وجود

... loading ...

وجود
وجود

شمال مشرقی شام کو نہیں بھولنا چاہیے

جمعه 05 نومبر 2021 شمال مشرقی شام کو نہیں بھولنا چاہیے

(مہمان کالم)

بل ٹریو

شمال مشرقی شام کا منظر نامہ ایف سکاٹ فٹزجیرالڈ کی راکھ کی وادی کے سٹیج کی طرح افق تک بری طرح پھیلا ہوا ہے۔کبھی یہ شام کی خوراک کی پیداوار کا علاقہ تھا، لیکن اب یہ خطہ متعدد جنگوں، معاشی بحران اور حال ہی میں خشک سالی اور آلودگی کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے۔ وہ جگہیں جو دھول اور سموگ کی دھند میں تحلیل ہو چکی ہیں، جو سکاٹ فٹزجیرالڈ کے اندازِ بیاں میں اگر بیان کریں تو، عمارتوں، دیہاتوں اور کاریگروں کی تیل کی ریفائنریوں کی شکل اختیار کرلیتی ہیں، لوگ تیزی سے مایوس ہو رہے ہیں۔کچھ عرصے کے لیے دنیا کے اس نسبتاً چھوٹے کونے پر ایک عالمی توجہ شدید تھی جہاں 20 لاکھ سے زائد افراد رہتے ہیں۔ یہ صورت حال اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب یہ دولت اسلامیہ کی وحشیانہ خلافت کا خودساختہ دارالحکومت بنا اور اس طرح دہشت گرد گروہ کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی میدان جنگ بن گیا۔
2019 میں یہ خطہ جو اب تقریباً مکمل طور پر کرد انتظامیہ کے زیر انتظام ہے، ایک بار پھر سرخیوں میں آ گیا جب ترکی نے حملہ کیا اور اس کے بعد سرحدی خطے کے کچھ حصوں پر قبضہ کرلیا۔اب جبکہ داعش کو جغرافیائی طور پر بڑی حد تک شکست ہوئی ہے اور ترکی کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر جنگ بندی کی گئی ہے تو یہ کسی حد تک فراموش کیا جاتا محسوس ہوتا ہے باوجود اس کے کہ وہاں ہر روز انسانی اور ماحولیاتی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔اس سال کے اوائل میں اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کے ادارے نے خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خشک سالی بلکہ تنازعات (اور ممکنہ طور پر سیاسی ہیرا پھیری) کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ جیسا کہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ فرات کے معاون دریا خشک ہوچکے ہیں، فصلیں ناکام ہو چکی ہیں اور میں نے جن کسانوں سے بات کی تھی انہوں نے کہا ہے کہ وہ اگلے سال کے لیے ہل چلانے اور اپنے بیج لگانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ یہ فصل بھی ممکنہ طور پر دوبارہ ناکام ہو جائے گی۔
سیو دی چلڈرن‘ نے گذشتہ ہفتے ہی کہا تھا کہ اہم دریاؤں میں پانی کی کم سطح اور پانی کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے لاکھوں افراد کی زندگیاں ’خطرے میں ہیں۔‘ انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اگلے ہفتے گلاسگو میں شروع ہونے والے اقوام متحدہ کے سی او پی 26 سربراہ اجلاس سے قبل آب وہوا کے بحران سے نمٹیں۔ انہوں نے انسانی امداد بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔اس علاقے کی مشکلات میں عالمی وبا اور طبی رسد کی کمی کی وجہ سے اضافہ ہورہا ہے۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے گذشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ شمال مشرقی شام روزانہ کوویڈ-19 کیسز کے حوالے سے اپنا ریکارڈ توڑ رہا ہے اور یہاں ویکسینیشن کی شرح انتہائی کم ہے۔اس میں ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ 2020 میں شمال مشرقی شام میں اقوام متحدہ کی امداد کی فراہمی کا واحد کراس بارڈر پوائنٹ بند رہا تھا۔ الیاروبیہ سے ترکی تک اقوام متحدہ کی کارروائیوں کی جگہ حکومت کے زیر قبضہ دارالحکومت سے ترسیلات کی جانی تھیں لیکن ایمنسٹی کے مطابق افسر شاہی کی رکاوٹوں اور رسائی پر پابندیوں کی وجہ سے علاقے تک پہنچنے والی امداد خصوصاً طبی امداد کے حجم میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔اس سال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس بارے میں رائے شماری کرنے میں ناکام رہی کہ آیا کراسنگ کو دوبارہ کھولا جائے یا نہیں اور یہ دکھ بھری کہانی جاری ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے یہاں تک خبردار کیا ہے کہ اگر کچھ نہ کیا گیا تو ان تمام عوامل کو بڑے پیمانے پر فاقہ کشی یا شمالی شام میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
’یہ پہلے ہی ہو رہا ہے۔ لوگوں کو پہلے ہی اس علاقے سے نکلنا پڑا ہے۔‘ یہ بات مجھے ایک خاتون گلہ بان نے ایک خشک دریا کے کے کنارے بیٹھے بتائی، جس کا میں نے گذشتہ ہفتے انٹرویو کیا تھا۔ یہ دریا کبھی اس علاقے کے متعدد دیہات کو پانی مہیا کرتا تھا۔’لیکن میں کہاں جا سکتی ہوں؟‘ اس نے اپنی بکریوں کو خشک زمین کی بڑھتی ہوئی دراڑوں سے نکلے کانٹوں پر چرتے ہوئے دیکھا۔ ایسے ہی الفاظ کی بازگشت قریبی دیہات کے باشندوں سے بھی سنی۔ ان سب نے ایک جیسے مسائل کو دہرایا: ’نہ پانی، نہ کام، خوراک کی فراہمی میں کمی، تباہ حال مکان اور کہیں نہ جاسکنا۔اب بھی جنگ کا دائمی خطرہ موجود ہے۔ ترکی کے ساتھ سرحدی علاقوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے جس پر کرد حکام نے ڈرون حملے جاری رکھنے اور اپنے قصبوں پر گولہ باری کا الزام عائد کیا ہے۔
دیر ایزور کے مزید جنوب میں جو کبھی داعش کے زیر قبضہ تھا لیکن اب کرد اور حکومتی کنٹرول کے درمیان تقسیم ہو چکا ہے، رہائشیوں نے مجھے اتحادی ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کی حمایت سے ممکنہ حکومتی حملے اور علیحدہ طور پر داعش کے سلیپر سیلوں کے حملوں کے بارے میں اپنے خدشات کے بارے میں بتایا، جو بظاہر طاقت کو دوبارہ اکٹھا کر رہے ہیں۔وسیع کیمپوں میں دولت اسلامیہ سے وابستہ اندرونی طور پر بے گھر افراد اور خاندانوں (بشمول برطانوی شہریوں) کے تشدد میں اضافے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یہ یقیناً کردوں کے زیر قبضہ شمال مشرقی شام کے لیے منفرد نہیں ہے۔ شمال مغربی شام میں بھی خشک سالی، قحط اور تشدد کی وارننگ اتنی ہی تشویشناک ہے۔شام میں حزب اختلاف کے آخری ٹھکانے کے ساتھ ساتھ حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں بھی جہاں شام کا معاشی بحران متاثر کر رہا ہے۔ یہ سال بہت سے افسوسناک انسانی ریکارڈ توڑ رہا ہے اور تمام اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ اگلا سال اس سے بھی بدتر ہو سکتا ہے۔ بہت دیر ہونے سے پہلے ہمیں اب عمل کرنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر