وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستان عالم اسلام کامضبوط قلعہ

منگل 07 ستمبر 2021 پاکستان عالم اسلام کامضبوط قلعہ

مولانا محمد الیاس گھمن

اللہ کا انعام ہے پاکستان اور یہ طے شدہ بات ہے کہ اللہ کے انعام کو زوال نہیں آسکتا۔ وطن عزیز پاکستان جب سے بنا بلکہ بننے سے بھی پہلے جب اس کو بنانے کے لیے منظم منصوبہ بندی کی جارہی تھی اور اس کے حصول کے لیے قربانیوں کی داستان شروع ہو رہی تھی اس وقت سے لے کر آج تک یہ پوری دنیائے کفر کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھ رہا ہے۔ عالم کفر پہلے یہ چاہتا تھا کہ برصغیر کے مسلمان پاکستان کو آزاد اسلامی ریاست کے طورپر حاصل نہ کر سکیں لیکن خدائی امر پورا ہوکر رہا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان آزاد اسلامی فلاحی خود مختار مملکت بن کر ابھرا۔اس کے بعد عالم کفر پھر سر جوڑ کر بیٹھا کہ اس کو باقی نہ رہنے دیا جائے چنانچہ ہر طرح سے اور ہر طرف سے سازشوں کے جال بچھائے گئے تاکہ پاکستان کا وجود ختم ہوجائے۔ ان شیطانی تدبیروں پر خدائی تقدیر غالب رہی اور پاکستان کا وجود نعمت الہٰی کا مظہر بن کر آج تک زندہ و پائندہ ہے۔
جب سازشوں سے کچھ نہ ہو سکا تو دشمن نے طاقت کو آخری حربے کے طورپر استعمال کیا لیکن وہ یہ بھول گیا کہ پاکستان محض حادثاتی طور پر معرض وجود میں نہیں آیا بلکہ لاکھوں شہداء کی قربانیوں کے صلے میں اللہ نے عطا فرمایا ہے جیسے شہید ؛ حیاتِ جاودانی کا تمغہ اپنے سینے پر سجاتاہے اسی طرح اس کے لہو میں بھی خدا نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ وہ جس کی بنیادوں میں شامل ہو جائے اسے بھی زوال کے زنگ سے آلودہ نہیں ہونے دیتا۔
کسی بھی ملک میں امن ،معیشت اور خوشحالی اس وقت آ سکتی ہے جب اس ملک کی سرحدیں مضبوط ہوں۔ سرحدوں کی مضبوطی مضبوط کڑیل جوانوں کے مضبوط حوصلوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ صد شکر ہے کہ پاکستان کی ترقی، خوشحالی ، مضبوط معیشت اور پرامن ہونے میں افواج پاکستان کا شروع سے مثالی اور قابل تحسین کردار چلا آ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اسلام سے وابستگی ہے جس نے ہماری بہادر افواج کے جانبازوں اور سرفروشوں کو اسلامی ریاست پر قربان ہو جانے جذبہ اور باہم متحد رہنے کا سبق دیا ہے ، یہی وہ مبارک جذبہ تھا جس کی بنیاد پر ہم کل تک ناقابل شکست قوم رہے اور اسی جذبے کی بدولت ہی ہم آئندہ ناقابل شکست قوم باقی رہ سکتے ہیں۔
اسلام سے مضبوط وابستگی کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان کی پالیسی اور سوچ ہے جس کی بنیاد پر ان کے حوصلے بلند ہی رہتے ہیں۔ تاریخ پاکستان کا ہر طالب علم بانی پاکستان کے اس فرمان کو کبھی نہیں بھول سکتا جو انہوں نے ملک کے دفاع کے حوالے سے کیا تھا، 22 جنوری 1948ء دلاور جہاز کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا :’’پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے میں آپ میں سے ہر ایک کو اپنی الگ الگ جگہ انتہائی اہم کردار ادا کرنا ہے، اس کے لیے آپ کا نعرہ یہ ہونا چاہئے کہ ایمان، تنظیم اور ایثار۔ آپ اپنی تعداد کے کم ہونے پر نہ جائیے، اس کمی کو آپ کی ہمت و استقلال اور بے لوث فرض شناسی سے پورا کرنا پڑے گا کیونکہ اصل چیز زندگی نہیں ہے بلکہ ہمت، صبر و تحمل اور عزم مصمم ہیں جو زندگی کو زندگی بنا دیتے ہیں۔‘‘
پاکستان کو معرض وجود میں آئے ابھی 18، 19 سال ہوئے تھے ،پڑوسی ملک ہندوستان نے اس پر حملے کی منصوبہ بندی کی اور صبح کا ناشتہ لاہور میں کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ لاہور کے جم خانہ میں شام کو شراب کی محفل سجائیں گے ،’’ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ‘‘ کے مصداق اسلحے اور طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی کی طرح پاکستان کی مقدس حدود میں داخل ہوئے تو ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ کے مصداق پاکستان کی افواج نے ان کے منصوبے کو خاک میں ملایا اور انہیں خاک چاٹنے پر مجبور کیا۔
اس نازک موقع پر پاکستان کے بہادر عوام اپنی فوج کے شانہ بشانہ وطن عزیز کے دفاع کے لیے سروں پر کفن باندھ کر میدان میں اترے۔ پھر چشم فلک نے وہ نظارہ بھی کیا کہ لاہور میں ناشتہ کرنے والوں کے خون سے لاہور کی پیاسی زمین سیراب ہوئی۔ شیرخدا علی المرتضٰی ، خالد بن ولید ، محمد بن قاسم ، طارق بن زیاد ، صلاح الدین ایوبی ، ٹیپو سلطان کے وارثوں نے اپنے آباء کی تاریخ دہراتے ہوئے دشمنوں کے نہ صرف دانت کھٹے کیے بلکہ ایسی کاری ضربیں لگائیں کہ اْن کے دانتوں تک کو پسینہ آ گیا ، کئی گنا زیادہ دشمن بزدلوں کی طرح رات کی تاریکی میں شب خون مارنے کے لیے پاکستان کی سرحدی حدود میں داخل ہوا پاکستان کے جانبار شیر جوانوں نے آن ہی آن میں ان کو خاک و خون میں تڑپا دیا۔
لاہور کے سیکٹر برکی کو میجر عزیز بھٹی شہید جیسے سپوت نے سنبھالا، جان دے دی مگر وطن کی زمین پر دشمن کا ناپاک قدم قبول نہ کیا۔ چونڈہ کے سیکٹر کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ وبارود سے نہیں اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ہندوستان فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنایا۔ اس کے علاوہ جسٹر سیکٹر قصور،کھیم کرن اور مونا باؤ سیکٹرز کے بھی دشمن کوعبرت ناک شکست اس انداز میں ہوئی کہ اسے پکاہوا کھانا، فوجی ساز و سامان،جیپیں اور جوانوں کی وردیاں چھوڑ کر میدان سے بھاگنا پڑا۔ایک طرف پاکستان کی بحری فوج نے دشمن کی نیندیں حرام کیں تودوسری طرف سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کومار گرایا۔ اس کے ساتھ ساتھ سکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور سکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علاؤالد ین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کردیا کہ دفاع وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا بقائے وطن کے لیے وفاء عہد کی تکمیل ہے۔
فضیلت تو وہ ہوتی ہے جس کی گواہی دشمن بھی دے۔ ہندوستان کے سابق لیفٹیننٹ جنرل’’ کول‘‘ کو ہندوستانی سرکار نے اس لیے فارغ کر دیا کہ وہ چینی سرحدی علاقوں سے متصل علاقے کا دفاع تک نہ کرسکا۔ اس کے علاوہ وہ علاقے بھی جو پنڈت جواہر لال نہرو کی حکومت کے خیال میں بھارت کے علاقے تھے، چین نے جن پر قبضہ مخالفانہ کر رکھا تھا،وہ بھی چینیوں سے آزاد نہ کراسکا۔ یہی جنرل کول اپنی کتاب The Untold Story میں بھارتی افواج کے کمانڈر اعلیٰ کو خوب کوسا اور جنگ ستمبر 1965ء میں بھارتی افواج کی کارکردگی پر جنرل چودھری کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ جنرل کول نے صاف لکھا کہ ہم بھارتی لوگ پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھے، اسی طرح فوجی امور میں بھی پھر ہمیں کیا ہوگیا، ہمیں ان جملہ وسائل کے ہوتے ہوئے اور برتر ہونے کے باعث پاکستان کو شکست دینا چاہئے تھی لیکن صاف اور سیدھی بات ہے کہ ہم پاکستان کو شکست نہیں دے سکے۔ (پاکستان حصار اسلام، مصنفہ پروفیسر محمد منور، صفحہ نمبر268-269)
اس تاریخی حقیقت کو کبھی فراموش نہ کیا جائے کہ پاکستان صرف ایشیا کے مسلمانوں کا قلعہ نہیں ہے بلکہ یہ تمام عالم اسلام کا مضبوط قلعہ ہے اگر یہ قلعہ مضبوط و مستحکم ہوگا تو سارے عالم اسلام کے لیے قوت و استحکام کا سبب ہوگا اگر یہ قلعہ کسی لحاظ سے کمزور ہوا تو پورا عالم اسلام متاثر ہوگا۔ اس لیے اسے مضبوط او رمستحکم کرنے اور اس کے دفاع کے لیے جو جذبہ6 سمتبر 1965ء کی جنگ میں تھا اسی جذبے کو زندہ رکھنے سے پاکستانی قوم ہمیشہ زندہ رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر