وجود

... loading ...

وجود
وجود

مقدمات کی واپسی اور سماج کی ذمہ داری

پیر 30 اگست 2021 مقدمات کی واپسی اور سماج کی ذمہ داری

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو یہ خبر دی گئی کہ 2013 میں ہونے والے مظفرنگر فسادات سے متعلق 77 کرمنل مقدمات اترپردیش حکومت نے واپس لے لیے ہیں، مظفر نگر فسادات میں تقریبا ایک سو افراد قتل کئے گئے تھے ، ایک لاکھ سے زائد مسلمان گھر سے بے گھر ہوئے تھے ، سماج وادی پارٹی کی سرکار ضلع کے افراد کو تحفظ دینے میں پوری طرح ناکام ہوئی تھی، ان فسادات کے بعد کل 510 ایف آئی آر درج کی گئی تھیں، اگر ہم ان 510 کرمنل مقدمات پر نظر ڈالیں تو گزشتہ آٹھ برسوں میں صرف 175 مقدمات میں چارج شیٹ داخل کی گئی ہے ، جب کہ 165 مقدمات کو کلوزر رپورٹ لگاکر ختم کیا جاچکا ہے ، 170 مقدمات کو خارج کردیا گیا ہے ۔
حکومت کا یہ فیصلہ کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 321 کے تحت لیا گیا ہے ، دفعہ 321 کے تحت پبلک پرازیکئوٹر (جسے عام زبان میں سرکاری وکیل کہتے ہیں) عدالت کی باہمی رضامندی سے مقدمات واپس لیے جا سکتے ہیں، لیکن کچھ شرائط ہیں جن کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے ، مقدمات واپس کا فیصلہ عقل و شعور کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ ہونا چاہیے ، رنبیر سنگھ بنام اسٹیٹ آف ہریانہ کے فیصلے میں پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ صرف پبلک پرازیکیوٹر کے کہنے پر ہی عدالت کو اجازت نہیں دینی چاہیے ہے ، پبلک پرازیکیوٹر کو اپنے دماغ کا استعمال کرنا چاہیے اور کسی بھی خارجی عوامل کے دباو سے آزاد ہونا چاہیے ، اگر ثبوت موجود نہیں ہیں اور پبلک پرازیکیوٹر غیرجانب دار ہے تو عدالت مقدمات کو واپس لینے کی اجازت دے سکتی ہے ۔
مقدمات کی واپسی میں عدالت کے رول کو سپریم کورٹ نے عبدالکریم بنام اسٹیٹ آف کرناٹک میں واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ دفعہ 321 میں عدالت کا رول سپروائزری ہے تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اجازت مانگنے پر ہی اجازت دے دینی ہے بلکہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام ہی اہم امور پر باریکی سے غور کرے جن کی بنیاد پر پبلک پرازیکیوٹر یا حکومت اپنے انتظامی اختیارات کا استعمال کرکے مقدمات واپس لینا چاہتی ہے ۔
کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 321 یا اس تناظر میں سپریم کورٹ یا متفرق ہائی کورٹ کے فیصلوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو کہیں بھی کسی کو آزاد اختیارات فراہم نہیں کئے گئے ہیں، لیکن 77 مقدمات کی واپسی کا فیصلہ کسی بھی وجہ کو بیان کئے بغیر لیا گیا ایک فیصلہ ہے جس میں نا تو پبلک پرازیکیوٹر نے اپنے عقل و شعور کی بنیاد کا فیصلہ کیا، نا ہی حکومت نے کسی وجہ یا سبب کا تذکرہ کیا، اور نا ہی عدالت نے مقدمہ ختم کرنے کی اجازت دیتے ہوئے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کا پاس ولحاظ رکھا۔ یہاں یہ تذکرہ کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ان مقدمات میں الزامات کی نوعیت سنگین قسم کی تھی جس میں فسادات کو بھڑکانا، دو طبقوں کے بیچ نفرت پیدا کرنا، اور لوٹ مار و ڈاکہ زنی جیسے جرائم شامل تھے ۔
سپریم کورٹ میں بحث سیاست دانوں (MP,MLA) کے جرائم میں ملوث ہونے اور ان کے خلاف زیرسماعت مقدمات میں سست رفتاری کو لے کر چل رہی تھی، پٹیشن سپریم کورٹ کے ہی ایک وکیل اشونی اپادھیائے کی طرف سے تھی جس کا مقصد پارلیمنٹ اور ودھان سبھاوں میں داغدار اور کرمنل ریکارڈ کے حامل عوامی نمائندوں کو آنے سے روک تھام کے سلسلے میں تھی، اسی مفادعامہ کی درخواست پر سنوائی کے دوران عدالت کی جانب سے متعین وکیل نے ایک رپورٹ پیش کرکے یہ حقائق سپریم کورٹ میں پیش کئے ہیں، مظفر نگر فسادات کے دوران و مہا پنچایت بلاکر اکثریتی طبقے کو اقلیتی طبقے کے خلاف اکسانے میں بی جے پی کے کچھ ایم پی اور ایم ایل اے پیش پیش تھے جن میں سنگیت سوم، سریش رانا، سادھوی پراچی اور بھرتینڈوسنگھ خاص ہیں، بی جے پی کے کل 12 لیڈران کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کی اجازت عدالت کے ذریعے دی گئی ہے ، مقدمات واپسی کی یہ درخواست تقریبا ایک سال پہلے عدالت میں پیش کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق کرناٹک حکومت نے اپنے لیڈران کے خلاف درج کل 62 مقدمات واپس لیے ہیں، تلنگانہ حکومت نے 14 مقدمات، تمل ناڈو حکومت نے 4 مقدمات، کیرلا حکومت نے 36 مقدمات، اس کے علاوہ اتراکھنڈ اور مہاراشٹر حکومتوں نے بھی دفعہ 321 کے تحت ایم پی اور ایم ایل اے کے خلاف درج مقدمات واپس لیے ہیں، ایک بات تمام ہی حکومتوں کے ساتھ یکساں ہے وہ یہ کہ مقدمات کو رد کرنے کے اسباب و وجوہات کسی بھی حکومت نے بیان نہیں کئے ہیں۔ اترپردیش حکومت نے ماضی میں بھی دفعہ 321 کے تحت تقریبا 10 مقدمات واپس لے چکی ہے ۔
ہندوستان میں جرائم سے آزاد سیاست کے لیے تگ و دو کرنے والی تنظیم اے ڈی آر کے اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں، 2019 کے عام انتخابات کے ذریعے کل 542 ممبر آف پارلیمنٹ راجدھانی دہلی پہنچے ہیں، ان میں سے 233 ممبران پارلیمنٹ کے خلاف کرمنل مقدمات درج ہیں، 233 میں سے ۱16 ایم پی برسراقتدار سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، وہیں کانگریس کے 29 ایم پی کے خلاف کرمنل مقدمات زیرسماعت ہیں، ویسٹ بنگال سے منتخب ٹی ایم سی کے کل 22 ایم پی ہیں جن میں سے 9 کے خلاف مقدمات درج ہیں، بہوجن سماج پارٹی کے 10 میں سے 5 ایم پی پر مقدمات درج ہیں جب کہ سماجوادی پارٹی کے 5 ایم پی میں سے 2 ایم پی کے نام مقدمہ درج ہیں، بہار کی جنتا دل یونائیٹد کے کل 16 ایم پی ہیں جن میں سے 13 ایم پی کے خلاف ایف آئی آر درج ہیں۔
اگر ہم غور کریں تو جرائم کی دنیا سے تعلق رکھنے والے منتخب عوامی نمائندوں کی تعداد ہر لوک سبھا الیکشن کے بعد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے ، اے ڈی آر کے اعداد و شمار کے مطابق 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں کل 543 ممبران پارلیمنٹ میں 162 ممبران کے خلاف کرمنل مقدمات تھے ، 2014 کے عام انتخابات میں یہ تعداد 185 ممبران تک پہنچ گئی، جب کہ 2019 کے انتخابات میں کرمنل جرائم کے الزام میں ملوث ممبران پارلیمنٹ کی تعداد 233 ہوگئی۔ اگر تناسب پر غور کیا جائے تو 2009 میں 30 فیصد، 2014
میں 34 فیصد اور پھر 2019 میں 43 فیصد ہوجاتے ہیں، یعنی 2024 میں داغدار ممبران پارلیمنٹ کی متوقعہ تعداد تقریبا 55 فیصد ہوسکتی ہے ، جب کہ مرکزی حکومت کے اکثر و بیشتر وزرا پر بھی کرمنل مقدمات زیر التوا ہیں۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ، دستور اور قوانین کی روشنی میں تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں یکساں قرار دیا گیا ہے ، قانون کا اطلاق اگر سیاسی یا مذہبی شناخت کی بنیاد پر ہوگا تو یہ دستور کی روح کے خلاف ہوگا، دستور اور قانون کی بالادستی کو قائم کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے ، عدلیہ اس وقت تک انصاف پر مبنی نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ سیاسی دخل اندازی سے پاک نا ہوجائے ، ہمارے ملک کا یہ المیہ ہے کہ آزادی سے لے کر آج تک فرقہ وارانہ طاقتیں ہمارے سماج میں نفرت کی سیاست کرتی رہی ہیں،لیکن اس نفرت کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہم اور ہمارا سماج عدلیہ کی جوابدہی کے ساتھ ساتھ اپنی جواب دہی کے تئیں بھی سنجیدہ ہوگا، مظفرنگر فسادات کو ہوئے تقریبا 9 سال گزر چکے ہیں، ہماری جانب سے ان مقدمات کی پیروی کس قدر کمزور ہوئی ہے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے ، ہم اور ہماری سماجی تنظیمیں دہلی میں پریس کانفرنس کرکے سوشل میڈیا میں واہ واہی تو بٹور سکتی ہیں، لیکن فسادات میں متاثر ہوئے افراد کو انصاف نہیں دلا سکتے ہیں، انصاف کا مطلب ہے کہ متاثرین کو انکے نقصان کے بقدر معاوضے کے ساتھ ساتھ مجرمین کو ان کے جرائم کی سزا ملے ، سرکار اور عدلیہ کو ان کے فرائض کی یاد دہانی کرانا بھی سنجیدہ سماج کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے ، لیکن افسوس انتخابات میں وہی سیاست داں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جو فرقہ وارانہ سیاست اور نفرت کی آگ کو زیادہ بھڑکانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر قانون ان سیاست دانوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں ناکام رہا تو سماج ان کے جرائم سے محفوظ نہیں ہوسکتا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر