وجود

... loading ...

وجود
وجود

خود پسندی سے بے بسی تک

هفته 13 نومبر 2021 خود پسندی سے بے بسی تک

اپوزیشن رہنمائوں سے ہاتھ ملانے کو عمران خان کرپشن تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیںاور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے بھی گریز کرتے ہیں مبادا کسی اپوزیشن رہنما سے ہاتھ ملانے کی نوبت نہ آجائے حالانکہ پارلیمانی طرزِ حکومت میں حزبِ اقتدارکی طرح حزبِ اختلاف بھی اہم ہوتی ہے مگر وائے افسوس کہ پاکستان میں ایسی جمہوری قدریں نہیں بن سکیں موجودہ حکمراں تو اپنے سوا سب کو خائن سمجھتے ہیں عمران خان کی کامیابی سے امید تھی کہ شاید جمہوری قدریں مضبوط ہوںلیکن یہ خیال بھی خام ہی ثابت ہوا ہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال خراب تر ہوتی جارہی ہے جمہوریت میں اپوزیشن کا نکتہ نطر سُننا پڑتا ہے ماضی میں پی پی اور ن لیگ نے سخت محازآرائی کے باوجود بات چیت اور مشاورت کے دروازے کُھلے رکھے مگر عمران خان تو پارلیمنٹ میں بھی اپوزیشن سے ہاتھ ملانے کے روادار نہیں ایساحکومتی طرزِ عمل عوام کو پارلیمانی طرزِ سیاست سے بدظن کر سکتا ہے اِس لیے نظام بچانے کے لیے حکومت کو رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ جب تک کچھ ثابت نہ ہو کسی کے کہنے سے کوئی چور یا ڈاکو نہیں ہو جاتا بڑی تعداد میںاپوزیشن اکابرین کو جیلوں میں بھی ڈالا گیا لیکن عدمِ ثبوت کی بنا پر اکثریت ضمانتوں پر رہا ہوچکے جس کے بعد الزام تراشی کا جواز نہیں رہتا پھر بھی تواتر سے حکومتی صفوں سے الزام تراشی جاری ہے اسی لیے انتخابی اصلاحات سمیت دیگر قانون سازی کے لیے حکومت کو ایوانوں میں سُبکی ہو نے لگی ہے جب تک خود پسندی سے نکلا نہیںجاتا مسائل کے حل کی بے بسی ختم نہیں ہو سکتی۔
صحت کارڈکا اجرائ۔کسانوں اور نوجوانوں کے لیے قرضوں کے پروگرام،نئے ڈیموں کی تعمیرحکومت کے اچھے اقدامات ہیں ٹیکسوں کی وصولی میں بھی ریکارڈبہتری آئی ہے شجر کاری پر بھی توجہ دی گئی مگر آٹے ،چینی ،دالوں ،سبزیوں ،گیس ،بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عام آدمی کی چیخیں نکال دی ہیں مہنگائی کے خلاف اپوزیشن کے شور شرابے پر وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک کھرب بیس ارب کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا لیکن یہ اعلان ابھی تک عملی شکل اختیار نہیں کر سکا اسی لیے مہنگائی رُکنے کانام نہیں لے رہی نئے ریلیف کی بجائے بجلی اور پیٹرول کی سبڈی ختم نہ کی جاتی تومہنگائی یوں بے لگام نہ ہوتی لیکن گُڈ گورننس کے فقدان سے حکومتی کنٹرول ختم ہو رہا ہے علاوہ ازیں بیوروکریسی اور تاجروں کی طرف سے بھی حکومتی منصوبوں میں اِس لیے تعاون نہیں کیا جارہا کیونکہ خود پسند حکمرانوں کو اپنے سوا کچ نظر ہی نہیں آتا جس کی بنا پر مسائل حل کرنے میں بے بس اور خرابی بڑھتی جارہی ہے اگر حکمرانوں نے اپنی خامیاں دور نہ کیں اورکام کرنے کی بجائے اپوزیشن کو ہی بُرابھلا کہنے پر زور رکھا تو اگلے الیکشن میں سخت خسارے سے بچ نہیں سکیں گے ۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہر شعبے میں جدت آرہی ہے دنیا کی کئی ریاستیں انتخابی طریقہ کار میں تبدیلیاں لارہی ہیں تاکہ دھاندلی کے امکانات ختم ہو سکیں اور ایسے آزادانہ و منصفانہ صاف شفاف الیکشن ممکن بنائے جائیں جس سے نتائج پر کسی کو اُنگلی اُٹھانے کا موقع نہ ملے پاکستان میں بھی اِس حوالے سے ڈھیروں کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں ہر الیکشن ہارنے والی جماعت دھاندلی کا شور مچاتی ہے مگر اُسی کام کے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں جو مشاورت سے کیا جائے لیکن حکمران مشاورت کی بجائے فیصلے ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں تبھی حکومتی جماعت کے سرکردہ رہنمائوں کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کی طرف بھی حمایت نہیں ملی اور پارلیمنٹ کا اجلاس بُلا کر ملتوی کرنا پڑاہے قبل ازیںحکومت کے قومی اسمبلی میں پیش کیے دونوں بل کثرتِ رائے سے نامنظور کر دیے گئے یہ شکست منفرد نہیں مگر یہ واقعہ اِس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر حکومت کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو مشکلات بڑھ سکتی ہیں ایم کیو ایم کو یہ شکوہ ہے کہ جولائی 2018 کے عام انتخابات میںاُس کی کئی جیتی نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی گئیں جبکہ ق لیگ کی خفگی کی وجہ یہ ہے کہ اُس کے اہم ترین لوگوں کو پی ٹی آئی کی طرف دھکیل دیا گیا اپوزیشن سے بات نہ کرنے کے روا دارجب اتحادی جماعتوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا جائے گا تو ردِ عمل آنا یقینی ہے اسی بنا پرحکمرانوں کی اپوزیشن کے ساتھ اتحادیوں سے بھی تلخی بڑھ رہی ہے لیکن اِس تلخی کا حکومت کو احسا س ہے یا اِس تلخی کو کم کرنے میں سنجیدہ ہے حالات سے ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نظر نہیں آتا البتہ اپوزیشن نے حکومتی اتحادیوں سے میل جول بڑھایاہے جس کی وجہ سے حکومت کی سادہ اکثریت ختم ہونے کا امکان بحرحل موجود ہے پی ڈی ایم جیسے اتحاد میں پی پی کوواپس آنے پر مصلحت پسندشہباز شریف رضامند کرلیاہے توحکمران کیوں سب کو دھتکارنے اور دیوار سے لگا کر رکھنے پر بضد ہیں؟ ۔
چند ایک وزیر اور مشیر تو ایسے ہیں جن کے بارے عام تاثر یہ ہے کہ وہ حکومت کو اچھے مشورے دینے کی بجائے بزور فیصلے کرانے کی حکمتِ عملی اپنانے پر زور دیتے ہیں شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران جماعت کے لوگوں کی کوئی فکری تربیت تو ہوئی نہیں بلکہ اکثریت ہانک کر شامل کرائی گئی ہے علاوہ ازیں اکثر لوگ حکومتی امور کے حوالے سے ناتجربہ کار ہیں اِن کی واحد مہارت کنٹینروں پر چڑھ کر گلے پھاڑ پھاڑ کر بولنا ہے وزیروں اور مشیروں کا کام حکومتی کاموں کا دفاع کرنا ہوتا ہے لیکن چند ایک کے سوا سب چُپ ہیں اتحادی بھی کچھ عرصے سے خاموش تماشائی بن چکے ہیں عین ممکن ہے مہنگائی کی وجہ سے حکومتی کاموں کے دفاع کی ہمت نہ رکھتے ہوں لیکن اپوزیشن سے لڑائی بڑھانے کی کوششیں کیوں کی جارہی ہیں ؟ کیا اُنھیں نہیں معلوم کہ حکومت کمزور وکٹ پر ہے مدتِ اقتدار کاتہائی حصہ گزارنے کے قریب ہے اب بھی اگر عام آدمی کو فائدہ نہ دیا گیا تو کس منہ سے الیکشن میں عوام کا سامنا کر یں گے ملک میں مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اراکینِ اسمبلی حلقوں میں جانے سے قاصر ہیں اپوزیشن کے دبائو پر اگر عام انتخابات کا اعلان کیا جاتا ہے تو حکمران جماعت کا جیتنا محال ہے اِس کا حکومتی حلقوں کو اِس کا ادراک کیوں نہیں ؟ وزیرِ اعظم جس چیز کی کمیابی کا نوٹس لیتے ہیں وہ چیز سرے سے مارکیٹ سے ہی غائب ہو جاتی ہے شوگر مافیا پر ہاتھ ڈالنے کے بلند وبانگ دعوے کیے گئے لیکن گنے کی پیداوار کے حوالے سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک میں چینی کا بحران عروج پراور چینی کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں لیکن خود پسندی نکل کر مسائل حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو رہی اگر ایسا رویہ ہی رہا تو حکومت رَٹ کی کمزوری مسائل حل کرنے میں بے بسی پر منتج ہوسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر