وجود

... loading ...

وجود
وجود

احتیاط کریں لاپرواہی نہیں

بدھ 31 مارچ 2021 احتیاط کریں لاپرواہی نہیں

دنیا کو کوروناوائرس کی تیسری لہر کا سامنا ہے جس سے شرح اموات میں ہونے والی کمی میں دوبارہ اضافہ ہونے لگا ہے افریقہ اور برطانیا سے کورونا کی نئی آنے والی قسم تو پہلے سے بڑھ کر خطرناک ہے کیونکہ اب صرف عمر رسیدہ ہی متاثر نہیں ہورہے بلکہ بچوں اور جوانوں میں بھی اِس مرض کی تشخیص ہونے لگی ہے جس سے مرض کی خطرناکی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں اِس مرض کاتریاق ہنوز سربستہ راز ہے کیونکہ کرونا وائرس تیزی سے ساخت بدل رہا ہے اِس لیے ایجا د ہونے والی ویکسین سے مکمل اور مستقل علاج نہیں ہورہااب تو ماہرین بھی کہنے لگے ہیں کہ ممکن ہے ہر برس نئی ویکسین بنانی پڑے بچائو کا واحد طریقہ ماسک کا استعمال اور سماجی فاصلہ ہے ماسک سے لاپرواہی اور پُرہجوم جگہوں میں جانا مرض کو دعوت دینے کے مترادف ہے لہذاضرورت اِس امر کی ہے کہ عوام صورتحال کو عام نہ سمجھیں اورپُر ہجوم جگہوں پر جانے پرہیز کریںبلکہ تقریبات میں شامل ہونے کاسلسلہ کچھ عرصہ کے لیے ختم کردیں وبا کے پیشِ نظرگلے ملنے اور ہاتھ ملانے میں احتیاط بیماری سے بچائو میں مدد گار ہو سکتی ہے ۔

ایک طرف ساری دنیا کرونا سے متوحش ہے دوسری طرف پاکستان میں آج بھی غیر سنجیدگی ہے اِس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ ہی رازق ،مالک اور خالق ہے مگر اللہ نے انسان کو بے پناہ صلاحتیوں سے بھی نوازا ہے اور غوروفکر کی دعوت بھی دی ہے بیماری سے شفا بھی اللہ ہی دیتا ہے اور بچائوکی تدابیر کا بھی حکم دیا ہے ہمارے پیارے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ جب کسی علاقے میں وبا پھوٹ پڑے تو نہ اُس علاقے میں جایا جائے اور نہ ہی اُس علاقے سے نکلا جائے۔ دنیا بھر میں کورونا سے بچائو کی تدابیر پر سختی سے عمل ہورہا ہے تقریبات پر پابندیاں ہیں لیکن ہم آج بھی اِس مرض کے ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہیں اور من گھڑت افواہیں پھیلا کر بے یقینی میں اضافہ کرتے ہیں امریکا ،برطانیا،روس ،آسٹریلیا سمیت یورپی ممالک لاک ڈائون کے ذریعے مرض کے پھیلائو کو کم کررہے ہیں لیکن وطنِ عزیر کی غالب اکثریت آج بھی احتیاطی تدابیر کے حوالے سے لاپرواہ ہے حالانکہ صرف احتیاطی تدابیر سے بچائو ممکن ہے مگر سچ یہ ہے کہ حکومت کی تمام تر اپیلوں اور ہدایات کو نظرانداز کیا جارہا ہے جس سے بیماری کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے ہسپتالوں میں مریضوں کا رش ہے جن کے لیے وینٹی لیٹر اور آکسیجن دستیاب نہیں بلکہ بیڈ بھی ناکافی ہیں صرف مریضوں میں ہی اضافہ نہیں ہورہا بلکہ اموات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جس کی بنا پر کئی اضلاع میں ا سمارٹ لاک ڈائون لگانے کی نوبت آئی مگر جب تک ہر شخص احتیاط نہیں کرتا تب تک مرض پر قابو پانے یا کم رکھنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔

این سی او سی نے اموات بڑھنے اور مثبت کیسوں میں تیزی کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنے کی اپیل کی ہے حکومت نے بھی شہریوں کو احتیاط سے بچائو یقینی بنانے کی تلقین کی ہے بصورتِ دیگر مقدمات درج کرنے کے ساتھ قیدوبند کی سزائوں کے ساتھ جرمانے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ لاہور پولیس نے توماسک استعمال نہ کرنے والوں کے خلاف سینکڑوں مقدمات درج کرنے کا آغاز کر دیا ہے پھر بھی کورونا کی تیسری لہر سے ہونے والے نقصانات کم نہیں ہورہے کیونکہ گھر سے باہرجب تک ہر شہری ماسک کا استعمال کرتا مرض کم نہیں ہوسکتا یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو شہری اپنی صحت کے حوالے سے لاپرواہی کے مرتکب ہیں وہ دیگر ذمہ داریاںخاک پوراکرٰیں گے کم ازکم اپنی زات سے تو مخلص ہونا چاہیے صحت کے لیے حفاظتی تدابیرسے فرار حماقت کے سواکچھ نہیں جب ہمیں پتہ ہے کہ ملک میں پہلے ہی صحت کی ناکافی سہولتیں ہیں اور موجودوبا کی وجہ سے ہسپتالوں پر بوجھ میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے پھر بھی لاپرواہی و غفلت کا مظاہرہ کرنا حماقت کے سواکچھ نہیں۔ کیا ہم لاپرواہی سے اپنا ، اپنے پیاروں کا اور ملک کا نقصان کرناچاہتے ہیں ؟اگر جواب نفی میں ہے تو ہمیں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا غیر ضروری سفر،تقریبات کاخاتمہ کرنا ہوگا۔

پاکستان کے پاس اِتنے وسائل نہیں کہ وہ ہر شہری کو علاج معالجے کی ترقیافتہ ممالک جیسی سہولتیں فراہم کر سکے ابھی تک ملک کا چینی عطیے کی صورت میں ملنے والی ویکسین پر انحصار ہے ہمارے پاس تو ہر شہری کو مفت ویکسین فراہم کرنے کے لیے فنڈز بھی نہیں عطیے میںملنے ولی ویکسین لگانے کی رفتار بھی اتنی سُست ہے کہ اگر موجودہ رفتار میںاضافہ نہیں کیا جاتا تو ہر شہری تک پہنچنے میں دہائیاں لگ سکتی ہے علاوہ ازیں لوگوں میں ویکسین کے حوالے سے الگ شکوک وشبہات ہیں غربت و بے روزگاری کی وجہ سے حکومت لاک ڈائون سے گریزاں ہے جس سے شہریوں کی صحت کوخطرہ ہے وجہ آج بھی لاکھوں لوگوں کا روزانہ کی آمدن پر انحصار ہے اگر ملک لاک ڈائون کی طرف جاتا ہے تو روزانہ کی آمدن پر انحصار کرنے والے یقینی طور پرشدید متاثر ہوں گے جنھیں ریاست کھانے فراہم نہیں کر سکتی واحد حل ذمہ دارانہ رویہ ہے حقیقت یہ ہے ک شہری کورونا کو اہمیت نہیں دیتے اورستم یہ کہ تاجر بھی معمول کے کاروبار میں وقفے پر تیار نہیں بازاروں اور سفری ٹرانسپورٹ میں بھی ماسک اور سماجی فاصلے کی پرواہ نہیں کی جاتی اسی بنا پر حکومت نے ملک میں تین ہفتوں کے لیے ٹرینیں بند کر نے کا فیصلہ کیاہے تعلیمی اِدارے پہلے ہی بند ہیں جلسے جلوسوں پر بھی پابندی ہے بغیر ماسک مسافر بٹھانے والی گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ بھی جاری ہے لیکن یہ اقدامات تب تک ناکافی ہیں جب تک عوام ساتھ نہ دے اسی لیے مکمل لاک ڈائون کی باتیں کی جانے لگی ہے بلکہ پی ایم اے نے تو بڑے شہروں میں لاک ڈائون لگانے کی تجویز بھی دے دی ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہر شہری بیماری سے بچنے کے لیے احتیاطی ہدایات پرلازمی عمل کرے اور اپنی زات کے ساتھ ملک کو محفوظ بنانے کے عمل میں حصہ لے ۔

عالمی وبا کورونا نے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے سیاحت اور کاروباری سرگرمیاں معطل سی ہوکر رہ گئی ہیں کلب ،ریستوران ویران ہو چکے ہیں اگر مجموعی نقصان کا تخمینہ لگایا جائے تو محتاط اندازے کے مطابق کھربوں ڈالر ہے عالمی سطح پر ایوی ایشن جیسے ایک شعبے کو ہی دیکھ لیں اِس صنعت کو ساٹھ فیصد خسارے کا سامنا ہے اور مجموعی آمدنی میں چار سے پانچ ارب ڈالر کمی ہوگئی ہے آٹھ ہزار طیارے گرائونڈ جبکہ نوے ہزار ملازمین روزگار سے ہاتھ دھو چکے ہیں مختلف کمپنیوں کے پاس کئی درجن جہاز تیار ہیں لیکن کوئی خریدار نہیں اِس لیے پیارے ہم وطنو ،سنجیدہ ہو جائیے کیونکہ غیر سنجیدگی سے صرف ہمارا ہی نہیںملک کا بھی نقصان ہوگا حماقتوں کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ذمہ دار ہونے کا ثبوت دیں تبھی ہمارا اپنا، ہمارے پیاروں اور ملک کا بھلا ہو گا بچائو صرف احتیاط میں ہے اپنی زات ،اپنے پیاروں اور ملک کے لیے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کریں تاکہ آپ بھی صحت مند رہیں آپ کے پیارے بھی صحت مند رہیں اور ملک بھی صحت مند رہے غفلت ولاپرواہی سے اپنی زات کے ساتھ ،اپنے پیاروں اور ملک کا بھی نقصان ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر