وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی پیکج: کس کے کتنے ہیں دام؟

جمعرات 10 ستمبر 2020 کراچی پیکج: کس کے کتنے ہیں دام؟

زبوں حال کراچی کی ازسرنوتعمیر وترقی کے لیے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے اپنے حالیہ دورہ کراچی میں جو گیارہ سوارب سے زائد روپوں کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یقینا اس لحاظ سے اِسے ایک تاریخ ساز ترقیاتی پیکج قرار دیا جاسکتاہے کہ کہ آج تک کسی بھی شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے اتنی خطیر رقم کے یکشمت ترقیاتی پیکج کا اعلان نہیںکیا گیا۔بلاشبہ یہ ترقیاتی پیکج کراچی کے باسیوں کے لیے ایک نعمت غیر متبرکہ سے کم نہیں ہے لیکن سندھ حکومت کی انتظامی قابلیت و سیاسی چال بازیوں کے ’’الم ناک ماضی ‘‘ کے تجربہ کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر بھر میں بس یہ ہی ایک جملہ زبان زدِ عام ہے کہ ’’کتنے پیسے کراچی کی ترقی پر لگیں گے اور کتنے روپے کرپشن کی بھینٹ چڑھا دیئے جائیں گے؟‘‘۔بعض مایوس لوگوں کا خیال ہے کہ ’’ایک روپیہ بھی کراچی پر لگایا نہیں جائے گا ‘‘۔جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ ’’ترقیاتی پیکج کاستر فیصد روپیہ کرپشن کی نذر ہوجائے گا اور بقایا تیس فیصد سے شہر کراچی کی جتنی لیپاپوتی کی جاسکتی ہے وہ کردی جائے گی ‘‘۔چند شہریوں کے مطابق ’’اگر مقتدر حلقوں کی جانب سے بہت زیادہ سخت مانیٹرنگ بھی ہوئی تو پچاس فیصد پیسے کراچی پر لگا کر بقایا سے کرپشن کا کاروبار منظم کرنے کی کوشش کی جائے گی‘‘۔یعنی کتنی عجیب بات ہے کہ آپ کو پورے شہر کراچی میں کوئی ایک ایسا شہری ڈھونڈے سے بھی نہیں مل سکے گا جسے اپنی حکومت پر بس اتنا سا یقین ہو اور وہ یہ کہہ سکے کہ ’’ سندھ حکومت گیارہ سو ارب روپے کی ساری رقم کراچی کی تعمیر و ترقی پر ایمانتداری سے بھی خرچ کر سکتی ہے ‘‘۔
ہمارے حکمرانوں کی یہ وہ منفرد ’’سیاسی ساکھ ‘‘ ہے ،جس کے بل بوتے پر وہ ایک نئے کراچی کی نیو رکھنے چلے ہیں ۔ کراچی کو بچانے ،بنانے ، سنوارنے اور نکھارنے کے لایعنی دعوے سندھ پر حقِ حکمرانی رکھنے والی ہر سیاسی جماعت کی جانب سے ہرروز پوری شد و مد کے ساتھ منصہ شہود پر یکے بعد دیگرے پیش کیے جارہے ہیں ۔الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے اُفق پرشہہ شرخیوں اور بریکنگ نیوز کی صورت میں ’’سیاسی دعووں ‘‘ کی ایک ایسی بے ہنگم سیاسی دوڑ کا آغاز ہوچکا ہے ، جس میں ہر سیاسی جماعت صرف جیتنا چاہتی ہے اور اپنی مقابل حریف سیاسی جماعت کو شکستِ فاش سے دوچار کرناچاہتی ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کا سربراہ اپنی دانست میں یہ ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہاہے کہ جیسے اُس کے دل میں کراچی کے مکینوں کے لیے جتنا دُکھ، درد اور تکلیف ہے ،اُتنی تکلیف کا احساس تو شاید اہلِ کراچی کو خود بھی اپنا نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے اس جذبہ میں کچھ نہ کچھ سچائی بھی ہو لیکن اہلیانِ کراچی گزشتہ چالیس برسوں میں سیاسی حکمرانوں کے وہ وہ بھیانک سیاسی روپ اور بہروپ دیکھ چکے ہیں کہ اَب انہیں اپنے سیاسی سربراہوں کی کسی سچائی پر بھی یقین نہیں رہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کراچی کے باسی اپنے شہر ِ خراب حال کی تعمیر و ترقی کے لیے سیاسی حل کے بجائے ایک ایسے غیر سیاسی حل یا نسخہ کے انتظار میں ہیں اور یہ غیر سیاسی حل یا نسخہ بھی ایسا ہونا چاہئے،جو نہ صرف حال کی سیاسی آلودگی سے پاک ہو بلکہ اِس میں ماضی کی سیاسی آمیزش کرنے سے بھی پرہیز ہی کیا جائے ۔
یادررہے کہ کراچی پیکج بھلے کتنا ہی خوش کن سہی ،لیکن بہرحال یہ کراچی کے دیرینہ مسائل کا حل کسی بھی صورت نہیں ہے ۔ ہاں ! یہ ضرور ہے کہ اگر کراچی پیکج پر اس کی روح کے عین مطابق ایمانت داری کے ساتھ عمل پیرا ہوا جائے تو شہر کی حالت کو از سر نو سدھارنے کے لیے انتظامی اداروں کو طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنے کے لیے کچھ وقت ضرور مل جائے گا ،بعد ازاں جس سے استفادہ کرتے ہوئے شہر کراچی میں انتظامی نوعیت کی انقلابی تبدیلیاں کا آغاز کیا جاسکتاہے ۔ مگر پھر اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی کے کون سے انتظامی ادارے کراچی پیکج پر عمل درآمد کے بنیادی طورپر ذمہ دار ہوں گے؟۔ اگر وفاقی حکومت کی راگنی سنی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ کراچی پیکج پر 70 فیصد عمل درآمد وفاقی ادارے کریں گے اور سندھ حکومت کے ماتحت ادارے بس ضروری معاونت فراہم کریں گے۔ لیکن دوسری جانب سندھ حکومت کے ترجمانوں کے روز بروز جاری ہونے والے سیاسی بیانات کے مطابق کراچی پیکج پر سو فیصد سندھ حکومت کے ماتحت ادارے ہی عمل کریں گے اور وفاق، کراچی پیکج کی مد میں اپنے حصہ کے پیسے فراہم کرنے کے بعد بس اپنے کام سے کام رکھے۔ہمیں ڈر ہے کہ ’’کراچی پیکج ‘‘ پر سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کی آپس کی چھینا چھپٹی اور سیاسی آپادھاپی میں کہیں ’’کراچی پیکج ‘‘ کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں نہ پھوٹ جائے اور کراچی کی عوام جس کی تمام نظریں ’’کراچی پیکج ‘‘ کی ہنڈیا سے نکلنے والے انتظامی ثمرات پر ٹکی ہوئی ہیں ۔کہیں اِس بار بھی ان کے حصہ میں سیاسی و انتظامی مایوسی کا فقط ’’ملغوبہ ‘‘ ہی نہ آئے ۔
ایک بات تو پوری طرح اظہر من الشمس ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’’کراچی پیکج ‘‘ کے جتنا زیادہ دام بڑھتے جائیں گے ، ویسے ویسے کراچی کے عوام کو زیرِ دام لانے کے لیے ’’سیاسی صیاد‘‘ بھی نئے نئے پھندے لگاتے جائیں گے۔ جیسا کہ خبریں گرم ہیں کہ روشنیوں کے شہر کراچی کی بحالی کے لیے کئی بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی ’’کراچی پیکج ‘‘ میں اپنے اپنے دام شامل کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔اِس طرح کی خبروں نے بھی ’’سیاسی صیادوں ‘‘ کی اُمیدوں کو بڑھاوا دینا شروع کردیا ہے ۔ اَب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اہالیانِ کراچی کو ’’کراچی پیکج ‘‘ سے دام ملتے ہیں یا پھر انہیں اب کی بار بھی ’’سیاسی صیاد‘‘ اپنے کسی دام میں پھانس لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!! وجود منگل 07 مئی 2024
فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت وجود منگل 07 مئی 2024
تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت

کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر