وجود

... loading ...

وجود
وجود

آکورونا ،مجھے مار۔۔۔!

جمعرات 03 دسمبر 2020 آکورونا ،مجھے مار۔۔۔!

پاکستان میں کورونا وائر س کی دوسری لہر کی شدت اور ہلاکت خیزی کا اندازہ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں کووڈ 19 بیماری سے ہلاک ہونے افراد کی روز بہ روز بڑھتی ہوئی خبروں سے بخوبی لگایا جاسکتاہے ۔مگر بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ عوام تو پھر عوام ہی ہیں لیکن ہمارے ہاں! سیاسی خواص بھی کورونا وائرس کو اس بار ایک مہلک وبا سمجھنے کے بجائے ،اُسے ایک سیاسی وائرس ثابت کرنے میں دن ،رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔وفاقی حکومت کورونا وائرس کے انسداد اور روک تھام کے لیے سیاسی بیان تو خوب دے رہی کہ ’’اپوزیشن اتحاد کو عوام کے وسیع تر مفاد میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کی شدت کو دیکھتے ہوئے اپنے جلسے منسوخ کردینے چاہئیں‘‘۔ لیکن یہ بیان جاری کرنے کے تھوڑی دیر بعد وفاقی وزراء سماجی فاصلے یا ایس او پی کا لحاظ رکھے بغیر ایک بڑے مجمع عام میں سیاسی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں ،جیسے کورونا وائرس صرف اپوزیشن کے لیے ہے جبکہ حکومتی وزراء کو کووڈ 19 کی بیماری سے کوئی خاص استثنا حاصل ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن رہنما بھی ہزاروں افراد کے جلسے میں بڑی ترنگ سے فرمارہے ہوتے ہیں کہ ’’اے لوگو! کورونا وائرس ہمارے جلسے میں نہیں آسکتا کیونکہ ہم جمہوریت کے تحفظ کے لیے گھروں سے نکلے ہیں ‘‘۔یعنی حکومتی وزراء ہوں یا پھر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماسب کے سب کورونا وائرس کی دوسری لہر کی ہلاکت خیزی اپنے اردگرد صاف صاف ملاحظہ کرنے کے باوجود بھی بضد ہیں کہ کورونا وائرس پاکستان کی غریب عوام کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔خاص طو رپر اپوزیشن الیون کے رہنماتو وزیراعظم پاکستان عمران خان سے سیاسی بغض میں،اس حد تک آگے نکل چکے ہیں کہ وہ تو اپنے آپ کو کورونا وائرس کا ’’وبائی سفیر ‘‘ہی بناچکے ہیں۔

حالانکہ اگر اپوزیشن الیون کے رہنما چھٹانک بھر بالغ نظر ی کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ عرصے کے لیے سیاسی جلسے یا سیاسی اجتماعات کا انعقاد ترک کردیں تو اس طرز عمل سے ان کی اخلاقی ساکھ میں یقینا اضافہ ہی ہوگا لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کے نزدیک ’’اخلاقی ساکھ ‘‘ کے مقابلے میں ’’سیاسی ساکھ‘‘کی اہمیت کہیں زیادہ ہے اور اپنی اِسی نام نہاد سیاسی ساکھ کو برقرار رکھنے یا بچانے کے لیے اپوزیشن رہنماؤں کا بس چلے تو یہ ملک کی ساری عوام کو ایک ہی جلسے میں جمع کر کے کورونا وائرس کی بھینٹ چڑھا نے سے بھی اجتناب نہیں کریں گے۔ ملتان کے جلسے سے اپوزیشن الیون نے سیاسی طور پر عمران خان کو کتنا کمزور کیا اور خود اپنے لیے کتنے بیش قیمت سیاسی فوائد سمیٹے ؟۔شاید اس سوال کا تسلی بخش اور متفقہ جواب تو خود اپوزیشن رہنماؤں کے پاس بھی نہیں ہوگا لیکن شعبہ طب سے وابستہ ماہرین کے مطابق ملتان کے جلسے نے جنوبی پنجاب میں اچانک ہی کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے اور پنجاب بھر کے اسپتالوں میں وینٹی لیٹر ز کی شدت قلت پیدا ہوگئی ہے۔ یہ سب جانتے بوجھتے بھی اپوزیشن الیون ابھی بھی نہ صرف لاہور میں سیاسی جلسہ کرنے پر بضد ہے بلکہ اپوزیشن الیون کے بارہویں کھلاڑی اور مستقل نااہل،سزایافتہ میاں محمد نواز شریف نے اپنی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کو حکم دیا ہے کہ ’’اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا لاہور والا جلسہ بہر صورت اگر علامہ مولانا خادم حسین رضوی کے جنازے سے بڑا نہیں تو کم ازکم برابر لازمی ہونا چاہئے ،بصورت دیگر مسلم لیگ ن کے تمام رہنما سخت سے سخت سیاسی سزا کے لیے تیار رہیں ‘‘۔یعنی میاں محمد نواز شریف اپنی سیاسی جماعت کا’’قطری خط‘‘ سے بھرپور جنازہ نکال دینے کے بعد اَب لاہور میں’’کوروناوائرس ‘‘ سے پاکستانی عوام کا جنازہ نکالنے کا مصمم ارادہ کرچکے ہیں ۔ خدا خیر کرے اور پاکستانی عوام کو ’’وبائی سفیروں ‘‘ کے شر سے بچائے ۔

واضح رہے کہ اپوزیشن الیون کے گھاگ رہنماؤں سے زیادہ اخلاقی جرات اور سیاسی عقلمندی کا فیصلہ تو تن تنہا جماعت اسلامی کے امیر جناب سینیٹر سراج الحق نے کرلیا ہے کہ انہوں نے کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کو بروقت محسوس کرتے ہوئے فو ری طور پر ملک کے طو ل و عرض میں جماعت اسلامی پاکستان کے تحت ہونے والے ہرطرح کے اجتماعات پر پابندی کا اعلان کرنے میں نہ تو کوئی سیاسی شکست سمجھی اور نہ ہی کوئی سیاسی شرمندگی ۔بلکہ ہمارے خیال میں سینیٹر سراج الحق پاکستان کے تمام سیاسی رہنماؤں پر بازی لے گئے ہیں اور غالب امکان یہ ہی ہے کہ آج یا کل ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤ ں کو بھی سراج الحق کی تقلید کرتے ہوئے اپنے سیاسی اجتماعات پر پابندی کا اعلان ضروربالضرور کرنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ اپوزیشن الیون کی یہ بہت بڑی سیاسی بھول اور خام خیالی ہے کہ اُن کے سیاسی اجتماعات صرف عوام کی زندگیوں کو ہی ہلاکت میں ڈالیں گے ۔حالانکہ سیاسی جلسوںمیں کورونا وائرس کا شکار ہونے کا جتنا خطرہ عوام کو ہے ،اُس سے کہیں زیادہ خطرات تو اُن جلسوں میں شریک سیاسی رہنماؤں کو لاحق ہے۔بہرحال کوئی کچھ بھی کہتے لیکن ذرہ برابر بھی دانش رکھنے والا شخص تو یہ ہی کہے گا کہ کورونا وائرس کی دوسری خطرناک ترین اور ہلاکت خیز لہر میں سیاسی جلسوں کا انعقاد کرنا ’’آ کورونا ،مجھے مار ‘‘ کے مترادف ہے۔اَب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن الیون کے عاقبت نااندیشن رہنماؤں کو کتنے جنازے اُٹھانے کے بعد سیاسی عقل آتی ہے۔ویسے ایک بات اپوزیشن الیون کے ہر رہنماکو معلوم ہونی چاہئے کہ اگرخدانخواستہ سیاسی جلسوں میں شرکت کی وجہ سے اپوزیشن کا کوئی رہنما کورونا وائرس کے باعث ہلاک ہوجاتاہے تو اس کا الزام وزیراعظم پاکستان عمران خان پر کسی بھی صورت عائد نہیں کیا جاسکے گا کیونکہ پاکستان کی 22 بائیس کروڑ عوام صبح و شام دیکھ اور سن رہی ہے کہ ’’آکورونا ،مجھے مار ‘‘ کی سیاسی پالیسی پر کون عمل پیراہے اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے کورونا وائرس کو لگام ڈالنے کی کامیاب حکمت عملی کون اختیار کیئے ہوئے ہے۔اس لیے کورونا وائرس کو فروغ دیتے ہوئے کووڈ 19 بیماری کا شکار ہونے والے اپوزیشن رہنما کو ہم ’’وبائی سفیر ‘‘ تو ضرور قرار دے سکتے ہیں لیکن شاید ’’سیاسی شہید ‘‘ نہ کہہ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر