وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیاامریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت ہے ؟

جمعرات 17 فروری 2022 کیاامریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت ہے ؟

عالمی سیاست میں دو ممالک کے درمیان قائم ہونے والے سفارتی تعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں اور جیسے ہی ایک ملک کا دوسرے ملک کے ساتھ مفاد ختم ہوجاتاہے تو عین اگلے ہی لمحے سفارتی تعلق کا بھی از خود ہی خاتمہ بالخیر ہونے کا دونوں اطراف سے اعلان کردیاجاتا ہے۔دنیائے سیاست کا یہ ایک ایسامسلمہ اُصول یا کائناتی سچ ہے ،جس میں کبھی بھی کوئی تغیر یا تبدل واقع نہیں ہو سکا۔ یعنی نظام ہائے حکومت اور سیاست کے انداز بھلے ہی زمانہ کے سرد و گرم کے ساتھ بدلتے رہے ہیں لیکن اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ بس یہ ہی ایک اُصول ِ سیاست و جہاںبانی ہے۔ چونکہ ہم سے کئی ہزار میل دور واقع امریکا کے ساتھ پاکستان کے مفادات کا توازن حالات کی نوعیت کے حساب سے افراط و تفریط کی نظر ہوتا رہا ہے اس لیے شروع دن سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات بھی زبردست اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں ۔ کبھی تو ہم امریکا کے اِس قدر قریب آجاتے ہیں کہ من و تو تفریق ہی ختم ہوکر رہ جاتی ہے اور کبھی اِن دونوں ممالک کے درمیان قائم سفارتی تعلقات میں سات سمندر جتنی وسیع خلیج حائل ہوجاتی ہے۔
واضح رہے کہ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پاکستانیوں نے امریکا کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا لیکن 1965 کی پاک بھارت جنگ میں جب امریکی بحری بیڑہ ہماری مدد کو نہ آسکا تو ہمیں اندازہ ہوا کہ امریکا نے اپنے جس ہاتھ سے ہمارے دوستانہ ہاتھ کو تھاما تھا ،وہ تو اُلٹا ہاتھ تھا ۔ جس پر ہمیں صدمہ تو ضرور ہوا مگر بہرحال پاک امریکا دوستی ؎جوں کی توں برقرار رہی ۔کچھ عرصے بعد 1971 کی پاک بھارت جنگ میں امریکا نے ہمارے ساتھ جو ’’سفارتی ہاتھ‘‘ کیا ، اُس کی وجہ سے ہمارا ملک دو لخت ہوگیااور ہمارا دیرینہ دوست کہلانے کا دعوی دار، امریکا، کہیں بہت دور کھڑا تماشا دیکھتا رہا۔ حالانکہ ہم نے اسی برس امریکا اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ جب 1971 میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر مری سے خفیہ طور پر بیجنگ پہنچے تھے اور پھر اسلام آباد واپس آ گئے تھے مگر امریکی حکام کی جانب سے دنیا بھر کو باور یہ کروایا گیا تھا کہ وہ علیل ہو گئے ہیں اور مری میں مقیم ہیں۔جبکہ وہ بیجنگ کے ساتھ اپنے سفارتی معاملات کو پاکستانیوں کی معاونت کے ساتھ درست فرمارہے تے۔ بعدازاں ان کے اسی شہرہ آفاق خفیہ دورہ ہی کی بدولت صدر نکسن کے دورہ چین کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ تاریخ کا یہ باب بین الاقوامی امور میں ایک سنگ میل ثابت ہوا، مگر افسوس ہماری غیر معمولی دوستانہ سفارت کاری کے جواب میں امریکا اتنا بھی نہ کرسکا کہ بھارت اور روس مل کر سقوطِ ڈھاکہ کا جو خفیہ پلان ترتیب دے رہے تھے، اُس پلان کی تفصیلات سے ہی ہمیں پیشگی آگاہ کردیتا ۔جبکہ امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے سقوطِ ڈھاکہ کے پلان سے پوری طرح باخبر ہی نہیں تھی بلکہ اسے تہہ و بالا کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتی تھی۔
دراصل امریکا نے پاکستان کے ساتھ قائم سفارتی تعلقات میں فقط اُسی وقت گرم جوشی دکھائی ہے ، جب اُسے پاکستان کے ساتھ اپنا کوئی اہم مفاد وابستہ دکھائی دیا۔ جیسے 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ ہونے کے بعد امریکا نے ہم پر اپنی محبت کے وہ ڈورے ڈالے کہ ہم امریکا کے لیے اُس وقت کی عالمی سپر پاور سے میدانِ جنگ میں اُلجھ پڑے ۔ اگر پاکستان سوویت یونین کو شکست نہ دیتا تو کیا امریکا آج واحد عالمی طاقت کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہوسکتا تھا؟۔ اس بارے میں اگر امریکا ایک بار بھی سوچ لیتا تو وہ کبھی سرد جنگ کے بعد پاکستان کو لاکھوں افغان مہاجرین کے ہجوم میں تنہا چھوڑ کر نہ جاتا۔ سرد جنگ کے بعد امریکا نے کبھی ہماری طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا، تاآنکہ امریکا میں نائن الیون کا سانحہ رونما نہ ہوگیا۔ 2001 میں اسامہ بن لادن سے ہزاروں امریکیوں کی موت کا بدلہ چکانے کے لیے امریکا کو ہماری ضرورت پڑی اور یوں ایک بار پھر سے پاکستان کو امریکا نے اپنا سب سے بڑا اتحادی اور دوست قرار دے دیا ۔
امریکا کے ساتھ ہم نے یہ دوستی 20 برس تک پوری امانت داری اور جاں فشانی کے ساتھ نبھائی ،جس کی وجہ سے دہشت گردی کی جنگ افغانستان سے ہماری دہلیز تک آپہنچی ۔ جسے ہم نے ہزاروں شہیدوں کی قربانی دے کر بالآخر جیت ہی لیا۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی فقید المثال کامیابی کو بھی امریکا نے ہمیشہ شک و شبہ اور بے اعتباری کی عینک سے ہی دیکھنے کی کوشش کی اور کبھی کھلے دل سے ہماری کامیابیوں کا اعتراف کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ حد تو یہ ہی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء میں جو غیر معمولی دستِ تعاون ہم نے امریکی حکام کو بہم پہنچایا ، بعدازاں اُسے بھی تسلیم کرنے میں کنجوسی سے کام لیا۔ پاک امریکا تعلقات کی تلخ و شیریں تاریخ کے تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کا ایک انٹرویو میں یہ کہنا بالکل ٹھیک ہے کہ ’’امریکا نے ہمیشہ پاکستان کو اپنا مطلب نکالنے کے لیے استعمال کیا اور امریکا کو جب اور جہاں ضرورت پڑی ہمیں اپنا دوست بنایا اور جب اُس کا مطلب نکل گیا توچھوڑ دیا‘‘۔ وزیر اعظم پاکستان کو یہ الفاظ اس لیے ادا کرنا پڑے کہ جب سے وہ چین کے دورے پر گئے ہیں امریکا نے پاکستان کو ایک بار پھر سے اسٹریٹجک پارٹنر کہنے کی گردان شروع کردی ہے ۔
دراصل اس مرتبہ واشنگٹن کا اسلام آباد سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ چین کے ساتھ اپنے برسوں پرانے سفارتی تعلقات کو منقطع کر کے اُس کے کیمپ میں شمولیت اختیار کرلیں اور اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے واشنگٹن دھونس اور دھمکی سے لے کر لالچ تک ہر حربہ اسلام آباد پر آزما نے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن مگر اسلام آباد کسی بھی صورت بیجنگ کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر آمادہ نہیں۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاک و امریکا تعلقات کی پوری تاریخ میں کسی پاکستانی وزیراعظم نے پہلی بار چین کی خاطر امریکی صدر کے سامنے ابسلوٹلی ناٹ یعنی حرفِ انکار کیا ہے۔ یقینا اس جملے کو سننے کی اُمید ایک پاکستانی وزیراعظم سے امریکی صدر جوبائیڈن نے کبھی خواب و خیال بھی نہ کی ہوگی۔ خاص طور پر بیجنگ میں بیٹھ کر وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کا امریکا سے گلے شکوے کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیناکہ ’’ سردجنگ میں امریکی اتحادی ہونے کی جو بار بار قیمت چکانا پڑی، اب دوبارہ پاکستان ایسی صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا‘‘۔بہت غیر معمولی بات ہے اور شاید یہ اسی جملے کی تلخی ہے جسے محسوس کرنے کے بعد امریکا کو پاکستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کا سنہری یادیں بارِ دگر شدت سے یاد آنے لگی ہیں ۔
دوسری جانب بھارت کی فطری بزدلی بھی ایک ایسی وجہ ہے ،جس نے امریکا کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اُسے چین کے خلاف اپنا اسٹریٹجک پارٹنر جلد ازجلد بدل دینا چاہیے۔ دراصل واشنگٹن کے پالیسی ساز حلقوں میں بڑی تیزی کے ساتھ یہ تاثر مستحکم ہوتا جارہا ہے کہ چین کے خلاف بھارت کو اپنا اسٹریٹجک پارٹنر بنانے کا فیصلہ ،امریکا کی ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ کیونکہ چین جیسے بڑے اور باصلاحیت ملک کے خلاف سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونے کے لیے جس ہمت و حوصلہ کی ضرورت ہے۔ وہ کم ازکم بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت میں تو سرے سے موجود ہی نہیںہے۔جس کا اندازہ امریکیوں کو وادی لداخ میں اپنا ہزاروں مربع میل کا علاقہ گنوانے کے بعد چین کے ہاتھوں حاصل ہونے والی سبکی اور رسوائی سے بخوبی ہوگیا ہے۔ نیز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی روایتی ہٹ دھرمی اور مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف اختیار کی جانے والی اُن کی متعصبانہ سیاست کی وجہ سے بھی بھارت میں داخلی طور پر اتنی زیادہ ریاست مخالف تحریکیں پیدا ہوچکی ہیں کہ جن کی موجودگی میں جب بھارت کو اپنا ریاستی ڈھانچہ برقرار رکھنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کر پڑرہا تو ایسی صورت حال میں وہ متحد ویکجان چینیوں کے خلاف امریکا کی جنگ کیسے لڑ سکے گا؟۔
امریکی حکام کی دانست میں نئی دہلی کے مقابلے میں اسلام آباد چین کے خلاف اس لیے بھی ایک بہتر آپشن ثابت ہوسکتاہے کہ پاکستان گزشتہ چند دہائیوں میں کئی بڑی عالمی جنگوں میں کامیاب اور سرخرو رہا ہے اور میدانِ جنگ میں اپنے دشمن کے خلاف نبرد آزما ہونا کا جتنا عملی تجربہ پاکستانی فوج کو حاصل ہے ،شایدہی آج کی دنیا میں کسی دوسرے ملک کی فوج کو اتنی عسکری مہارت حاصل ہو۔ پاکستان کی یہ غیر معمولی صلاحیتیں ایک بار پھر سے امریکا کاجی للچارہی ہیں اور واشنگٹن چاہتا ہے کہ پاکستان چین کے خلاف اُس کے اسٹریٹجک کیمپ کا حصہ بن جائے ۔ مگر امریکا کے لیے سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ پاکستان کسی بھی صورت چین پر امریکا کو ترجیح دینے پر تیار نظر نہیں آتا ۔وزیراعظم پاکستان عمران خان تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ’’امریکاکے ساتھ پاکستان کو مستقبل میں کس نوعیت کے دفاعی و سفارتی تعلقات استوار کرنا چاہیے ،اس موضوع پر پارلیمان میں بحث ہونی چاہئے‘‘۔وزیراعظم پاکستان کے اس بیان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اسلام آباد ،واشنگٹن سے کس قدر نالاں ہے۔دراصل عالمی منظرنامہ میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورت حال دنیا کے ہر ملک کو مجبور کررہی ہے کہ وہ چین یاامریکا میں سے کسی ایک ملک کا انتخاب کرلے ۔ یقینا پاکستان امریکا اور چین میںسے کس کیمپ کا رخ کرے گا ہم سب بخوبی جانتے ہیں لیکن شاید یہ چھوٹی سی بات امریکا نہیں جانتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر