وجود

... loading ...

وجود
وجود

فواد چوہدری کی واپسی

جمعرات 22 اپریل 2021 فواد چوہدری کی واپسی

کوئی مانے یہ نا مانے لیکن سچ یہ ہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی حکومت کے پاس سرِ دست ایک ہی ایسا ’’ترپ کا وزیر‘‘ ہے ،جسے کسی بھی ادنیٰ یا اعلیٰ، معروف یا غیرمعروف وزارت کا قلم دان سونپ دیا جائے،تو وہ اُس منصب کا ’’حق وزارت‘‘ بہ احسن و خوبی ادا کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتاہے۔ جی ہاں! آپ درست سمجھے ،تحریک انصاف کے اُس اکلوتے وزیر با تدبیر کا نام ِ نامی فواد چودھری ہے ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو کوئی منصب پہلی بار ملے تو اُسے اُس شخص کی فطری خوش قسمتی پر محمول کیا جاسکتاہے۔لیکن اگر ایک شخص دوسری بار بھی سابقہ منصب پر مکمل جاہ و حشم کے ساتھ فائز کردیا جائے تو اِس کا سادہ سے مطلب یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ شخص اُس منصب کا واقعی استحقاق رکھتاہے۔ ویسے تو ہمارا یہ ماننا ہے کہ شبلی فراز بھی احمد فراز کی نسبت سے وزارت اطلاعات کے لیے بالکل درست اور موزوں انتخاب تھے مگر اُن میں وہ بات مولوی مدن سی کہاں ۔دراصل شبلی فراز پارلیمانی راہ داریوں میں ’’سیاسی گفت و شنید ‘‘کی شطرنجی بساط بسانے والے ایک بازی گر ہی تو ہیں۔جبکہ وزارتِ اطلاعات کے رخِ طرح دار پر فقط وہی وزیرزیبا دیتا ہے،جو اپنی بات ڈنکے کی چوٹ پر میڈیا کے نقار خانے میں کہنے کا ہنر جانتا ہو۔ نیز فواد چوہدری کو قلیل مدت میں دوسری بار وزارت اطلاعات و نشریا ت کا ملنا اشارہ کرتا ہے کہ کوئی تو ایسی انتظامی کمی ضرور ہے جسے پورا کرنے کے لیے عمران خان نے فواد چوہدری کو ایک بار پھر سے وزیرِ اطلاعات کے مشکل منصب پر پورے اعزاز کے ساتھ متمکن کیاہے۔
یاد رہے کہ فواد چودھری کی حالیہ وجہ شہرت سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت ہے ،جہاں انہوں نے بطور وزیرکچھ ایسے منفرد سائنسی انداز میں کام کیا کہ سائنس کی الف بے نہ جاننے والے ایک ناخواندہ شخص کو بھی بخوبی معلوم ہوگیا کہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کتنی سُود مند ہے۔ حالانکہ جب فواد چودہدری کو سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت سونپی گئی تھی تو، اکثر یار دوستوں کا خیال تھا نمک کی کان میں فواد چوہدری کو نمک کی’’سیاسی ممی‘‘ بن جانے کے لیے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیاہے ۔مگر کسے خبر تھی کہ وہ اِس نمک کی کان کو بھی سونے کی کان میں تبدیل کردیں گے۔ بطور وزیر ِ سائنس و ٹیکنالوجی اُن کی یہ ہی کامیابی کیا کم ہے کہ اَب چاند کی شہادت کے لیے عام لوگ رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس کے بجائے فواد چوہدری کی ٹوئٹ پر انحصار کرنے لگے ہیں۔نیز سستے ماسک اور پاکستان ساختہ وینٹی لیٹر کی قلیل ترین مدت میں تیاری بھی اُن کا ایک ایسا شاندار کارنامہ ہے ،جس نے کورونا وائرس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے من حیث القوم پاکستانی قوم کو خوب مدد و اعانت فراہم کی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا کے تمام حلقوں میں فواد چوہدری کی جانب سے وزارتِ اطلاعات کا قلم دان سنبھالنے کا زبردست انداز میں خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے میڈیا انڈسٹری ،خاص طور پرپرنٹ میڈیا شدید ترین بحرانی کیفیت میں مبتلا ء ہے اور اخباری صنعت کو بحران سے نکالنے کے لیے وزارتِ اطلاعات و نشریات میں ایک ایسے بااثر اور طاقت ور وزیر کا ہونا اشد ضروری ہے ، جو نہ صرف اہل صحافت کو درپیش سنگین مسائل کا کماحقہ ادراک رکھتا ہو بلکہ فوری طور پر اخباری صنعت کی بحالی اور اس صنعت سے وابستہ ہزاروں کارکنان کی خوش حالی کے لیے انقلابی نوعیت کے اقدامات اُٹھانے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہو ۔ خوش قسمتی سے فواد چوہدری میں یہ دونوں’’انتظامی صفات‘‘ بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔ اَب دیکھنا یہ ہوگا کہ آنے والے ایام میں فواد چوہدری اپنی انتظامی پالیسیوں کی بدولت روز بہ روز تنزلی کا شکار ہوتی ہوئی اخباری صنعت کو کس قدر سہارا دینے میں کامیاب ہوپاتے ہیں؟۔
واضح رہے کہ اخباری صنعت کو سب سے بڑ ا مسئلہ مہنگے کاغذ کی خریداری کا درپیش ہے ، بلاشبہ عالمی مارکیٹ میں کاغذ کی قیمتوں میں روز افزوں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ایک اخبار کی قیمت قاری کی قوتِ خرید سے انتہائی زیادہ ہوچکی ہے۔ لامحالہ اخبارات کے مہنگے ہونے کی وجہ سے اُن کی فروخت میں بھی دن بہ دن نمایاں کمی واقع ہورہی ہے۔ جس کا براہِ راست نتیجہ اخباری صنعت سے وابستہ کارکنان کی ملازمت سے جبری برخاستگی کی صورت میں برآمد ہورہاہے۔ بظاہر کارکنان کے اس معاشی قتل کا ذمہ دار اخبارات کے مالکان کو قرار دیا جارہاہے لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جب ایک اخبار اپنی لاگت بھی پوری نہ کرسکے تو پھر یقینا اُس کے ملازمین کے لیے کئی کئی مہینے بغیر تنخواہوں کے کا م کرنے کے علاوہ دوسرا آپشن اور بچتا بھی کیا ہے۔ہمارا حسن ظن تو یہ ہی ہے کہ فواد چوہدری بطور وزیر اطلاعات و نشریات اخباری صنعت کو سبسڈی میں سستاترین کاغذ اور مناسب سرکاری اشتہارات فراہم کر کے اس دیرینہ مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر باآسانی حل فرما سکتے ہیں ۔
اس کے علاوہ میڈیا سے وابستہ کارکنان کے لیے دوسرا سب سے سنگین ترین مسئلہ ایسے’’ سرکاری صحافی‘‘ ہیں،جومعروف محاورے’’ چپڑی چپڑی اور دو ‘‘کے عین مصداق بیک وقت سرکاری ملازمت بھی کر رہے ہیں اور کسی نہ کسی میڈیا گروپ میں بطور صحافی اپنی ’’فرمائشی خدمات ‘‘ بھی انجام دے رہے ہیں۔گزشتہ دنوں اس حوالے صرف نواب شاہ پریس کلب سے وابستہ 77 ایسے ’’سرکاری صحافیوں‘‘ کی فہرست بھی سوشل میڈیا پر زیرگردش رہی تھی کہ جو تنخواہ بھی سرکار سے لیتے ہیں اور صحافت بھی سرکار کے لیے ہی کرتے ہیں ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ نام نہاد ’’سرکاری صحافی ‘‘ اپنے سیاسی اثرو رسوخ کی بنیاد پر حقیقی صحافیوں کے جائز حق پر ڈاکہ ڈالنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے ۔حالانکہ بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ آئین پاکستان کی رو سے کوئی بھی سرکاری ملازم یا صحافی بیک وقت دونوں شعبوں میں کام نہیں کرسکتا۔کیا فواد چوہدری سرکاری صحافیوں کو غیر سرکاری بناپائیں گے؟۔کیاوہ بطور وزیر اطلاعات قلم و قرطاس کے حقیقی نمائندگان کو اُن کا اصل مقام و مرتبہ پھر سے دلاسکیںگے؟۔ کیا اُن کے دورِ وزارت میں اخباری صنعت کا احیاء ممکن ہوسکے گا؟۔یہ سوالات نہیں ہیں بلکہ یہ تو وہ چھوٹی چھوٹی اُمیدیں ہیں جو اہلِ صحافت نے فواد چوہدری کے وزارتِ اطلاعات میں واپس آجانے سے وابستہ کرلی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر