وجود

... loading ...

وجود
وجود

چارلی چپلن

اتوار 07 فروری 2021 چارلی چپلن

دوستو،کامیڈی کی دنیا کے لیجنڈ چارلی چپلن سے کون واقف نہیں۔۔ خاموشی سے ہنسنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔۔بڑ ے بڑے بوٹ، ڈھیلی پینٹ، تنگ کوٹ، ہٹلر جیسی مونچھیں، موٹی موٹی آنکھیں، گھنگھریالے بال، باولر ہیٹ اور ہاتھ میں چھڑی۔ جی ہاں ،چارلی چیپلن خاموش فلموں کا ایسا کامیڈین تھاجس کے نام سے ہی چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔پانچ سال کی عمر میں اسٹیج پر جلوہ گر ہونے والے اس فنکار کو اپنے ہی ملک برطانیامیں کوئی پہچان نہ ملی تو اس نے مفلسی کی زندگی چھوڑ کر نیویارک میں اپنے فن سے خوب نام کمایا۔انہوں نے تقریباً سو فلموں میں کام کیا72 فلمیں لکھیں،7 ڈائریکٹ کیں جبکہ تقریباً 31 فلمیں پروڈیوس کیں، ان کی بطور ڈائریکٹر اور فلمساز 2 فلمیں گولڈ رش اورسٹی لائٹس دنیا میں اب تک بنائی جانے والی 10 بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہیں۔1929 میں پہلی آسکر ایوارڈ تقریب میں انہیں فلم دا سرکس پر بہترین اداکاری، ہدایتکاری، فلمسازی اور اسکرپٹ میں مہارت پر اسپیشل ایوارڈ سے نوازا گیا،انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی ملا اور حکومت برطانیا نے انہیں’سر‘ کے خطاب سے بھی نوازا۔

 

دنیا میں جب بولتی فلموں کا زمانہ آیا تو وہ ساؤنڈ فلمیں بھی بنانے لگا‘ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا‘ وہ دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی ہو گیا‘ وہ دنیا کے تمام کونوں میں مشہور بھی ہو گیا‘ یہ شہرت اس کے لیے بدنامی لے کر آئی‘ وہ آئے روز کسی نہ کسی اسکینڈل میں پھنس جاتا تھا‘ چار شادیاں کیں‘ پہلی تین شادیاں بری طرح ناکام ہوئیں۔ایک بیوی جاتے جاتے اس کی ساری دولت بھی لے گئی‘ چوتھی اور آخری شادی اونا اونیل کے ساتھی کی‘ یہ شادی کامیاب رہی‘ چارلی نے اس دوران اپنا اسٹوڈیو اور کمپنی بنائی‘ اس نے 1951ء میں ’’لائم لائیٹ‘‘ بنائی‘ یہ فلم 1952ء کے ابتدائی مہینوں میں سینماؤں میں دکھائی جانے لگی‘ یہ ستمبر 1952ء میں ملکہ الزبتھ کی دعوت پر خاندان سمیت لندن آیا‘ یہ بات بھی یہاں کم دلچسپ نہیں ہو گی چارلی چپلن نے امریکا کی شہریت نہیں لی تھی‘ وہ امریکا میں 28 سال رہنے کے باوجود برطانوی شہری تھا چنانچہ ایف بی آئی نے اس کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی۔

 

ماں بھوک کی وجہ سے پاگل خانے پہنچ گئی‘ وہ ماں سے ملاقات کے لیے پاگل خانے گیا تو ماں نے اس سے کہا ’’چارلی میں اس دن صرف بھوکی تھی‘ تم اگر مجھے چائے کا ایک کپ لا دیتے تو میں کبھی پاگل نہ ہوتی‘ میں بچ جاتی‘‘ یہ بات اس کے دل میں ترازو ہو گئی‘ وہ جب بھی چائے کا کپ اٹھاتا تھا‘ اسے ماں کی بات یاد آ جاتی تھی اور وہ آنکھوں پر رومال رکھ لیتا تھا‘ شاید یہی وجہ تھی وہ ہمیشہ اکیلے چائے پیتا تھا۔اس کی کوشش ہوتی تھی دنیا کا کوئی شخص دنیا کو ہنسانے والے اس شخص کے آنسو نہ دیکھ سکے‘ وہ آنسو چھپانے کے لیے ہمیشہ بارش میں واک کرتا تھا‘ وہ چلتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ چارلی چپلن کہتے ہیں۔۔ جب میں چھوٹا تھا اپنے بابا کے ساتھ سرکس دیکھنے گیا، ٹکٹس کے لیے ایک لمبی قطار میں کھڑا ہونا پڑا، ہمارے سامنے ایک فیملی تھی چھ بچے اور ماں باپ، غریب گھرانے سے تعلق تھا، ان کے کپڑے پرانے تھے لیکن صاف تھے۔ بچے سرکس کے بارے میں بات کر رہے تھے، بہت خوش دکھائی دے رہے تھے، جب ان کی باری آئی، ان کا باپ ٹکٹس کے لیے کھڑکی کی طرف بڑھا اور ٹکٹ کی قیمت پوچھی، پھر اپنی بیوی کے کان میں کچھ کہنے لگا، اس کے چہرے پر شرمندگی اور دکھ تھا۔۔ پھر میں نے دیکھا، بابا نے اپنی جیب سے بیس ڈالر نکالے اور زمین پر پھینک دیے، اپنا ہاتھ اس آدمی کے کندھے پر رکھا اور کہا۔۔تمہارے پیسے گر گئے۔۔اس نے بابا کی طرف دیکھا (اس کی آنکھوں میں آنسو تھے) اور کہا۔۔بہت شکریہ۔۔ جب وہ سرکس کے لیے اندر چلے گئے، بابا نے مجھے میرے ہاتھ سے پکڑا اور ہم پیچھے ہٹ آئے۔۔ کیوں کہ بابا کے پاس بس وہی بیس ڈالر تھے جو اس شخص کو دے دیے۔۔!!اور اس دن سے مجھے میرے باپ پہ فخر ہے، وہ میری زندگی کا سب سے پیارا سین تھا، اس سرکس سے بھی پیارا جو میں نہیں دیکھ پایا۔ دنیا کی تمام فلم انڈسٹریز میں بہت سے مزاحیہ فنکار، فلمساز اور بہترین ہدایت کار پیدا ہوئے لیکن دنیا اب تک دوسرا چپلن نہیں دیکھ سکی۔

 

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پیسے سے خوشی نہیں خریدی جا سکتی لیکن سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس کے برعکس انکشاف کر ڈالا ہے۔ یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے تحقیق کاروں نے 17لاکھ 25ہزار 994امریکی شہریوں پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ کوئی شخص جتنا امیر ہوتا جاتا ہے ان کا خوشی کا لیول بھی اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس حوالے سے امیر ہونے کی کوئی حد نہیں ہے، بلکہ پہلے کی نسبت کسی بھی حد تک مالی حالت بہتر ہونا اسی قدر خوشی کے حصول کا سبب بنتا ہے۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر میتھیو کلنگزورتھ کا کہنا تھا کہ ۔۔ہماری تحقیق میں اس بات کے واضح شواہد میسر آئے ہیں کہ آمدنی اور خوشی میں اضافہ ایک ساتھ چلتے ہیں۔ جوں جوں کسی شخص کی آمدنی بڑھتی جاتی ہے، اس کی خوشی کا لیول بھی اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔قبل ازیں ایک تحقیق میں بتایاگیا تھا کہ 75ہزار ڈالر سالانہ آمدنی تک پہنچ کر ہی آدمی کی خوشی کا لیول بڑھنا شروع ہوتا ہے لیکن ہماری تحقیق میں یہ نتائج غلط ثابت ہوئے ہیں۔ درحقیقت آمدنی میں کسی بھی حد تک اضافہ اسی قدر خوشی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔

 

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ موضوع چونکہ چارلی چپلن ہے اس لیے چارلی چپلن کے تین ایسی باتیں حاضر ہیں جو دل کو لگتی ہیں۔۔ نمبر ایک۔۔ اس دنیا میں کوئی چیز دائمی نہیں ہے، یہاں تک کہ ہمارے مسائل بھی۔۔چارلی چپلن کہتے ہیں۔۔میں بارش میں چلنا پسند کرتا ہوں تاکہ کوئی بھی میرے آنسو نہ دیکھ سکے۔۔۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ۔۔زندگی میں فضول ترین دن وہ ہے جس دن ہم نسیں نہیں۔ ۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر