وجود

... loading ...

وجود
وجود

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

منگل 01 فروری 2022 دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

جماعت اسلامی جی اُٹھی ہے۔ حافظ نعیم الرحمان نے اس کی رگوں میں منجمد خون دوڑا دیا ہے۔ تاریخ میں جینے والی جماعت اب تاریخ بنانے پر آمادہ ہے، حضرت علامہ اقبال نے ”اے روحِ محمدۖ ” کے عنوان سے ایک مسلمان کے اضطراب کو استفہامیہ بنایا تھا، جماعت اسلامی کا کارکن دہائیوں کے جمود کے بعد ان اشعار کی ہو بہو تصویر بن گیا تھا، نظم کا ہر شعر ایمان تازہ کرتا ہے، مگر وہ ایک مصرعہ ، جب سمندر میں لذتِ آشوب سے محروم، آیاتِ الٰہی کا نگہبان پوچھتا ہے:
پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے
کراچی میں کالے بلدیاتی قانون پر جماعت اسلامی کا 29 روزہ دھرنا مختلف جہتوں سے بحث کا موضوع ہے۔ بیرونی دائرے میں اس کے اثرات پر مختلف آراء موجود ہیں۔ ایک طرف لہلاتے امکانات کا ذکر بادِ نسیم کے خوش نما جھونکوں کی طرح جاری ہے، تو دوسری طرف فصلِ گل پر اندیشۂ زوال کی بدگمانیاںبھی خوب خوب پھیل رہی ہیں۔ مگر جماعت کا ایک اندرونی دائرہ ہے،جہاں دہائیوں سے جینے کی صورت مسلسل بے کلی کے ساتھ رہی ہے،امیدوں کے مسافر دل نگری کی ویرانی پر ماتم کناں رہے ہیں۔جہاں درودیوار پر پرندے اُترنے سے ہچکچاتے رہے ہیں۔اس عرصے میں گوادر میں مولانا ہدایت الرحمان کے تنِ تنہا اپنے گریباں کو پرچم بنانے اور حافظ نعیم کے میدانِ عمل میں اُترنے سے جماعت اسلامی کے آنگن کی رونقیں لوٹنے لگی ہیں۔ جماعت کے حلقوں میں ایک برقی لہر دوڑرہی ہے۔ دہائیوں سے سویا کارکن اچانک بیداری کی کروٹیں لے رہا ہے۔ سو پیپلزپارٹی کے ساتھ معاہدے میں موجود کنکروں ، تنکوں اور کانٹوں کے باوجود یہ جماعت اسلامی کے لیے انتہائی تحریک افزا موقع ہے۔ نظریاتی کارکن کے لیے اقدامی سیاست پر اطمینان کی یہ کیفیت کافی سے زیادہ ہوتی ہے۔ اُسے منزل کا اطمینان ،راستے کے شعورکے ساتھ میسر ہو تو اُس کے بدن میں بجلیاں جاگ اُٹھتی ہیں ، آرزؤں کے چراغ جل اُٹھتے ہیں۔
اندرون جماعت کی کیفیت بحث کا ایک دائرہ ہے، مگر بیرون جماعت معاہدے کی نوعیت اور پیپلزپارٹی کی تاریخ کچھ اور طرح کے اندیشے پیدا کرتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمان کی معاہدے کے بعد کی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو احساس ہوتا ہے کہ وہ اس کا کماحقہ ادراک رکھتے ہیں۔ وہ لہو گرم رکھنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔ درحقیقت پیپلزپارٹی کراچی کے معاملے میں کبھی دشمن نفسیات سے بلند نہیں ہوسکی۔ فی نفسہ کراچی کسی کا دردِ سر نہیں رہا۔ یہ ”معاشی” (لوٹ مار) موقع اور سیاسی لین دین کا محض ایک کھاتا سمجھا جاتا ہے۔ اس معاملے میں سیاسی و غیر سیاسی قوتوں میں کوئی تفریق نہیں۔ کراچی کی سیاست کی اصل حیثیت کا تعین ٹھیک ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی کی قومی اسمبلی کی نشستیں دراصل مرکزی سیاست کو گرفت میں رکھنے کا ایک حیلہ، آلہ اور ذریعہ بنتی ہیں۔ نوے کی دہائی سے اب تک مرکزی حکومت کے قیام اور تحلیل میںکراچی کی سیاسی قوتوں کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اصل قوتوں کے لیے یہ ”ہدف” اتنا ”بڑا” تھا کہ اس کے لیے کراچی میںٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور غنڈہ گردی تک کو برداشت کیا گیا۔ایم کیوایم مرکز میں اپنا سیاسی حجم، طاقت کے مراکز کی مرضی کے پلڑوں میں ڈال کر کراچی میں تنہا کوس لمن الملک بجانے کی آزادی حاصل کرتی رہی ہے۔ اس حوالے سے کراچی کا حق ِ نمائندگی ہمیشہ استحصال کا شکار رہا۔
دوسری طرف ایم کیوایم کے لیے کراچی اور پیپلزپارٹی کے لیے سندھ میں قومیتوں کا تعصب اور لسانی تفریق ہمیشہ سود مند ثابت ہوئی۔ چنانچہ ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے مقابل ایک دوسرے کے سہولت کار ثابت ہوئے ۔ یہ دونوں جماعتیں دشمنوں کی طرح صف آرا ء اور باہم شیروشکر رہنے کی ملی جلی تاریخ رکھتی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کی اصلیت وسیم اختر اور ناصر شاہ کے ایک بصری فیتے (ویڈیو کلپ )سے ظاہر ہے جس میں سابق میئر وسیم اختر، ناصر شاہ کے ساتھ اپنی دوستی ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم سب ملے ہوئے ہیں، اندر سے ملے ہوئے ہیں”۔اس پر ناصر شاہ ایک جملے کا اضافہ کرتے ہیں کہ” اندر سے بھی اور باہر سے بھی ملے ہوئے ہیں”۔ سندھ اسمبلی میں لہک بہک کر بولنے والے خواجہ اظہار الحسن اس پر تائیدی فقرہ جڑتے ہیں۔یہ شرم ناک بصری فیتہ ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی کی پوری تاریخ کی حقیقت کو واشگاف کرتا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف اپنے اپنے علاقوں میںاپنے وجود کا جواز بنتے ہیں۔ پھر انتخابی معرکہ سر کرنے کے بعد ایک دوسرے کے مددگار ہوجاتے ہیں۔ اس کھیل تماشے کو اب پینتیس سال ہوتے ہیں۔
بدقسمتی دیکھیے! ایم کیوایم جو مطالبات اپنے آغاز میں رکھتی تھی، وہی مطالبات اب بھی دہرا رہی ہے۔ پینتیس برسوں میں کراچی کی جبری نمائندگی کرنے والی جماعت کب جوابدہ ہوگی؟ ایم کیوایم کو جماعت اسلامی کے معاہدے پر اعتراض ہے، سوال یہ ہے کہ پینتیس برسوں میں کراچی کی مکمل صوبائی اور بلدیاتی نمائندگی رکھنے کے باوجود یہ مسائل جوں کے توں کیوں ہیں؟ اُسے معاہدے پر اعتراض کے بجائے مسائل کے ہونے پر جوابدہ ہونا چاہئے۔ ایم کیوایم کا شور شرابہ اس لیے بھی انتہائی تکلیف دہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ موجود مسائل پیدا کرنے میں سیاسی شراکت داری رکھتی تھی۔ خود موجودہ کالا بلدیاتی قانون بھی ایم کیوایم کی مرضی کے بغیر منظور نہ ہوسکتا تھا۔ کالا بلدیاتی قانون 2013ء میںمنظور ہوا تو ایم کیوایم مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں 50سے زائد ارکان کے وزن کے ساتھ براجمان تھی۔ مگر ایم کیوایم نے ان 9 برسوں میں ایک مرتبہ بھی پیپلزپارٹی کے لیے کوئی چیلنج ہی پیدا نہیں کیا۔ وہ وزیراعلیٰ ہاؤس کا ہی نہیں پریس کلب تک کا راستا بھولے رہی۔ کالے بلدیاتی قانون پر کوئی احتجاجی تحریک چلائی نہ کوئی احتجاج کیا۔ یہی ماجرا دیگر سیاسی جماعتوں اور ٹوٹے ہوئے ٹولوں کا بھی ہے۔
جماعت اسلامی کے میدان میں کودنے کے بعد اب کراچی میں انتخابات پر دانت تیز کرنے والی سیاسی جماعتوں کو اچانک یہ یاد آگیا ہے کہ بلدیاتی قانون کالا ہے اور اس کے خلاف کھڑا ہونا ضروری ہے۔ کیا ان سیاسی جماعتوں کا شعور اس پورے عرصے میں خلاء میں تھا۔ کیا اس سیاسی شعور کو اب انتخابات کے قریب آکر جاگنا تھا؟کون نہیں جانتا کہ ایم کیوایم کو اب بھی کراچی کے مسائل کی ذرا پروا نہیں۔ درحقیقت کراچی کی اصل قوت کون سی ہے، یہ ایک مستقل بحث ہے۔ ایم کیوایم کے لیے اصل مسئلہ سیاست میں واپسی اور طاقت کی حصول یابی ہے۔ وہ ماضی کی تلاش میں ہے، وہ ماضی جو الطاف حسین کی ایک تقریر سے روٹھ گیا ۔ ایم کیوایم کے لیے کراچی میں برقرار رہنا اب ایک مسئلہ ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ موجودہ بلدیاتی قانون کے خلاف جو تحریک چلانا چاہ رہی ہے ، اس میں پی ٹی آئی اس کے ساتھ شریک ہے، اور پی ٹی آئی وہ جماعت ہے جسے ایم کیوایم کا وجود کاٹ کر ، شہر کراچی میں زندگی بخشی گئی ۔ ایم کیوایم پی ٹی آئی کی کراچی میں سیاسی نمائندگی کو اصلی نہیں سمجھتی۔ سیاست مفادات کی اسی بے حیائی کا نام ہے۔
جماعت ِ اسلامی کو سیاسی جماعتوں کی بدچلنی سے پیدا ہونے والی گراوٹ کے ماحول میں ایک موقع ملا ہے۔ مگر یہ موقع پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سے ملاہے، جس کے پیچھے کچھ اور کھیل بھی ہے۔ جسے ظاہر کرنے کایہ موقع نہیں۔ جماعت ِ اسلامی موجودہ ماحول میں مرکزی منظر نامے سے خود کو پیچھے نہ دھکیلے جانے کے لیے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا دباؤ پیدا کرسکی تو یہ ایک مختلف تاریخ کا ابتدائی سنگِ میل ہوگا۔ آصف علی زرداری کے الفاظ یاد رکھیں ! پیپلزپارٹی معاہدوں کو قرآن وحدیث نہیں سمجھتی۔ وہ 59 نکاتی معاہدۂ کراچی(دسمبر 1988)
کو روند چکی ہے اور آٹھ صفحاتی میثاقِ جمہوریت (مئی 2006ئ)کے صفحات کی سیاہی ابھی تازہ تھی کہ اس سے انحراف کرگئی۔ پیپلزپارٹی کاسب سے بڑا مسئلہ اعتبار کا ہے ،دیگر جماعتیں پیپلزپارٹی کے پیٹھ دکھانے کا انتظارکریں گی ، جب وہ جماعت اسلامی کو ہدفِ تنقید بنائیں گی۔ حافظ نعیم الرحمان کے لیے دھرنے سے زیادہ کڑا وقت وہی ہوگا۔دیکھیں! غالب بھی غضب ڈھانے کب یاد آئے:
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر