وجود

... loading ...

وجود
وجود

فلپائن کے انتخابات

پیر 16 مئی 2022 فلپائن کے انتخابات

فلپائن اور پاکستان کی سیاست خاصی ملتی جلتی ہے۔جُوںجُوں آپ یہ مضمون پڑھتے جائیں گے آپ میری رائے سے اتفاق کریں گے۔ ایشیا کے ملکوں میں خاندانی‘ موروثی سیاست مضبوط اور گہر ی جڑوں کی حامل ہے۔ اس کا تازہ ترین مظاہرہ فلپائن کے نو مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات ہیں۔سابق آمرفرڈیننڈ مارکوس کے بڑے بیٹے مارکوس جونئیرالمعروف بونگ بونگ نے کاسٹ کیے گئے ووٹوں کا ساٹھ فیصد حاصل کرکے معرکہ جیت لیا۔ اپنی قریب ترین حریف خاتون امیدواراور انسانی حقوق کی وکیل’ لینی روبریڈو‘کوزبردست شکست سے دو چار کیا۔ انہیں اٹھائیس فیصد ووٹ ملے۔ بونگ بونگ مارکوس اُسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں جسے چھتیس برس پہلے زبردست ‘ خونی عوامی احتجاج کے نتیجہ میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ انیس سو چھیاسی میں’ کوری اکینو ‘نامی خاتون سیاستدان نے ان کے والد فرڈیننڈ مارکوس کے اِکیس سالہ اقتدار کا خاتمہ کیا تھا۔مارکوس نے پہلے سات سال منتخب صدر کی حیثیت سے اوربعد میں چودہ برس مارشل لا لگاکر حکومت کی تھی۔معزول ہونے پر امریکا کے جزائر ہوائی چلے گئے تھے اور تین سال بعد وفات پاگئے تھے۔ مارکوس خاندان اُنیس سو بانوے میں جلاوطنی ختم کرکے فلپائن واپس آگیا اورفوراً فلپائن کی سیاست میں داخل ہوگیا ۔مارکوس جونئیر پہلے اپنے آبائی صوبہ میں گورنر منتخب ہوئے۔ پھر سنیٹر بنے۔ اب جون میںوہ ملک کے سترھویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔ عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ خاندانی سیاست دیہی علاقوں میں موثر ہوتی ہے۔فلپائن کی تقریباً نصف آبادی شہروں میں رہتی ہے لیکن اس کے باوجودموروثی سیاست قائم ہے۔
سات ہزار جزائر پر مشتمل ملک فلپائن ایشیا کے بالکل مشرق میں قدرے جنوب کی طرف واقع ہے۔ سوا کروڑ آبادی ہے۔ منیلا اس کا دارلحکومت ہے لیکن سب سے بڑا شہر’ کویزون سٹی ‘ہے۔سولھویں صدی میں اسپین نے ان جزائر پر قبضہ کرکے اسے اپنی نوآبادی بنالیا تھا۔اس وقت اسپین کے بادشاہ کا نام فلپ دوم تھا۔ ان کے نام کی مناسبت سے ان جزائر کو فلپائن کا نام دیا گیا۔اٹھارہ سو اٹھانوے میں امریکا نے اسپین کو شکست دے کر ان پر قبضہ کیا۔جولائی انیس سو چھیالیس میں فلپائن امریکا سے مکمل طور پر آزادہوا۔ آبادی کی غالب اکثریت (اسیّ فیصد)کیتھولک مسیحی ہے۔ چھ فیصد مسلمان۔اس سال مجموعی داخلی پیداوار پونے چار سو ارب ڈالر ہے۔اُنیس سو ساٹھ کی دہائی میں فلپائن کی دولت چین‘ جنوبی کوریا‘ تھائی لینڈ اور انڈونیشیا ایسے ملکوں سے زیادہ تھی لیکن اب اُن سے پیچھے ہے۔ بالکل جیسے پاکستان۔ اس کے شہروں میں کچی بستیاں اور غربت عام ہیں۔ تقریباً بیس فیصد آبادی بہت غریب ہے۔ البتہ خواندگی اور تعلیم کی شرح بہت اُونچی ہے۔پندرہ سال اور اس زیادہ عمر کے لوگوں میںشرحِ خواندگی اٹھانوے فیصد ہے۔
فلپائن میں صدارتی نظامِ حکومت رائج ہے ۔ صدر اور نائب صدر کوعلیحدہ علیحدہ ووٹوں سے لیکن ایک ہی وقت میں چھ سال کے لیے منتخب کیاجاتا ہے۔ صدر اور نائب صدر کا تعلق دو الگ الگ پارٹیوں سے ہوسکتا ہے۔ الیکشن سے پہلے چھ سال فلپائن کے صدر’ رُوڈرِیگو ڈُوٹَرٹے‘ تھے۔ نائب صدر خاتون ’لینی روبریڈو‘ تھیں۔ دونوںمختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ فلپائن کے آئین کے تحت کوئی شخص ایک مدّت سے زیادہ صدر نہیں ہوسکتا۔ دو ہزار سولہ میں لینی روبریڈو نے مارکوس جونئیر کونائب صدر کے الیکشن میں شکست دی تھی۔لیکن اس بار صدارتی الیکشن اُن سے ہار گئیں۔مدّت پوری کرنے والے صدر ڈُو ٹرٹے کے مارکوس خاندان سے قریبی تعلقات ہیں۔ انہوں نے مارکوس کی میّت کو ہوائی جزائر سے فلپائن لاکر سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا تھا۔ ان کی بیٹی ساراڈُوٹرٹے اس بار نائب صدر کی امیدوار تھیں اور مارکوس جونئیر کی حامی۔ اِن کے ووٹرزمتحدہوگئے ۔دونوں کامیاب ہوگئے۔
مارکوس جونئیر کی کامیابی میں ایک اہم کردار سوشل میڈیا کا تھا۔ فلپائن میں فیس بک‘ ٹک ٹاک اور یوٹیوب کا استعمال کثرت سے ہوتاہے۔ اِن پلیٹ فارموں پر مارکوس کا پروپیگنڈہ چھایا ہوا تھا۔ ان کے والد پر کرپشن کے سنگین الزامات تھے۔ ان کے دور میں شہری آزادیاں سلب کی گئیں تھیںلیکن ان کے دور میں انفراسٹرکچر میں خاصی ترقی ہوئی تھی۔سیاسی استحکام تھا۔مارکوس کے معزول ہونے کے بعد اُنیس سو چھیاسی میں فلپائن میں جمہوری دور شروع ہوا لیکن اس کے نتیجہ میں امیر اور غریب کا فرق بڑھ گیا۔ عوام کی اکثریت کو معاشی فوائد حاصل نہیں ہوئے۔اس دوران میں بارہ مرتبہ فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی لیکن نا کام ہوئی ۔ملک میں درجنوں کرپشن سکینڈل زبان زدِ عام ہیں۔تین بار صدر کے احتساب کی کوشش کی گئی لیکن کامیاب نہیں ہوئی۔ فلپائن کی جمہوریت لڑکھڑاتا ہوا سیاسی نظام ہے جومعاشرہ میں سیاسی تقسیم ختم کرکے استحکام پیدا نہیں کرسکا۔ دو سال پہلے شروع ہونے والی کورونا وبا نے پوری دنیا کی طرح فلپائن کی معاشی حالات کو بُری طرح متاثر کیا۔بے روزگاری بے تحاشابڑھ گئی۔ صدارتی انتخابی مہم میں سوشل میڈیا کے ذریعے مارکوس کے بیس سالہ اقتدار کو ایک سنہری دور کے طور پر پیش کیا گیا۔ نئی نسل نے اس بیانیہ کو قبول کرلیا۔جمہوری اور انسانی حقوق کے علمبردارتشویش میں مبتلا ہیں کہ مارکوس جونئیر کہیں اپنے والد کے زمانہ کا جبر وتشدد‘ کرپشن اور اقربا پروری کا دور واپس نہ لے آئیں۔ ان سے یہ توقع بھی نہیں کہ پیش رو صدرڈُوٹرٹے کے کرپشن اور ظلم و ستم پر ان کا احتساب کریں گے۔
بحرالکاہل کے اہم سمندری راستے میںواقع ہونے کے باعث فلپائن تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔اس کے مغرب اور شمال میں جنوبی بحیرہ چین(ساؤتھ چائنہ سی ) واقع ہے جو اہم تجارتی راستہ ہے۔ذرا شمال کی طرف چین کا باغی صوبہ تائیوان واقع ہے۔اس اعتبار سے امریکا اور چین دونوں بڑے ملکوں کے لیے فلپائن کا خاص رتبہ ہے۔ اُنیس سو سینتالیس میں فلپائن نے امریکا سے دفاعی معاہدے کیے جن کے تحت امریکا نے فلپائن میں اپنے فوجی اڈّے بنائے۔انیس سو اکیانوے میں یہ معاہدے اور اڈّے ختم ہوگئے۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان فوجی اتحاد اور تعاون قائم ر ہا۔ دو ہزار چودہ میں فلپائن نے ایک بار پھر امریکا سے دس سالہ عسکری معاہدہ کیا جس کے تحت امریکا نے یہاں دوبارہ اڈّے قائم کرلیے۔مغربی فلپائنی سمندر کو چین ساؤتھ چائنا سمندرکا حصہ قرار دے چکا ہے جس سے ا مریکہ اور جاپان کوخاصی تکلیف ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ فلپائن اس معاملہ پر چین کا موقف تسلیم نہ کرے۔ مدّت پوری کرنے والے صدر ڈُوٹرٹے نے چین سے مصالحانہ روّیہ اختیار کیا۔دوستی کو فروغ دیا۔ چین سے تجارت اور سرمایہ کاری کے حصول پر توجہ مرکوز کی۔تاہم ساتھ ساتھ امریکا سے تعلقات بنائے رکھے۔ مارکوس جونئیر بھی چین سے قربت رکھتے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ چین کی مدد سے معاشی ترقی کو تیز کریں گے۔چین اور امریکا کی بڑھتی مسابقت میں مارکوس جونئیر کے لیے ان دو طاقتوں کے درمیان توازن قائم رکھنا اہم چیلنج ہوگا۔انہیںطویل عرصہ سے جاری کمیونسٹ اور مسلمان مسلح گروپوں کی بغاوت سے بھی نپٹنا ہوگا۔ کئی اعتبار سے فلپائن کی سیاست میں پاکستان کا چہرہ نظر آتا ہے۔جیسے سیاسی طور پر منقسم ملک‘ موروثی سیاست‘ کرپشن کا زور‘ احتساب کی ناکامی‘ امیر اور غریب میں وسیع خلیج‘ سوشل میڈیا کی مقبولیت‘ ریاست کے خلاف مختلف گروہوں کی مسلح بغاوت‘چین اور امریکا کی کشمکش میں متوازن خارجہ پالیسی کا چیلنج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر