وجود

... loading ...

وجود
وجود

خود ساختہ جمہوریت اور اختیارات کی ہوس

هفته 14 نومبر 2020 خود ساختہ جمہوریت اور اختیارات کی ہوس

پی چدمبرم
۔۔۔۔
مہمان کالم

دنیا میں ایسے کتنے ممالک اور ان کے عوام ہیں‘ جو انتخابات کے بعد یہ کہہ سکتے ہیں تبدیلی بہت جلد آنے والی ہے یا جو اْن لوگوں نے سوچ رکھا تھا‘ جن امیدوں اور خدشات کا اظہار کیا تھا‘ ان کی تکمیل کا وقت آ گیا ہے۔ آج امریکا میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے‘ اس کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ ذمہ دار ہیں۔ ہم اس ضمن میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ 3 نومبر کو ہوئے آزادانہ و شفاف انتخابات میں امریکی عوام نے جوبائیڈن کو ریاست ہائے متحدہ امریکاکا اگلا صدر (اب ان کے صدر منتخب ہونے کے محض اعلان باقی ہے) منتخب کرتے ہوئے یہ بتا دیا کہ اب امریکا میں کیا ہونے والا ہے اور کون سی تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اختیارات کا بے جا استعمال کیا ہے اور دروغ گوئی کا سہارا لیا‘ اس کے باوجود انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔میں کہتا ہوں کہ امریکی انتخابات بحیثیت مجموعی آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انداز میں ہوئے۔ ہاں ابتدا میں رائے دہی کے مرحلہ کو پٹری سے اتارنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ وہ ووٹوں کی گنتی روکنے کے لیے مقدمات دائر کریں گے اور ایسا کیا بھی گیا۔ عدالت نے بھی بعض مقامات پر محدود رائے شماری کے مطالبے کو قبول کیا اور پھر ٹرمپ نے آخری مایوسانہ اقدام کے طور پر تین ریاستوں میں انتخابی دھاندلیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے مقدمات دائر کیے۔

ایجنڈے کی تکمیل : امریکی صدارتی اور امریکی کانگریس کے انتخابات وہ انتخابات ہیں جس میں ساری دنیا نے دلچسپی لی ایک طرح سے ان انتخابات میں ساری دنیا نے اپنا سرمایہ جھونکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں امریکی مالیاتی، فوجی اور ٹیکنالوجی اختیارات کی اجارہ داری ہے۔ واضح رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان (435 ارکان) کا ہر دو سال میں انتخاب عمل میں آتا ہے اور مالی امور کے تمام اختیارات ایوانِ نمائندگان کے پاس ہی ہوتے ہیں۔ سینیٹ کے ایک تہائی ارکان کا بھی انتخاب دو سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے اور اسے مشورہ دینے اور مرضی کے اظہار کا حق حاصل ہے یعنی اس کی مرضی کے بغیر کوئی بل آگے نہیں بڑھتا اور نہ ہی حکومت ان کی مرضی کے بغیر کوئی اقدامات کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اہم ترین تقررات جیسے وفاقی وزرا اور سپریم کورٹ ججز کا تقرر‘ ان کے ذمے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے ہر دو سال اور ہر چار سال میں امریکی پالیسیاں ڈرامائی طور پر تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور ان کا گہرا تعلق عالمی مفادات سے ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں نومنتخب صدر جوبائیڈن کی جانب‘ اس کی کوئی طمانیت نہیں ہے کہ نومنتخب صدر بائیڈن اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں کامیاب بھی ہوں گے۔ امریکا کو درپیش چند اہم مسائل پر ہی غور کرلیں۔ کووڈ۔ 19 کی وبا، نگہداشتِ صحت اور قابلِ دسترس نگہداشت سے متعلق قانون، امیگریشن، نسلی و صنعتی مساوات، اسقاطِ حمل، ملک میں بڑھتے معاشی انحطاط، حلیف ملکوں سے تعلقات، سب سے بڑے حریف ملک روس سے تعلقات، تجارتی معاہدات، تحفظ پسندی بمقابلہ عالمی تجارت اور چین کی توسیع پسندی جیسے مسائل پر جوبائیڈن کا خصوصی ایجنڈا ضرور ہوگا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی رائے دہندوں میں سے تقریباً نصف نے ایسا لگتا ہی کہ یکطرفہ ووٹ اور دوسرے نصف نے بھی یکطرفہ ووٹ دیا ہے چونکہ سینیٹ میں ریپبلکنز کا کنٹرول ہے ایسے میں فریقین کے درمیان ہر مسئلے پر زبردست ٹکرائو ہوگا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ امریکا میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کے درمیان ہر مرحلے پر ٹکرائو یقینی ہے اور بلز کی منظوری میں زبردست رکاوٹ پیدا ہوگی۔ اب محسوس ہو رہا ہے کہ امریکی سیاسی نظام تبدیلی کی جانب رواں دواں ہے۔ یہ بات بھی خوفناک ہے کہ آیا یہ ملک آزاد خیال اور فراخدلانہ ہے یا دائیں بازو کی جانب اس کا جھکائو بڑھ گیا ہے۔ اس کی مثالیں بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، میانمار، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور فلپائن جیسے ممالک ہیں۔

وزیر اعظم کے اختیارات (پارلیمانی نظام کے تحت) اور صدر کے اختیارات (صدارتی نظام کے تحت) یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں لیکن فرق بہت دھندلا ہے کیونکہ وہاں عام سیاستداں کہنہ مشق سیاستداں بننے کے خواہاں ہیں اور تمام اختیارات کے حامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ دستور میں ترمیم کرتے جارہے ہیں جیسا کہ سری لنکا میں ہوا ہے۔ اس ملک میں زیادہ تر اختیارات وزیراعظم ہائوس کو حاصل ہیں اس طرح ہندوستان میں وزیر اعظم، امریکی صدر کی طرح کے اختیارات کا حامل ہوتا ہے۔ اسے قرض لینے‘ خرچ کرنے‘ عالمی معاہدات کرنے‘ ان معاہدات سے دستبردار ہونے‘ ججز کے تقررات کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ کرنے یا نہ کرنے کے فیصلوں پر مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔ ایک حقیقی پارلیمانی نظام میں ایک وزیر اعظم کے لیے اس کی کابینہ بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور وزیر اعظم کلیدی کابینہ کے وزراء کے ساتھ عاملانہ اختیارات شیئر کرتا ہے اور وزیر اعظم ازروئے قانون پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتا ہے یا پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے اسے جواب دینا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ ہر مصارف کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری لینا ضروری ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حد سے زیادہ سیاسی عزائم رکھنے والا وزیر اعظم یہی چاہتا ہے کہ وہ حقیقت میں صدر رہے۔
اگر کوئی وزیر اعظم دستور میں ترمیم کے ذریعے ایسا نہیں کرسکتا تو پھر وہ چوری چپکے ایسا کرتا ہے اور جمہوری نظام کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر وزیراعظم اپنی پارٹی کا ایسا لیڈر ہو جسے کوئی چیلنج نہیں کرسکتا تو پھر حقیقت میں صدر کی طرح کے اختیارات حاصل کرنے کا عمل وہ بنا کسی احتجاج و مزاحمت کے مکمل کرلیتا ہے۔ اس امر میں سب سے بڑی رکاوٹ وزیر اعظم کی اکثریت اور اس کی جمہوری جبلت ہوتی ہے۔ ایک واضح اکثریت اور اس پر کمزور جبلتیں وزیر اعظم کو صدر کی طرح اختیارات کا استعمال کرنے کی جانب دھکیلتے ہیں۔ بدقسمتی سے آبادی کے کچھ گوشے جیسے دولتمند طبقات اور نظریاتی طور پر متاثرہ رائے دہندہ اسی قسم کے لیڈر کو ترجیح دیتے ہیں اور حقیقی جمہوریت کے توازن کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ آج کل ساری دنیا میں یہی دیکھا جارہا ہے کہ سیاسی قائدین‘ خاص طور پر منتخب رہنما زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے پاس رکھنے کے خواہاں ہیں جبکہ یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر کیا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر اپنی پسند کے افراد کا اپنے ماتحتوں کی حیثیت سے تقرر کیا جارہا ہے، کمزور قوانین منظور کئے جارہے ہیں، فنڈز اجرا کرنے سے انکار کیا جارہا ہے، ہر عمل میں اعلیٰ عہدیداروں کی رکاوٹیں یا ان کی مداخلت بڑھتی جارہی ہے۔

بھارت میں اس طرح کے اداروں کو دیکھا جائے تو ہم الیکشن کمیشن، انفارمیشن کمیشن، فنانس کمیشن اور حقوقِ انسانی، حقوقِ نسواں، حقوقِ اطفال، حقوقِ درجہ فہرست پسماندہ طبقات و قبائل، اقلیتوں کے حقوق اور حقوقِ صحافت کے مختلف قوانین کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں چند ہی ممالک ہیں جہاں حقیقی جمہوریت پائی جاتی ہے اور جمہوری حکومتیں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس سلسلے میں برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان، سوئٹزرلینڈ، یورپی یونین کے ارکان ممالک کے نام ہی آتے ہوں اور ہوسکتا ہے کہ دنیا میں اس طرح کے کچھ اور ممالک بھی ہوں جبکہ باقی ایسے ممالک ہیں جنہیں ہم خودساختہ جمہوری ملک کہہ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر