وجود

... loading ...

وجود
وجود

سیلاب زدگان کے نام پر اپنا جہنم بھرنے والے ؟

پیر 12 ستمبر 2022 سیلاب زدگان کے نام پر اپنا جہنم بھرنے والے ؟

 

پاکستان میں حالیہ تباہ کن بارشوں اور اس کے نتیجہ میں آنے والے سیلاب نے کم ازکم 3کروڑ افراد کو شدید متاثر کیا ہے۔ ملک بھر میں سیلاب اور بارش سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 1300 تک پہنچ چکی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد ساڑھے بارہ ہزار سے زیادہ ہے۔نیز سیلاب اور بارش سے متاثر ہونے والے علاقوں میں 10 لاکھ سے زیادہ مکانات مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں یا انہیں جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ ملک کا 70 فیصد انفراسٹرکچر، جیسا کہ پل، سڑکیں، ریلوے کی پٹریاں، شاہراہیں، کمرشل جائیدادکی تباہی کی وجہ سے اشیا کی نقل وحمل میں غیر معمولی خلل واقع ہوا ہے۔حالیہ سیلاب میں ملک کی زبوں حال معیشت کو ہونے والے نقصان کا فی الحال تخمینہ دس ارب ڈالر لگا یا جارہا ہے۔اگر آنے والے ایاّم میں خدانخواستہ بارش یا سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو نقصان کا یہ تخمینہ کئی گنا بڑھ بھی سکتاہے۔
غیر معمولی آفت کی اس گھڑی میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ سول انتظامیہ تینوں مسلح افواج اور دوسرے امدادی اداروں کی دن رات کوششوں کے باوجود سیلاب سے متاثرہ ہزاروں علاقے ایسے ہیں جہاں سڑکیں اور ریلوے لائنیں پانی میںڈوبنے کی وجہ سے امدادی سامان زمینی راستوں سے نہیں پہنچ پارہا۔بظاہر حکومتِ پاکستان کی جانب سے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سے اشیائے خوردونوش ،سیلاب میں پھنسے افراد تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ مشکل اور خطرناک عمل بھی زیادہ موثر ثابت نہیں ہوپارہا اور نامساعد موسمی و معروضی حالات کے باعث فضائی ذرائع سے سیلاب متاثرین تک پہنچائی جانے والے اشیائے خوردنوش کا سامان زیادہ تر ضائع ہورہا ہے اور سیلاب میں پھنسے کسی متاثرہ فرد کے ہاتھ تو بہت کچھ لگ جاتا ہے اور کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آپاتا۔
دوسری جانب ،ویسے تو سیلاب زدہ علاقوں میں بوڑھے ،نوجوان اور بچے سب ہی شدید طرح سے متاثر ہوئے ہیں لیکن حالیہ سیلاب میں باپردہ گھریلو خواتین کی حالت توبہت زیادہ دگرگوں اور انتہائی سنگین ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں ایک لاکھ 28ہزار تو صرف حاملہ خواتین ہیں ،جو زچگی اور ابتدائی طبی امداد کے لیئے لیڈی ڈاکٹرز کی منتظر ہیں ،جبکہ 42ہزار خواتین کے ہاں اگلے 3ماہ میں پیدائش متوقع ہے۔شاید ہم اگر چاہیں بھی ،تب بھی اندازہ نہیں کرسکتے کہ ایک باپردہ گھریلو خاتون کے لیئے کھلے آسمان تلے اور سیلابی پانی کے عین بیچ میں اپنی عفت و حیا کی حفاظت کرپانا، کس قدر دشوار ہورہا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق سیلاب میں گھری اکثر خواتین شدید بیمار ہیں اور انہیں علاج معالجہ کے لیئے ادویات تک بھی میسر نہیں ہیں ۔
بظاہر سوشل میڈیا اکاؤنٹس سیلاب زدگان کی امداد کرنے والے نام نہاد،فلاحی اداروں اور مخیر حضرات کی وائرل پوسٹوں ، تصاویر اور ویڈیو ز سے لبالب بھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ جو امدادی سرگرمیاں عارضی شہرت کے بھوکے مخیر حضرات اور نام نہاد فلاحی تنظیموں کے نام سے سوشل میڈیا پر نظر آرہی ہیں ،اُس کا ایک فیصد بھی سیلاب زدگان تک نہیں پہنچ پارہا ہے۔ دراصل چند ہ جمع کرنے کی بُری لت میں مبتلاء نام نہاد تنظیمیں اور اُن سے وابستہ افراد نے حالیہ سیلاب کو اپنے بنک اکاؤنٹس کا ’’جہنم ‘‘ بھرنے کا ایک آسان سا، ذریعہ سمجھ لیاہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض نام نہاد فلاحی ادارے تو سیلاب زدگان کے نام پر ملنے والی امدادی رقم سے لاکھوں ،کروڑوں کی ذاتی اشتہاری مہم بھی چلارہے ہیں تاکہ پریشان حال سیلاب زدگان کے نام پر امداد مانگنے کی آڑ میں زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی شخصی تشہیر بھی خوب اچھی طرح سے کرلیں ۔
المیہ ملاحظہ ہو کہ گزشتہ ایک ہفتہ سے انٹرنیٹ پر ایک بہت بڑی فلاحی تنظیم کا سیلاب زدگان کے لیئے امداد کی اپیل کا اشتہار چل رہا ہے اور مذکورہ اشتہار کے 70 فیصد حصہ میں اُس فلاحی تنظیم کے سربراہ کی لباس فاخرہ میں ہنستی مسکراتی، سر سبز وشاداب تصویر چسپاں ہے ۔ اشتہار دیکھ کر فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا کہ انسان پہلے سیلاب زدگان کے بھوکے لوگوں کے خوراک کے لیئے فلاحی تنظیم کو چندہ دے یا پھر اشتہار میں دکھائی دینے والے شخص کی شہرت کی بھوک کو مٹانے کے لیئے بھیک دے۔قصہ مختصر یہ ہے کہ سیلاب زدگان کی امداد کے نام پر’’ ڈونیشن‘‘ کی بہتی گنگا میں بڑی بڑی فلاحی تنظیمیںخوب جی بھر کے ہاتھ دھو رہی ہیں ۔
شاید یہ وجہ ہے کہ سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ،جناب ڈاکٹر قادر مگسی بھی ایک فلاحی تنظیم کا نام لے کر دہائی دینے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ’’جتنی تشہیر سیلاب زدگان کے نام پر سامان جمع کرنے کے لیئے کی جارہی ہے ،اتنا ڈیلوری کا کام کہیں نظر نہیں آرہا ۔سوشل میڈیا پر دکھایا جارہا ہے کہ آج سامان سے بھرے ہوئے 100 ٹرک نکلے ،کل 200 اور پرسوں 500 نکلے تھے ۔ لیکن یہ سامان کہاں اور کس کے پاس پہنچ رہا ہے کوئی بندہ بشر نہیں جانتا، کم ازکم ہم نے حیدرآباد میں تو مذکورہ فلاحی تنظیم کا ایک بھی ٹرک یا امدادی کیمپ نہیں دیکھا‘‘۔ سیلاب زدگان کے نام پر امدادی سامان جمع کرنے والی فلاحی تنظیموں کے بارے میں جو سوالات ڈاکٹر قادر مگسی نے اُٹھائے ہیں ،حکومت سندھ کو چاہیئے ،اُن کی شفاف تحقیقات کروائے اور سیلاب زدگان کے لیئے امدادی سامان جمع کرنے والوں کی کڑی ’’انتظامی نگرانی ‘‘ کو یقینی بنائے۔
دوسری جانب پاکستانی عوام کو بھی سیلاب زدگان کے نام پر امداد مانگنے والوں کی اچھی طرح سے چھان پھٹک کرلینا چاہیئے ۔ تاکہ اُن کی عطیہ کی گئی حلال کی رقم صرف اور صرف مستحقین تک ہی پہنچے ناکہ غیر مستحق کے بنک اکاؤنٹ کا دوزخ بھرنے کا فریضہ انجام دے ۔ ہماری دانست میں زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ سیلاب زدگان تک اپنی امداد پہنچانے کے خواہش مند افراد اپنی حلال کی کمائی ، ترجیحی طور پر ،ریاستی اداروں کی جانب سے تشہیر کردہ بنک اکاؤنٹس میں جمع کروائیں یا پھر ایسی معروف فلاحی تنظیمات تک اپنے عطیات پہنچائیں، جو ملک بھر میں انتہائی منظم اور شفافیت کے ساتھ فلاحی اُمور انجام دینے کا وسیع تجربہ اور شاندار ماضی بھی رکھتی ہوں ۔ مثال کے طور پر عبدالستار ایدھی مرحوم کی ’’ایدھی فاؤنڈیشن ‘‘،ڈاکٹر امجد ثاقب کی ’’اُخوت‘‘،شیخ عبدالستار حفظ اللہ کی ’’بی ڈبلیو ٹی‘‘ ، اور جماعت اسلامی کی ’’الخدمت فاؤنڈیشن ‘‘ایسی نامور اور اچھی شہرت کی حامل فلاحی انجمنیں ہیں ۔ جنہیں آنکھ بند کرکے کامل اعتماد کے ساتھ سیلاب زدگان تک پہنچانے کے لیئے ہر طرح کی امداد عطیہ کی جاسکتی ہے۔
گواہی ایک ہو ، خالی خدا کی
کسی کاسہ میں جب امداد رکھنا


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر