وجود

... loading ...

وجود
وجود

روس پر عائد معاشی پابندیاں ، مغرب کے گلے پڑنے لگیں

پیر 05 ستمبر 2022 روس پر عائد معاشی پابندیاں ، مغرب کے گلے پڑنے لگیں

 

یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد مغربی ممالک نے امریکا کے ایما پر روس پر سخت ترین معاشی پابندیوں عائد کرتے ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچا تھا کہ اگر یہ معاشی پابندیاں نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکیںتو بعد ازاں کیا مغربی ممالک ماسکو کے جوابی ردعمل کا مقابلہ کرسکیں گے؟چونکہ امریکا کی سفارتی محبت میں مغرب کے کسی بھی ملک نے روس پر معاشی پابندیوں عائد کرتے ہوئے ایک بار بھی ماسکو کے ممکنہ جوابی ردعمل یا معاشی پابندیوں کے منفی نتائج و عواقب کے بارے میں غور و فکر نہیں کیا تھا ۔لہٰذا ، اَب مغرب کے کم و بیش تمام ممالک کو ہی اپنی غلط سفارتی پالیسی کا خمیازہ شدید معاشی بحران کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بالخصوص یورپی یونین میں شامل ممالک کو وقتاً فوقتاً، روس کی جانب سے سخت ترین جوابی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا رہتا ہے۔مثال کے طور پر گزشتہ ہفتہ روس نے یورپ کو اہم ترین پائپ لائن کے ذریعے گیس کی فراہمی مکمل طور پر منقطع کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ پائپ لائن کی مرمت کی ضرورت ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے ایک رپورٹ کے مطابق روس کی سرکاری توانائی کمپنی گیزپورم نے’’ نورڈ اسٹریم ون پائپ لائن پر غیر معینہ مدت تک مرمتی کام شرع کرنے کا اعلان کردیا ہے‘‘۔ نورڈ اسٹریم ون پائپ لائن کی بندش سے یورپی ممالک میں توانائی کا شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ لاحق ہو گیا۔ کیونکہ روس نے یورپ تک جانے والے دیگر گیس پائپ لائنوںپر پہلے ہی سے گیس کی فراہمی کافی حد تک کم کی ہوئی ہے ۔مغربی اور یورپی ممالک سمجھتے ہیں کہ روس یورپ کے خلاف اپنے قدرتی ذخائر کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ تاہم، روس نے اپنے اُوپر عائد کیے جانے والے ایسے تمام تر الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ اُن کا ملک توانائی کی فراہمی مغربی ممالک کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
واضح رہے کہ نورڈ اسٹریم ون پائپ لائن بحیرہ بالٹک کے نیچے سینٹ پیٹرزبرگ کے قریب روسی ساحل سے شمال مشرقی جرمنی تک 1200کلومیٹر (745 میل) تک پھیلی ہوئی ہے۔یہ پائپ لائن 2011 میں کھول دی گئی تھی اور اس سے روس روزانہ جرمنی کو زیادہ سے زیادہ 170 ملین مکعب میٹر گیس بھیج سکتا ہے۔ روس نے یہ پائپ لائن گزشہ ماہ جولائی میں بھی مرمت کے لیے 10 دن کے لیے بند کر دی تھی۔بعد ازاں اِسے مرمتی کام کے بعد بحال تو کردیا گیا تھا لیکن اِس گیس پائپ لائن کی یورپ کو گیس فراہمی کی صلاحیت میں20 فیصد کی خاطر خواہ کمی کے ساتھ بحال کیا گیا تھا اور اس کی وجہ روس نے ناقص آلات کو قرار دیا تھا۔لیکن یورپی ممالک نے ماسکو کی اس وضاحت کو قبول کرنے کے بجائے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ روس ایسا اپنے قدرتی اور معدنی وسائل کو اُن کے خلاف بطور ایک معاشی ہتھیار کے استعمال کرنے کے لیے کر رہا ہے۔
مغربی و یورپی ممالک کو جانے والی گیس پائپ لائن کی بندش پر ماسکو جو چاہے سفارتی موقف اختیار کرے ۔مگر بادی النظر میں لگتا ایسا ہی ہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن، مغربی ممالک خاص طور پورپی یونین میں شامل ممالک کے خلاف اپنے قدرتی وسائل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا پختہ ارادہ کر چکے ہیں ۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ماسکو، جان بوجھ کر یورپ تک قدرتی ذخائر کی ترسیل کی ذمہ دار پائپ لائنوں کی بندش ، یورپ پر دباؤ بڑھانے کے لیے بروئے کار لا رہا ہے۔ ہماری دانست میں اگر روس اپنے قدرتی وسائل کو یورپ کے خلاف بطور ایک ہتھیار کے استعمال کررہا ہے تو اس میں آخر غلط بھی کیاہے؟ کیونکہ یوکرین جنگ کے بعد یورپی یونین نے بھی تو اپنے جدید ترین معاشی نظام کو روس کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا تھا۔ اَب وہ الگ بات ہے کہ مغربی اور یورپی ممالک کی جانب سے عائد ہونے والی نام نہاد معاشی پابندیاں روسی معیشت کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں اور روس تمام تر معاشی مشکلات کے باوجود عالمی معاشی پابندیوں سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب رہا۔
یاد رہے کہ روسی صدر، ولادی میر پیوٹن اپنے ملک کے قدرتی وسائل کو مغرب کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرکے جہاں اپنا پرانا حساب چکتا کرنا چاہتے ہیں ،وہیں وہ گیس پائپ لائن کی بندش سے یورپ میں توانائی کا سنگین بحران پیدا کرکے یورپی یونین کو اس بات پر مجبورکرنا چاہتے ہیں وہ یوکرین جنگ کے بعد ماسکو پر عائد کی جانے والی معاشی پابندیوں کو فی الفور واپس لے۔ اگر متذکرہ بالا گیس پائپ لائنوں کی بندش کے بعد بھی یورپی یونین ماسکو پر عائد کی جانے غیر منصفانہ معاشی پابندیاں نہیں اُٹھا تاتو عین ممکن ہے کہ روس مغرب اور یورپی یونین کے خلاف عن قریب مزید سخت اقدامات اُٹھائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کچھ ایسے ہی ملتے جلتے خدشات یورپی ممالک کے رہنماؤں کو بھی ہیں اور بعض یورپی رہنما تو کھل کر کہہ رہے ہیں کہ گیس کی قیمتیں بڑھانے کے لیے یورپ تک آنے والی مزید گیس پائپ لائنیں بھی معطل کرسکتاہے۔
دوسری جانب اگلے چند ماہ میں یورپ بھر میں سخت سرد موسم ہوجانے کا امکان پایا جاتا ہے ۔سرد موسم کی آمد کے بعد یورپ کو روس سے آنے والی گیس کی سخت ضرورت ہوگی ۔اگر روس مختلف حیلے بہانوں سے ایسے ہی یورپ تک جانے والی گیس پائپ لائنیں بند کرتارہا تو آئندہ سرد موسم یورپی ممالک کے لیئے توانائی کا سنگین بحران لے کر آئے گا۔ توانائی کا یہ بحران ممکنہ طور پر حکومتوں کو بوجھ کم کرنے کے لیے اربوں خرچ کرنے پر مجبور کرے گا۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ رواں ہفتہ فرانسیسی توانائی کی منتقلی کے وزیر نے گیز پروم کی جانب سے فرانسیسی توانائی کمپنی اینجی کو گیس کی فراہمی معطل کرنے کے بعد بات کرتے ہوئے روس پر گیس کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔لیکن روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ترجمان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ’’ مغربی پابندیاں روسی انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا کر رکاوٹوں کا سبب بنی ہیں اور اِن پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے تکنیکی مسائل ہی واحد چیز ہیں جو روس کو پائپ لائن کے ذریعے گیس کی فراہمی روکتے ہیں‘‘۔
بہرحال ، توانائی بحران نے یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ یورپ جو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ تر گیس اور آئل برآمد کرتا ہے، موسم سرما میں توانائی کے سنگین بحران سے کیسے بچے گا اور خاص طور پر اگر سردی میں زیادہ اضافہ ہو گیا یا موسم سرما معمول سے زیادہ طویل ہو گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس وقت یورپ میں بجلی کی قیمت 80 یورو فی میگاواٹ فی گھنٹہ ہے جو کہ سن 2021 کے آغاز میں 19 یورو تھی۔جبکہ سال 2020 میں یہ قیمت صرف 4 یورو تھی۔ قیمتوں میں یہ اضافہ صارفین کی جیبوں پر بھاری پڑ رہا ہے ،وہیں یورپی حکم ران بھی پریشان ہیں کہ اس صورتحال کا کیا حل نکالا جائے۔ بعض یورپی حکومتیں اس بحران میں کمی لانے کے لیے اپنے شہریوں کو نقد رقم کی پیشکش کر رہی ہیں۔ صارفین کو سبسڈی فراہم کرنے میں سویڈن کی مثال تازہ ترین ہے۔سویڈن نے بجلی کی زیادہ قیمتوں سے سب سے زیادہ متاثرہ گھرانوں کے لیے 661 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔ لیکن یہ ایک عارضی اور وقتی حل ہے ۔جبکہ اس مسئلے کا دیرپا حل صرف دو ہیں ۔پہلا، توانائی کے قابل تجدید ذرائع میں زیادہ سرمایہ کاری کرنا۔دوسرا،روس کے ساتھ سفارتی و معاشی تعلقات دوبارہ اُس سطح پر لانا ،جہاں وہ یوکرین جنگ سے پہلے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!! وجود منگل 07 مئی 2024
فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت وجود منگل 07 مئی 2024
تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت

کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر