وجود

... loading ...

وجود
وجود

افغان مسائل اور سفارتی ہلچل

هفته 06 نومبر 2021 افغان مسائل اور سفارتی ہلچل

امریکی افواج کے انخلا کے دوران ہی افغانستان میں بدامنی جیسے مسائل سر اُٹھانے لگے تھے مگر بظاہر غیر جانبدار لیکن دل میں طالبان سے ہمدردی رکھنے والے کچھ تجزیہ کاروں کو یقین تھا کہ طالبان نہ صرف معاشی مسائل پرقابوپالیں گے بلکہ پُرامن افغانستان کی منزل بھی حاصل کر لیں گے لیکن معاشی اور عدمِ استحکام کے مسائل میں کمی نہیں آئی سفارتی ہلچل ضرورہے مگرنتائج کی بجائے ا بھی تک اٹھک بیٹھک تک محدود ہے امریکی افو اج کے انخلا کے دوران کابل ائرپورٹ کے نزدیک دھماکے ہوئے جن کے خلاف امریکانے کچھ کاروائی بھی کی اب تو عراق و شام کی طرح عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے جیسے واقعات میںاضافہ ہوگیا ہے جس سے بدامنی کے خدشات حقیقت ثابت ہونے کے ساتھ طالبان کے ناقابلِ تسخیرہونے کا تاثر بھی مجروح ہوا ہے کیونکہ حملوں میں سویلین کے ساتھ طالبان اہلکاروں کابھی جانی نقصان ہورہا ہے دراصل افغان مسائل کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایسی تنظیمیں برسرِ پیکار ہیں جن کے پاس مہات اور تربیت ہے سابق فوجی بھی طالبان مخالف گروہوں میں پناہ تلاش کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے دہشت گرد تنظیمیںطالبان پر حملے کرنے اور جانی و مالی زک پہنچانے میں کامیاب ہیں ۔
موسمِ سرماکے آغاز سے افغانستان میں بھوک وافلاس جیسے مسائل میں اضافہ ہو چکا ہے خوراک کے عالمی اِدارے نے دنیا کی توجہ اسی مسلہ کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی کُل آبادی میں سے ایک کروڑ بیس لاکھ افغانوں کوخاص طور پر خوراک کی کمی کاخطرہ ہے مگر عالمی برادری کا ردِ عمل حوصلہ افزا نہیں جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ طالبان کی عبوری حکومت کو ابھی تک کسی ملک نے تسلیم نہیں کیاحالانکہ ہمسایہ ممالک سے روابط قائم ہوچکے ہیں پھربھی بداعتمادی کی فضا میں کمی نہیں آئی البتہ صورتحال کا جائزہ لینے اور بدامنی کے حوالے سے درپیش مسائل پر متفقہ موقف اپنانے کی غرض سے سفارتی ہلچل عروج پر ہے پھر بھی افغان مسائل کا حل اور تعمیرِ نوکاکام شروع نہیں ہو سکا تباہی کے موجب امریکا نے تعاون کی بجائے اُلٹا افغانستان کے بارہ ارب ڈالرمنجمدکر رکھے ہیں حالانکہ تعمیرِ نو کے کاموںمیں اُسے سب سے آگے ہونا چاہیے مگر مستقبل قریب میں بھی امریکی رویے میں نرمی کے آثار نظر نہیں آتے ممکن ہے ناراضگی کی وجہ بھارت کاکردار کم ہونا اور چین ،روس اور پاکستان کا بڑھتا رسوخ ہو ۔
عالمی برادری افغان عوام کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پرمعمولی ہی سہی امدادکرنے کے باوجود طالبان کوتسلیم کرنے اور روابط بڑھانے میں کیوں محتاط ہے؟اِس سوال کا جواب تلاش کرنا بہت آسان ہے عالمی برادری دوحہ معاہدے کے وعدوں کی تکمیل چاہتی ہے طالبات کے ا سکول کھولنے اور ہمسایہ ممالک کو اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے جیسی طالبان نے یقین دہانیاںکرائی ہیں جس کی بنا پر روس،چین ،ایران اور پاکستان کی طرف سے جاری امدادی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے اب تو بھارت بھی امدادی کاموں میں حصہ لینے لگا ہے لیکن عالمی برادری کے تفکرات ختم نہیں ہوئے وجہ افغانستان میں بڑھتی دہشت گردانہ کاروائیاں ہیں داعش خراسان تنظیم نے گزشتہ ماہ ہونے والے کئی حملوں کی زمہ داری قبول کرکے اپنی موجودگی اور طاقت کا احساس دلایا ہے جن میں قندوز کی امام بارگاہ میں ہونے والا خوفناک خود کش دھماکہ بھی شامل ہے جس میں سو سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر جب امریکی انخلا کے بعد افغانستان میںہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں کا زکر کیا جاتا ہے تو یہ بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ سارے ملک کو ایک مرکزی حکومت کے ماتحت لانا طالبان کی غیر معمولی کامیابی ہے رواں برس ستمبر کے آغاز میں وادی پنجشیر میں احمد مسعود کی قیادت میں جنم لینے والی مزاحمتی تحریک کامیابی سے کچلی جا چکی ہے جن کے والد احمد شاہ مسعود بھی طالبان کے ہاتھوں ہی مارے گئے تھے ۔
دراصل طالبان کوئی تربیت یافتہ عسکری قوت نہیں یہ جان ہتھیلی پر رکھے نڈر لوگوں کاایک گروہ ہے اِس لیے تخریبی کاروائیوں کا قبل ازوقت توڑ کرنے میں ناکام ہیں جبکہ عالمی برادری کا فاصلہ رکھنا الگ دبائو ہے اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ امریکی تربیت یافتہ افغان انٹیلی جنس سروس اور ایلیٹ فورس کے کئی اہلکار داعش کا حصہ بن چکے ہیں جو معلومات حاصل کرنے کے ہُنر سے آگاہ اور جنگی کاروائیوں میں مہارت رکھتے ہیں اسی وجہ سے داعش جیسے دہشت گرد گروپ کو طالبان پر ایک قسم کی بالادستی ہے امریکی اخبار وال ا سٹریٹ جنرل کے مطابق ایک سابق افغان عہدیدار نے یہاں تک تصدیق کی ہے کہ طالبان کاروائیوں سے محفوظ رہنے کا بہانہ بنا کر افغان انٹیلی جنس کے درجنوں اہلکار داعش میں شامل ہوگئے ہیں جن میں سابق فوج کاجنوب مشرقی صوبے پکتیا کے دارالحکومت گردیز میں فوجی ہتھیاروں اور گولہ بارود کے زخیرے کا سربراہ جیسا اہم آفیسر بھی شامل ہے جو بعدازاں طالبان سے ایک جھڑپ کے دوران مارا گیا ایسے واقعات اِس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ افغانستان کے عدمِ استحکام جیسے مسائل میں سابق حکومت کے کئی عہدیدارشامل ہیں ممکن ہے اِس کی وجہ جان کا خوف یا بے روزگاری ہو مگر کسی بیرونی سازش کو بھی سرے سے جھٹلایا نہیں جا سکتا کیونکہ بدامنی کے ذیادہ ترخدشات کا اظہار حملہ آور افواج کے ممالک کی طرف سے ہی ہوا ؟ جس کی وجہ کیا ہے ؟قبل ازوقت علم ، یا منصوبہ بندی؟اِس کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک میں بڑے پیمانے پر صلاح و مشورے جاری ہیں اِس حوالے سے گزشتہ ماہ اکتوبر کے دوران ماسکو اور تہران میں ہونے والی دوکانفرنسیں خاص طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں2017 میںماسکو فارمیٹ کے نام سے روس نے چین ،پاکستان ،ایران اور بھارت کے علاوہ وسطی ایشیا کی پانچ ریاستوں پر پہلا مشاورتی اجلاس بلایا ماسکو فارمیٹ کے تیسرے اجلاس میں رُکن ممالک کے علاوہ امریکا اورطالبان کو بھی دعوت دی گئی لیکن امریکا نے شرکت نہ کی لیکن بیس اکتوبرکے ماسکو فارمیٹ کے تحت ہونے والے تیسرے اجلاس میں افغانستان کے حوالے سے کچھ حد تک اتفاق نظر آیا 27اکتوبر کو تہران میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں افغانستان نے تو شرکت سے گریز کیا لیکن روس اور چین کے وزرائے خارجہ نے چاہے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا نے کانفرنس کی اہمیت بڑھا دی ہے لیکن گزشتہ ماہ اکتوبر میں ہونے والی دونوں کانفرنسوں سے ایسا کوئی عندیہ نہیں ملا کہ عالمی برادری یا ہمسایہ ممالک طالبان کی موجودہ عبوری حکومت تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں دونوں کانفرنسوں میں شریک ہونے والے ممالک کے نمائندوں کے اظہارِ خیال اور پھر مشترکہ اعلامیے میں طالبان سے ایک ایسی وسیع تر حکومت بنانے کا مطالبہ ضرور کیا گیا ہے جس میں ہر لسانی اور سیاسی گروہ یا جماعت کی نمائندگی ہو اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کے ساتھ داخلی اور خارجی پالیسیاں بین الاقوامی قوانین سے اہم آہنگ ہوں سب سے بڑی بات یہ کہ دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے افغان سرزمین استعمال ہونے کے حوالے سے ہمسایہ ممالک کی تشویش دور کی جائے مگردہشت گردانہ کاروائیوں اورطالبان پر ہونے والے حملوں سے یہ خیال پختہ ہوا ہے کہ سفارتی ہلچل اپنی جگہ ،مستقبل قریب میں افغانستان میں عدمِ استحکام جیسے مسائل حل ہوتے نظر نہیں آتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر