وجود

... loading ...

وجود
وجود

یہ دوستی نہیں

هفته 18 جون 2022 یہ دوستی نہیں

دوست ممالک کوقابو میں رکھنے کے لیے امریکا اُنھیں سبق سکھاتا رہتاہے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں سبق سکھانے کی حکمتِ عملی کے ماضی کی طرح نتائج برآمد نہیں ہوتے بلکہ گاجر اور چھڑی کی حکمتِ عملی سے دوریاں بڑھنے لگی ہیںاورامریکہ پر اعتبار کی بجائے شکوک وشبہات کی نظر سے دیکھاجا نے لگا ہے دوست اپنے دوستوں کو سبق نہیں سکھاتے بلکہ مشکل کی گھڑی میں ساتھ دیتے ہیں یہ درست ہے کہ ریاستوں کے تعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں جن میں اُتار چڑھائو آتا رہتا ہے لیکن دوست کو مشکل کی گھڑی میں تنہا چھوڑ نا یا اپنا وزن اُس کے دشمن کے پلڑے میں ڈال دینابھی دوستی نہیں مشکل میں دوست کو تنہا چھوڑنے یا دشمن کے ساتھ کھڑا ہونے سے جنم لینے والی بدمزگی کا اثر جلدی ختم نہیں ہوتا بدلے حالات میں تو اب یہ اور بھی نقصان دہ ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک کے پاس ایک سے بڑھ کر انتخاب موجود ہے جس کا شاید امریکہ کو زیادہ ادراک نہیں اگر ہوتاتو ماضی جیسی پالیسی نہ رکھتا امریکہ اور سعودی عرب تعلقات کے نبض شناس محمد الحمید اِس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جو بائیڈن کو منتخب کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق بنیاد پرست بائیں بازو سے تھا اسی لیے منتخب ہوتے ہی انھوں نے اپنے ووٹروں کی کی مرضی کے مطابق ایجنڈ ا تشکیل دیا جس کی زد میںآ کر امریکہ سعودی تعلقات بھی خاص طور پر متاثر ہوئے توانائی کا بحران کم کرنے کے لیے اب شاید وہ اندرونِ ملک کے ساتھ ازسرے نو امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے عالمی استحکام پر توجہ دیں کیونکہ سعودی عرب کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تعلقات کے بغیر مضبوط شراکت داری کا تصور کرنا ممکن نہیں اور یہ کہ سعودی عرب سفارتی تعلقات میں کشیدگی کے باوجود تیل برآمد کرنے کا راستہ نکال سکتا ہے۔
جوبائیڈن سے حال ہی میں دریافت کیا گیا کہ وہ سعودی عرب کادورہ کرنے والے ہیں اِس کا ایجنڈا کیا ہو گا؟ تو انھوں نے واضح کر دیا کہ ابھی دورے کا فیصلہ نہیں کیا اگر کیاتومملکت کے دورے کا ایجنڈا وسیع ہو گاتوانائی سے زیادہ بات چیت میں دیگر امور پرتوجہ ہو گی مگر جب یہ پوچھا گیا کہ کیا ریاض سے کچھ وعدوں پر عملدرآمد کا انتظار کیا جارہا ہے تو انھوں نے معنی خیز لہجے میں یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ سعودیوں کے وعدوں کا توانائی سے تعلق نہیں بلکہ یہ سعودی عرب میں ہونے والی ایک بڑی ملاقات ہے جو بائیڈن کی اِس بات سے یہ مطلب اخذ کیا جارہا ہے کہ وہ توانائی سے زیادہ انسانی حقوق بہتر بنانے کا مطالبہ کریں گے لیکن ایسا کہنا جتنا آسان ہے عملی طورپربہت ہی مشکل ہے کیونکہ ایسا رویہ اختیار کرنے سے امریکا ،اسرائیل ،عرب امارات اور بھارت کے درمیان تجارتی و معاشی تعاون کا متوقع معاہدہ بھی خطرے میں پڑ جائے گا کیونکہ عرب امارات کسی صورت سعودی پسند کے منافی جا ہی نہیں سکتا۔
صدرجوبائیڈن اور سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان ملاقات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے سفارتی حوالے سے دوطرفہ تیاریاں جاری ہیں لیکن اِس ایک ملاقات سے دونوں ممالک میں موجود سفارتی سرد مہری کیا گرم جوشی میں ڈھل جائے گی؟ اِس حوالے سے فوری طورپر وثوق سے کچھ کہنا آسان نہیں حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ دونوں ہی ایک دوسری کی کسی حد تک مجبوری ہیں چاہے دوسری جنگِ عظیم کے اختتام سے دونوں ممالک میں دفاعی تعلقات اُستوار ہیں جن میں وقت کے ساتھ اُتارچڑھائو بھی آتا رہا پھربھی دفاعی شراکت داری قائم رہی اِس شراکت داری کو ڈونلڈ ٹرمپ نے دس ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے سے بامِ عروج پر پہنچادیاواشنگٹن اور ریاض کے تعلقات میں اِس حد تک بہتری آگئی کہ ترکی میں موجود سعودی سفارتخانے میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کا واقعہ بھی گرم جوشی متاثر نہ کر سکا مگرمعاملات تب زیادہ بگڑے جب وہ دوسری مدت کے لیے منتخب ہونے میں کامیاب نہ ہو سکے اور جو بائیڈن انتظامیہ نے دوست ممالک کو انسانی حقوق کا درس دیتے ہوئے ماضی کے واقعات سے جواب طلبی شروع کردی شاید واشنگٹن کا خیال یہ تھا کہ ایسا کرنے سے روس اور چین کو بھی سخت پیغام ملے گا لیکن توقع کے مطابق نتائج کی بجائے اِس پالیسی سے ریاض اور واشنگٹن کے تعلقات میں دراڑ آگئی ساتھ ہی روس اور چین سے امریکی تعلقات خراب ہوتے گئے جواب معاشی اور تجارتی محاز آرائی تک پہنچ چکے ہیں علاوہ ازیں عرب ممالک میں روسی مداخلت کے لیے حالات سازگار ہوتے گئے جس سے امریکہ کو کئی ایک سبق ملے اول عربوں کو کنٹرول کرنے کے لیے صرف اسرائیل پر انحصار درست نہیںدو م توانائی کا بحران اِس حدتک سارے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے کہ ریگولرپیٹرول کی قیمت 5ڈالر سے بڑھ گئی ہے قیمت میں ہونے والا اضافہ کب رُکے گا اِس بارے کچھ معلوم نہیں اسی لیے ریاض سے نرمی اختیار کی جارہی ہے سچ تو یہ ہے کہ توانائی کا حالیہ بحران جو بائیڈن کے ساتھ حکمران جماعت ڈیموکریٹک کی مقبولیت کو متاثر کررہاہے جس سے بچنے کے لیے جو بائیڈن کے پاس انسانی حقوق کے حوالے سے سخت گیر رویے کو نرم کرنے کے سواکوئی دوسراآپشن ہے ہی نہیں ۔
امریکہ کو مشرقِ وسطٰی میں کئی ایک چیلنج درپیش ہیں ایک توبڑھتی روسی مداخلت ہے دوسرا چین نے بھی عرب ممالک سے تجارتی روابط بہتر بنائے ہیں سعودی عرب سے ڈالر کی بجائے یو آن کرنسی میں تجارت کا معاہدہ ہونے کے قریب ہے علاوہ ازیں امریکہ توانائی کے بڑھتے اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لیے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے معاہدوں کو اپنے مفاد سے اہم آہنگ کرنا چاہتا ہے لیکن کیا یہ سب کچھ توقعات کے مطابق آسانی سے ہو جائے بادی النظر میں ریاض کی مخالفت کی صورت میںیہ آسان نظر نہیں آتاجو بائیڈن اور ولی عہد ملاقات میں امریکہ کو اپنے خراب رویے کی ایک تو کچھ وضاحت دینا ہو گی دوسرا سعودی عرب چاہے گا کہ واشنگٹن انسانی حقوق کی بات کر تے ہوئے ریاض کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرے دونوں کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے جو بائیڈن کی ساکھ کوخطرات ہیں تو سعودی ولی عہد کو بھی اتحادی امریکا کی ناراضگی مشکل میں ڈال سکتی ہے اِس لیے دونوں معاہدے کرتے ہوئے محتاط رہیں گے کیونکہ ماضی میں اگر واشنگٹن نے سعودی بادشاہت پر دبائو ڈالا توجواب میں سعودیہ نے ڈالر کی بجائے دیگر کرنسی میں تجارت کے معاہدے شروع کر دیے اِس لیے بظاہر اتنی جلدی دونوں طرف سے اعتماد سازی کی نوبت آنے کا امکان کم ہے۔
موجودہ سعودی عرب دوسری جنگِ عظیم کے بعد کافی بدل چکا ہے قدامت پسندانہ اقدارکو آزادانہ بنانے کے لیے شہزداہ محمد بن سلیمان نے غیر متوقع اقدامات اُٹھائے ہیں زراعت ،صنعت کو ترقی دی ہے دفاعی حوالے سے بھی بہتر پوزیشن پر ہے لیکن سزائے موت کے طریقہ کار پر امریکا کے تحفظات ختم نہیں ہو سکے اب جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے واشنگٹن کو یاد رکھناچاہیے کہ سعودیہ کے حکمران خاندان السعود کی نسل کے اقتدار کو خطرہ ہوتا ہے تو اِس سے خلیج فارس کے خطے میں تونائی کی حفاظت کا امریکا منصوبہ بھی بری طرح متاثر ہو گا اِس لیے سعودی ضروریات اپنی جگہ،امریکاکو اپنی اسٹریٹجک پوزیشن بہتر نہیں بناتا اور حماقتیں جاری رکھتاہے تویہ روس اور چین کو قدم جمانے کا موقع دینے کے مترداف ہوگا موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ریاض اور واشنگٹن دونوں ہی جنگ عظیم دوم کے بعد ہونے والے معاہدوں سے انحراف کے مرتکب ہیں جس سے نئی قوتوں کو خطے میں معاشی و تجارتی معاہدے کرنے کے ساتھ دفاعی تعلقات بڑھانے کی راہ ہموارہوئی اگر امریکاعالمی طاقت ہے تو سعودیہ بھی عرب ممالک
میںکافی اثر رسوخ رکھتا ہے قطر وغیرہ سے تعلقات بہتر بنانے کے بعد اُس کی حثیت مزید مستحکم ہوئی ہے اِن حالات میں امریکا کا نظرانداز کرنا حماقت ہی کہہ سکتے ہیں واشنگٹن کا تہران سے جوہری معاملے میں رابطے کے باوجود سفارتی تنائو برقرارہے اِس وقت امریکا کے لیے سعودی حمایت ناگزیر ہے اِس میںبائیڈن اور ولی عہد شہزادہ محمد کی ملاقات کہاں تک معاون ثابت ہوتی ہے جلد مطلع صاف ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر