وجود

... loading ...

وجود
وجود

جمہوریت اور انسانی حقوق کی باتیں

بدھ 29 ستمبر 2021 جمہوریت اور انسانی حقوق کی باتیں

امریکا خود کوجمہوریت اور انسانی حقوق کا پاسدار سمجھتااور اِس حوالے سے دنیا کو ہدایات دیتا رہتا ہے لیکن کیا عملی طور پرایسا کرتے ہوئے غیر جانبدار ی کا مظاہرہ کرتا ہے یا صدقِ دل سے ایسا چاہتا ہے؟ اِس سوال کا ہاں میں جواب دینا قطعی طورپرنا ممکن ہے کیا اِس کی وجہ یہ ہے کہ ریاستوں کے تعلقات میں دوستی و دشمنی مستقل نہیں ہوتی بلکہ دوستی ا ور دشمنی مفادات کے تابع ہوتی ہے جی ہاں ایسا ہی ہے جمہوریت اور انسانی حقوق کا درس دینے والوں کاماضی اورحال اِس سوچ کی تائید کرتا ہے بلکہ ماضی کی کئی دہائیاں واضح کرتی ہیں کہ اکثر ممالک سے آمریت کے دوران امریکا کے تعلقات اچھے اور گرم جوشی پر مبنی رہے صرف آمریت ہی نہیں بادشاہت کا نظام رکھنے والے ممالک سے بھی قریبی تعاون رہا ایشیا سے افریقہ تک مفادات کے حصول کے لیے غیر جمہوری ممالک سے تعلقات پروان چڑھائے گئے وجہ یہ ہے کہ آمریت میں دبائو ڈالنا اور بات منوانا آسان ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں پارلیمنٹ کی موجودگی کی بنا پر کوئی فردِ واحد اکثریت کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلے ٹھونس نہیں سکتا سربراہ مملکت پارلیمنٹ کے زریعے عوام کو جوابدہ ہوتا ہے اکثریت کو نظرانداز کرنے سے عوام احتجاج اور مظاہرے کرتی ہے اسی لیے امریکیوں کوہمیشہ آمریت اور بادشاہت ہی مرغوب رہی جمہوریت اور انسانی حقوق کی باتیں محض نیک نامی سمیٹنے کی خاطر کی جاتی ہیں۔
کیا اب امریکا بدل گیا ہے یا بدل رہا ہے افسوس کہ اِِن سوالوں کا جواب بھی ہاں میں نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اب بھی جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایسے ممالک کو نشانے پر رکھا جارہا ہے جن سے امریکی مفادات کو خطرہ ہے یا وہ چین یا پھر روس کے طرفدار ہیں صرف اُن پر نکتہ چینی کی جاتی ہے اور پابندیا ں بھی لگائی جاتی ہیں جو ممالک حاشیہ بردار اور اُن سے امریکا کا مفاد وابستہ ہے وہ جمہوری حقوق کی پامالی کریں یا انسانی حقوق سلب کریں کسی درس دینے والے کی جبیں شکن آلود نہیں ہوتی اسی بنا پرمسائل حل ہونے کی بجائے دنیا میں جھگڑے فروغ پا رہے ہیںنیز کرہ ارض میں جابجا لگنے والے اسلحے کے ڈھیرنسلِ انسانی کی بقا کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں روایتی ہتھیار وں کی تباہ کاری تو پھر بھی کم تھی جوہری ہتھیاروں کی تابکاری دنیا کی تمام مخلوق کو پل بھر میں لقمہ اجل بنا سکتی ہے مگر جمہوریت اور انسانی حقوق کا درس دینے والے امریکا کو اِس کا احساس تک نہیں چین کی عالمی تجارت میں پیشقدمی روکنے کے لیے اتحاد بنانے اور اُنھیں ایٹمی ہتھیاردینے کو بے چین ہے آسٹریلیا جیسے اتحادیوں کو جوہری آبدوزوں سے لیس کرنے کا منصوبہ ہے کیا ایسے اقدامات سے جمہوریت کو فروغ ملے گا اور انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے گاظاہر ہے کسی صورت ایسا ممکن نہیں ۔
نفرت اور تشدد کی بڑی وجہ حقوق غصب کرنااور ناانصافی کی سرپرستی ہے مگرجمہوریت اور انسانی حقوق کا درس دینے والے دہرے معیار سے دنیا کو جہنم بنانے میں مصروف ہیں کشمیر ،میانمار ،افغانستان ،عراق ،کشمیر اور فلسطین میں کیا جمہوریت شاد ہے یا مزکوروہ علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات نہیں ہوتے؟ ۔ہوتے ہیں اور ہر روز ہوتے ہیں روز انسانیت تڑپتی اور سسکتی ہے مگر یہاںظالم اور جارح یا تو خود ہے یا اُس کے طفیلیے ہیں اسی لیے موجودہ بظاہر انسانی حقوق کی علمبردار انومنتخب مریکی قیادت بھی کسی طفیلی ریاست کی سرزنش کرنے پر آمادہ نہیں بلکہ جن کے پاس مال وزر ہے انھیں اسلحہ خریدنے پر آمادہ کرنے کے لیے کوشاں ہے ہتھیاروں کی بھاری سودے بازی پر خوشدلی سے کئی قسم کی رعایتیں مثلاََرقم وغیرہ بھی عنایت کر دی جاتی ہے یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسے کسی جنونی کو خشک لکڑیا ں دے کر ساتھ ہی تیل اور ماچس بھی تھما دی جائے بھلا جنونی کب کسی کے نقصان کی پرواہ کرتا ہیں کشمیر اور فلسطین کو دیکھ لیں کیا انسانی حقوق محفوظ ہیں ؟ روز انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں کیا لوگوں کو جمہوری حقوق حاصل ہیں؟ جب تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر امریکی کِسے درس دینے اور راہ ِ راست پر لانے کے لیے کوشاں ہیں چین یا روس تو اُس کی ہدایات پر عمل کرنے سے رہے ۔
نریندر مودی ایک ایسا جنونی اور انتہا پسند شخص ہے جس کا اپنا دامن انسانی خون سے داغدار ہے جس نے وزارتِ اعلٰی کے دور میں گجرات میں منظم انداز میں مسلم کشی کے دوران ہزاروں مسلمان مروادیے لیکن فسادات پر ندامت یا مزمت کے حوالے سے اُس کی زبان پر کبھی کوئی لفظ نہیں آیا کشمیر میں روزانہ قابض فوج انسانی لاشیں گرارہی ہے مگر مودی نے کبھی شرمندگی ظاہر نہیں کی بھارت کے دارالحکومت دہلی میں آر ایس ایس کے قاتل مسلمانوں پر حملے کرتے اوراُنھیں گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکتے ہیں مگر یہ جنونی اور انتہا پسندشخص شرمسار نہیں ہوتا اب آسام میں نہ صرف مسلمانوں سے شہریت چھین کر انھیں شہری حقوق سے محروم کرتے ہوئے قید کیا جارہا ہے اورمسلم آبادیوں پر قانون نافذ کرنے والے اِدارے حملے کرنے اور گرانے میں مصروف ہیں بات یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ آہ و بقا کرنے یا منع کرنے کی جسارت کرنے والوں کو بلاخوف و خطر قتل کیا جارہا ہے اِس ملک میں انتہاپسندی اتنی سرایت کر گئی ہے کہ صحافی بھی مسلم نعشوں کی بے حرمتی کرنے پر فخر کرتے ہیں فسطائیت کادلداہ اور انسانی حقوق کوپائوں کی ٹھوکرپر رکھنے والا نریندر مودی جیسا ابلیس صفت اور شقی القلب شخص دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک کا وزیرِ اعظم ہے اور جمہوریت و انسانی حقوق کادنیاکو درس دینے والا ملک اُس کی آئو بھگت کرتاہے جس کی وجہ مفادات کے سوا کچھ نہیں اگر مفادات نہ ہوتے تواب تک بھارت کئی قسم کی عالمی پابندیوں کی زد میں ہوتا۔
صدرجوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کے بارے عام تاثریہ ہے کہ وہ ٹرمپ کی طرح نہیں اِس لیے انسانی حقوق کی پاسداری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے چین،روس اور مسلم ممالک کے بارے میں اُن کا رویہ ایسا ہی ہے لیکن کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے بارے میں وہ بھی پُرجوش دکھائی نہیں دیتے جوبائیڈن اور کملا ہیرس نے ملاقاتوں کے دوران مہمان جنونی وزیرِ اعظم کو دفاعی حوالے سے مضبوط بنانے کا عزم تو ظاہر کیا لیکن اقلیتوں کو جمہوری حقوق دینے کی بات نہیں کی نہ ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کی تلقین کی ہے پُرجوش خیر مقدم کرتے ہوئے انھیں واشنگٹن اور نیو یارک میں ہونے والے مظاہر ے بھی یاد نہیں رہے کیا مسلمانوں کے کوئی حقوق نہیں جو اسرائیل کو اسلحہ خریداری کے لیے اربوں ڈالرکی دفاعی امداد سے نواز جارہا ہے کیا بھارت کومیزائل کلب کا ممبر بنانے اور جوہری مواد تک رسائی دیکر خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنا چاہتے ہیںاِس کا جواب ہاں کے سوا کچھ ہوہی نہیں سکتا اگر کشمیر اور فلسطین میں جاری خون کی ہولی پیشِ نظر ہوتی تو ملاقاتوں کے دوران کچھ تو تذبذب کا تاثر ملتا اور گرمجوشی کی بجائے بے زاری کا عکس نظر آتاسچ یہی ہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی باتیں بظاہر دکھاواہیں اور جب مسلمانوں کی بات ہو تو یہ دکھاوا بھی بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر