وجود

... loading ...

وجود
وجود

جرمنی کووِڈ جنگ ہار چکا ہے؟

منگل 16 فروری 2021 جرمنی کووِڈ جنگ ہار چکا ہے؟

اینا ساربری

’ ’ہم اس پر اپنا کنٹرول کھو رہے ہیں‘‘۔ یہ تھے وہ الفاظ جو جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے جنوری کے آخر میں ملکی حالات کے بارے میں ہونے والی ایک خفیہ میٹنگ کے دوران ادا کیے تھے۔ انہوں نے بڑے اختصار سے کام لیا۔ جرمنی میں‘ جس نے اپنا لا ک ڈائون 7 مارچ تک بڑھا دیا ہے‘ صورت حال ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ اکتوبر سے کووڈ کیسز میں اضافہ ہونا شرو ع ہوا تھا جو اب آہستہ آہستہ کم ہونے لگا ہے۔ جرمنی میں اب تک پچاس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہر طرف سنگین صورتِ حال جاری ہے۔ کیا جرمنی ان عالمی ممالک میں سے ایک نہیں تھا جس نے ابتدا میں ہی کووڈ پر قابو پا لیا تھا؟ کیا جرمنی میں گرمیوں میں ساحلوں پر سیاحوں کی آمد ورفت نارمل نہیں رہی تھی؟ کیا جرمن بچے اگست اور ستمبر میں ا سکولوں میں واپس نہیں آ گئے تھے؟ ہاں! ہاں! مگر جب خزاں کا موسم شروع ہوا تو حالات بگڑنا شروع ہو گئے۔ یہ بدقسمتی نہیں تھی بلکہ سیاست کا شاخسانہ تھا۔

گزشتہ موسم بہار میں جب کووڈ نے پورے یورپ کو روند ڈالا تھا جرمنی کے پالیسی میکرز نے زبردست اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی تیزی سے کام کیا۔ مارچ میں ا سکول، مارکیٹیں اور ریستوران بند کر دیے گئے تھے اور دو افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ چند ہفتے بعد کووڈ کیسز میں کمی آنے لگی تو اپریل‘ مئی میں پورا ملک آہستہ آہستہ کھلنے لگا۔ موسم گرما ختم ہونے کے بعد پابندیاں برائے نام رہ گئیں اور کووڈ کا بھی خاتمہ ہونے لگا تھا مگر جب خزاں میں کیسز پھر بڑھنے لگے تو پالیسی میکرز وہی حربہ دہرانے میں ناکام رہے۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کیسز اتنے ہی ہو گئے جتنے یہ پہلا لاک ڈائون لگنے کے بعد مارچ میں دیکھے گئے تھے۔ کئی لوگوں نے کیسز میں اضافے کی وجہ زیادہ ٹیسٹو ں کو قرار دیا اور کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کو بالکل نظر انداز کر دیا اور اس مناسبت سے کوئی عملی اقدام نہ کیا گیا۔

آنے والے ہفتوں میں وائرس نے جرمنی کے اطمینان کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اکتوبر کے آخر تک کووڈ کیسز کی تعداد تین گنا ہو گئی۔ حکومتی ردعمل میں بے دلی نظر آ رہی تھی۔ ریستوران اور بارز تو بند کردیے گئے مگر ا سکول کھلے رکھے گئے۔ اس ہلکی نوعیت کے لاک ڈائون سے صورتحال کسی حد تک کنٹرول ہو گئی تھی مگر کرسمس تک معاملات بہت بگڑ گئے۔ اس موقع پر کیسز میں شدید اضافہ ہونے لگا تو سیاستدانوں نے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور پورے ملک کو بندکر دیا گیا۔ فیصلہ کرنے میں اس قدر تاخیر ہو گئی کہ جنوری تک بہت سے ہسپتالوں کے آئی سی یو مریضوں سے بھر گئے۔ روزانہ مرنے والوں کی تعداد ابتدائی لہر کے مقابلے میں چار گنا ہو گئی۔ جنوری کے وسط تک فی لاکھ مرنے والوں کی تعداد امریکا کی شرح اموات سے بھی بڑھ گئی۔ بزرگ شہریوں کو سب سے زیادہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ نوے فیصد مرنے والوں کی عمریں ستر سال یا اس سے زیادہ تھیں۔ ایک ایسا ملک جس کی کووڈ سے نمٹنے کی صلاحیت کو دنیا بھر میں سراہا گیا تھا‘ افسوسناک صورت حال میں گھر گیا تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا مختصر سا جواب ہے سیاست۔

2021ء میں جرمنی کی چھ ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں اور پھر ستمبر میں قومی الیکشن منعقد ہوں گے۔ اگر کسی موقع پر سیاسی رسک لینے کا وقت تھا بھی اور اگر کسی ناقابل یقین فائدے کے لیے شہریوں کو ان کی آزادیوں سے محروم کرنے کے لیے کوئی بڑا رسک لیا بھی جا سکتا تھا تو وہ کسی بڑے الیکشن والے سال کا وسط نہیں ہو سکتا تھا۔

گزشتہ موسم بہار میں کورونا وائرس کے سنگین خطرے کے پیش نظر انتخابی پروسیس کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا تھا مگر اب ویسی صورت حال نہیں ہے۔ اگرچہ کووڈ کے ختم ہونے کا ابھی دور دور تک نام و نشاں بھی نظر نہیں آتا مگر اب وقت آ گیا ہے کہ کسی قسم کا کمپرومائز کرنے کے بجائے انفرادی سیاسی کردار پر توجہ دی جائے، اجتماعی فلاح عامہ کے بجائے مقامی ووٹرز کے مخصوص مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔

سیاسی تحفظات پر توجہ دینے کا وقت دوبارہ آ گیا ہے۔ وہی تحفظات جو سولہ ریجنل گورنرز کے باہمی تنازعات اور گورنرز اور چانسلر کے مابین پائی جانے والی کشیدگی کے دوران پیدا ہوئے تھے۔ جرمنی میں سست رفتاری سے پابندیوں کو متعارف کرانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ ریجنل سربراہان یہ سمجھتے تھے کہ چانسلر انجیلا مرکل اپنے اختیارات کی نمائش کرنے کے لیے ان پر دھونس بازی سے کام لے رہی ہیں۔
انتہائی بھونڈے انداز میں ویکسین متعارف کرانے کی کوشش نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یورپی یونین‘ جس نے کورونا ویکسین کے معاہدے کرنے میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا ہے‘ کا حصہ ہونے کی وجہ سے جرمنی نے بھی اپنے عوام کو ویکسین لگانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ فی الحال صرف چار فیصد جرمن شہریوں کو ویکسین لگائی جا سکی ہے۔

جب ویکسین بنانے والی سب سے بڑی کمپنی آسٹرازینیکا نے جنوری میں یہ اعلان کر دیا کہ وہ یورپی یونین میں شامل ممالک کو ویکسین کی سپلائی روک رہی ہے تو ایک سیاسی جنگ شروع ہو گئی۔ ممالک، مخلوط حکومتوں میں شامل سیاسی جماعتوں اور وزرائے صحت‘ سب نے ایک دوسرے پر یا پھر انجیلا مرکل اور برسلز پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جرمن شہری اپنے بزرگ عزیز واقارب کو ویکسین لگوانے کا وقت لینے کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے۔

ماضی کے چند مہینوں کی ناکامی کے بعد جرمنی پھر سے ایک میراتھن میں شامل ہے اور فنش لائن کے قریب تر پہنچنے کے لیے ایک مختلف اپروچ پر عمل کر رہا ہے۔ ماہرین کا ایک گروپ ایک ایسی حکمت عملی کو فروغ دینے میں مصروف ہے جسے No Covid کا نام دیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے مطابق جن علاقوں میں روزانہ ایک لاکھ افراد میں 10 سے کم کورونا کیسز نہیں نکلیں گے‘ وہاں سے لاک ڈائون ختم نہیں کیا جائے گا۔

اس کے لیے قربانیوں کی ضرورت ہو گی مگر اس حکمت عملی کے نتیجے میں الیکشن والے پورے سال میں ہم ایک لاک ڈائون سے نکل کر اگلے لاک ڈائون کی طر ف جا رہے ہوں گے؛ تاہم جب تک کورونا کیسز کی تعداد تسلی بخش سطح تک نہیں آ جاتی ان پابندیوں کو طول دینے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ہفتے لاک ڈائون میں توسیع کے فیصلے سے پتا چلتا ہے کہ شایدکئی سیاستدان جرا?تمندانہ اقدام کرنے کے لیے تیار ہوں مگر کیا ان کے اعصاب اس قدر مضبوط ہیں کہ جوں جوں انتخابی مہم ااگے بڑھے گی وہ ان پر آسانی سے قابو رکھ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر