھیل کو مختلف نظریات سے” اخلاقی” بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگرقومی ریاست میں سیاست، طاقت کے حصول کی چھینا جھپٹی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پچھلے سوا سو برسوں میں دنیا کی صورت گری جو بھی ہوئی ہے، وہ اس فعال عنصر سے ہوئی ہے۔ پاکستان میں مختلف گروہ طاقت کے حصول میں جُتے ہوئے ہیں۔ سیاسی کھیل مستقبل میں حصہ بٹورنے کے لیے جاری ہیں۔ مگر اس کھیل کی بساط بچھانے اور اُٹھانے والے پہلی مرتبہ سنجیدہ نوعیت کے خطرات سے دوچار ہیں۔
قومی سیاست کی بساط پر گرفت رکھنے والے طاقت ور حلقے پہلی مرتبہ کھلے عام موضوع بحث بن چکے ہیں۔ ماضی میں اسی نوع کے کھیل ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ مگر اس دفعہ نیا اگر کچھ ہے تو وہ متوازی ذرائع ابلاغ کی موجودگی کے ساتھ ایک فعال اور مزاحمانہ بحث ہے۔ مقتدر حلقے پہلے قومی سیاست میں نئے عوامل داخل کرنے یا کسی بھی متحرک عامل کو نوچ پھینکنے پر قادر رہے ہیں۔ مگر یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وہ قومی سیاست میں اپنی یہ حیثیت مدہم پڑتی دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان اس کی ایک مثال ہے۔عمران خان مختلف مقدمات کا سامنا کررہے ہیں، مگر اُن کے ساتھ جو بحث جڑی ہوئی ہے، وہ یہ کہ کیا وہ نااہل قرار پاسکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اُن کی عوامی مقبولیت کا حوالہ سامنے آتا ہے، جس کے ساتھ ایک احتجاجی تحریک کا خدشہ سر اُٹھاتا ہے۔اگر چہ پاکستان میں عوامی مقبولیت کوئی زیادہ قابل انحصار عامل نہیں۔ مگر عمران خان کی مقبولیت کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ مختلف فشاری یا فعال طبقات کی حمایت کے ساتھ ہے، جسے بآسانی تحلیل نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ فعال طبقات تاریخ اور نظریات کے آمیختہ سے اپنے موقف بناتے ہیں، اوراس قسم کی آراء جلد بدلتی نہیں۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے کوئی ان دیکھا نہیں کرسکتا کہ اب طاقت ور حلقوں کے سیاسی کردار کے خلاف فعال طبقات میں ایک سخت رائے پیدا ہو چکی ہے جو مائل بہ مزاحمت ہے۔ اس ایک پہلو سے نوازشریف بھی وہی سوچتے ہیں جو عمران خان سوچتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی رائے بھی مختلف نہیں۔ اگرچہ ان تینوں شخصیات کے اہداف کے دائرے میں ابھی اس نکتے کو فعال حیثیت حاصل نہیں ہوئی، مگر یہ سوچ ملتی جلتی حالت میں اُن کی سیاست میں پہلو بہ پہلو اُبھرتی، اُچھلتی، اُبلتی رہتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ قومی سیاست میں تین مختلف حریف ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کے باوجود طاقت ور حلقوں کے حوالے سے یکساں سوچ کیوں رکھتے ہیں؟اس کا سادہ جواب ہے۔ طاقت کے ساتھ معاملات میں یکساں تجربہ۔ طاقت اگر اخلاقی بندش قبول نہ کرے تو منہ زور ہوتی ہے اور منہ زور طاقت کا ہدف وقتی نتائج کا حصول ہوتا ہے، چاہے وہ کیسے بھی حاصل ہوں۔ یاد رکھیں، اخلاقی بندش سے عاری طاقت اپنے اہداف میں اور نہ ہی اُن اہداف کے حصول کے طریقوںمیں کبھی یکساں ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسی ہر طاقت تضادات میں لتھڑی ، اخلاق سے عاری اور تعلق میں ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔ یہی مسئلہ طاقت کے لیے سب سے بڑا بوجھ بنتا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ عمران خان، نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کے طاقت ور حلقوں سے تجربات یکساں نوعیت کے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ دوسرے کسی بھی فریق کے معاملات خود عمران خان، نوازشریف ، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہیں، رہے ہیں یا رہیں گے، تو وہ بھی کچھ اسی نوع کے تجربات کے حامل ہوں گے۔ کیونکہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ بھی سیاسی طاقت یا حکومت حاصل کرنے کے لیے وہی طریقے اختیار کرتی ہیں، جو نری طاقت یا مجرد قوت کرتی ہے۔ اس میں کوئی خاص نوعیت کا فرق نہیں۔ چنانچہ ان سیاست دانوں سمیت پاکستان کے کسی بھی سیاست دان کو اُٹھا لیں ، وہ تضادات میں لتھڑا ملے گا۔ اُس میں کوئی اخلاقی وصف نہیں ہوگااور اُس کے کوئی مستقل دوست ، دشمن نہیں ہوں گے۔پی ڈی ایم جماعتوں پر ہی غور کرلیں۔ جن کا ماضی ایک دوسرے کے خلاف سیاست کرتے گزرا ہے۔ ان جماعتوں نے عمران خان پر ایسا کون سا الزام لگا یا ہے جو انہوں نے اپنی اتحادی جماعتوں پر نہ لگایا ہو۔ نواز لیگ پیپلزپارٹی کو سیکورٹی رسک قرار دیتی تھی۔ پیپلز پارٹی نے بھی نوازشریف کے خلاف سنجیدہ نوعیت کے الزامات لگا رکھے ہیں۔یہ دونوں جماعتیں طاقت ور حلقوں کے سامنے بھی ایک طرح کے حالات سے گزرتی رہی ہیں۔ کبھی ایک کے ذریعے دوسرا دفع کیا جاتا رہا۔ اور کبھی دوسرے کے ذریعے پہلا کھدیڑا جاتا رہا۔یہ واقعات سیاست کی سطح پر عام لہریں پیدا کرتے رہے۔ مگر تاریخ کے بہاؤ میں اب یہ نہایت معنی خیز بن چکے ہیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرا ۔ نوازشریف پی ڈی ایم کے جلسوں میں طاقت ور حلقوں پر براہِ راست اعتراضات اُٹھا رہے تھے۔ اس سے ذرا پہلے جناب زرداری کو آپ اینٹ سے اینٹ بجاتے ہوئے بھی سن چکے ہوں گے۔ اس کے باوجود پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اصل میں ”سلیکٹڈ” ہیں، گزشتہ سترہ اٹھارہ برسوں کی سیاست میں خفیہ تال میل کا سارا کھیل ان کے ذریعے کھیلا گیا ہے۔ کبھی یہ” فریضہ” نہایت خشوع و خضوع سے چودھری برادران ادا کرتے رہے ہیں۔ اس کھیل میںاتارچڑھاؤ ایک ردِ عمل بھی پیدا کرتا ہے ، جس کے باعث زرداری ایسے لوگ دانت کچکچاتے ہوئے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔ پھر الّو سیدھا ہو جائے تو ”قومی مفاد ”کے آگے مودب رہنے میں کوئی مضائقہ محسوس بھی نہیں کیا جاتا۔جناب زرداری اور نوازشریف کبھی ایک دوسرے کے مقابل تھے، اب عمران خان کے خلاف متحدہو کر بروئے کار ہیں۔ فرق کیا پڑتا ہے؟ اصل ہدف سیاسی طاقت ہے جو سیاسی تضادات کے باوجود کسی بھی طریقے کے ساتھ حاصل ہو جائے۔ آپ کسی بھی سیاست دان کی آج کی کیفیت دیکھ لیں، اس کے بالکل برخلاف اس کا ماضی مل جائے گا۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کو دیکھ لیں، کل پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں اس کا ہدف تھیں، آج اُن کی مدد سے وہ اقتدار میں ہیں۔ کل عمران خان محبوب تھا، آج معتوب ہے۔ یہ عامیانہ مساوات طاقت کے کھیل میں پھر تبدیل ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔
اس تناظر میں عمران خان کے اقداما ت کا جائزہ لیں تو سب سمجھ میں آجائے گا۔ عمران خان نے اقتدار کی سیاست میں خود کو کتنا اور کتنی بار تبدیل کیا، اس کا ٹھیک سے تعین ہی نہیں کیا جاسکے گا۔ وہ پہلے کیا سوچتے تھے، اور اب کیا سوچتے ہیں ، اس کو سمجھتے ہوئے زمین وآسمان ایک دکھائی دیں گے۔ اُنہیں اپنے موقف بار بار بدلنے پر” مسٹر یوٹرن” کہا گیا۔ صرف اسٹیبلشمنٹ کے لیے اُن کی بار بار بدلنے والی رائے پر نگاہ ڈالیں تو نکتہ سمجھ آجائے گا۔ ایسا کیوں ہے؟ سیاسی طاقت کا حصول خواہ کیسے ہی ممکن ہو۔ پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ آج اسٹیبلشمنٹ کے لیے کیا کہا، اور پہلے کیا کہا تھا۔عمران خان ایسا کیوں نہیں کریں گے؟ کیا وہ سیاسی طاقت( اقتدار) نہیں چاہتے؟ عمران خان کے تضادات پاکستان کی سیاست میں انوکھے نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی ماضی قریب کی تاریخ یہ سمجھاتی ہے کہ یہ تضادات بھی سیاسی طاقت حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ عمران خان جس پنگھوڑے سے برآمد ہوئے تھے، اُس میں جھولنے کے لیے وہ بے تاب ہوسکتے ہیں۔ طاقت کا نشہ ہی کچھ ایسا ہے۔عمران خان اُسی دوڑ میں ہیں ، جس میں نوازشریف ، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن ہیں۔ سیاسی طاقت ملے تو طاقت ور حلقوں کے سامنے ”حب الوطنی” کے وضو کے ساتھ سجدے کی حالت میں نظر آئیں گے اور طاقت نہ ملے تو پھر ان میں سے ہرایک آپ کو آج کا عمران خان دکھائی دے گا۔بھلے یہ اپنے الفاظ میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر اپنے اقدامات میں ایک جیسے ہی دکھائی دیتے ہیں۔طاقت ور حلقوں کو ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس پُرانے کھیل میں نیا یہ ہے کہ طاقت کی اس چھینا جھپٹی میں جو فریق ناکام رہے گا، اب وہ نچلے ہو کر بیٹھنے کو تیار نہیں۔ چنانچہ اگر عمران خان کے ساتھ معاملات طے ہو جائیں تو ایک نیا عمران خان کہیں اور سے برآمد ہو جائے گا۔ ایک ہی طرح کا کھیل بار بار کھیلنے کا نقصان یہ ہے کہ یہ سب کی سمجھ میں آجاتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر