وجود

... loading ...

وجود
وجود

وفاق کا حاکمانہ طرزعمل

بدھ 17 جون 2020 وفاق کا حاکمانہ طرزعمل

بلوچستان کے اندر سیاسی جماعتیں و دوسرے حلقے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو ہیئت حاکمہ کے چادر میں لپٹی ہوئی تصور کرتے ہیں۔اس مخلوط حکومت کی بعض جماعتیں بھی یہی رائے ر کھتی ہیں۔ سیاسی حلقے اسے معروف معنوں میں سیاسی جماعت کے معیار کی حامل قرار نہیں دیتے۔ بہر حال جیسے بھی ہو ں ان کے وابستگان اپنے حلقوں سے منتخب ہوکر آئے ہیں۔ بڑی پارلیمانی جماعت بن کر بلوچستان عوامی پارٹی نے صوبے میں حکومت تشکیل دی ہے۔ چناں چہ یہ حکومت مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ اسے وفاق کے ستم کا بھی سامنا ہے۔کسی اور جماعت کی حکومت ہوتی، تو یقینا وفاق کے ساتھ سندھ حکومت کی مانندمناقشہ ہوتا۔حالیہ وفاقی بجٹ (12جون2020) سے قبل وزیراعلیٰ جام کمال خان نے اپنی دانست میں وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے منصوبے ترجیحی بنیادوں پر ڈلوانے کی کوششیں کیں۔ وفاق کا بلوچستان سے سلوک اور صوبے کی ضروریات ، مشکلات اور مسائل کو لائق اعتنائنہ سمجھنے کی روش و رویے کو دیکھتے ہوئے جام نے مؤدبانہ احتجاج کیا۔مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی صدارت میں ہونے والے سالانہ منصوبہ بندی کمیشن کے اجلاس سے واک آئوٹ کیا۔ جام کمال نے وفاقی حکومت کے نمائندوں سے متعدد ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ سے بھی بالمشافہ ملے۔ تاہم بجٹ اور معیشت جاننے والے کہتے ہیں کہ اس وفاقی بجٹ میں بلوچستان کے منصوبوں کو کماحقہ جگہ نہ مل سکی ہے۔ ایسے میںصوبائی حکومت کو خفت اٹھانی پڑی ہے۔چناں چہ اس دوران اخبارات میں خبر لگوائی گئی کہ وزیراعلیٰ کے احتجاج کے اثر کے تحت وفاقی حکومت نے بلوچستان کے لئے 56ارب کے وفاقی منصوبوں کی منظوری دے دی۔ بہر حال حزب اختلاف اور صوبے کی بڑی سیاسی جماعتوں نے وفاق کا طرز عمل اس بار بھی مایوس کن اور امتیازی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے منصوبے خاطر میں نہ لائے گئے۔
باتوں کی حد تک سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ بلوچستان جغرافیائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے، اور اس کے معدنی وسائل ملک کی معیشت کے لیے جسم میں روح کی مانند ہے۔ مگر عملاً صوبے کو باج گزار کی حیثیت دے رکھی ہے۔ اس کے وسائل ہڑپ کئے جاتے ہیں۔ مگر اضافی نوازشات تو کیا صوبے کو جائز حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ وفاق کاسو تیلا و نری حاکمانہ طرز عمل صوبے کو کوچھبتا ہے ،آں کہ دل کی بات مقتدرہ نوازوں کی زبان پر بھی آ ہی جاتی ہے۔ جیسے 10جون2020ء کو وزیراعلیٰ جام کمال خان نے بھی اس جانب اشارہ کیا۔ وزیراعلیٰ نے اپنی ایک ٹویٹ میں وہی کچھ کہا جو دوسری جماعتیں عشروں سے کہتی چلی آرہی ہیں۔ اس روز جام کمال خان وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے قومی اقتصادی کونسل کے ویڈیو لنک اجلاس میں شریک تھے۔ جام کمال نے اجلاس پر واضح کیا کہ ’’وفاقی سطح پر بلوچستان کے ترقیاتی معاملات کو آسان نہ لیا جائے۔بلوچستان پہلے ہی وفاقی منصوبوں میں نظر انداز رہا ہے۔ جام کمال نے توجہ دلائی ہے کہ بلوچستان کی محرومیوں کی ایک اہم وجہ نامناسب اور ناکافی ترقیاتی سرمایہ کاری ہے۔ ترقیاتی اسکیمات پر توجہ نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کا بڑا حصہ آج بھی غیر ترقی یافتہ ہے۔ ‘‘گویا وزیراعلیٰ جام کمال بھی موجود معروضی حقائق زبان پر لانے پرمجبور ہوئے۔در حقیقت وفاق کے اس امتیازی سلوک و برتائونے بلوچستان کے اندر سخت گیر و متشدد سیاسی رویوں کو جنم دیا ہے۔شورشیں جنم لے چکی ہیں۔ حاضر وقت بھی ریاست کو تشدد پر مبنی سیاسی رویوں کا سامنا ہے۔ریاست،اسی طرح بلوچستان کا دو عشروں سے برابر نقصان ہورہا ہے۔
لہٰذا یہ ذمے داری بلوچستان عوامی پارٹی جیسی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ وفاق سے نرمی اور تابعداری کے تعلق کی بجائے صوبے کے آئینی حق پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کریں۔ اس ضمن میں اسمبلی کے اندر حزب اختلاف اور صوبے کی دوسری جماعتوں کا تعاون حاصل کیا جاسکتاہے۔جہاں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان برابر دوریاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ حزب اختلاف حکومت کے ساتھ متصادم ہے ،ان کا احتجاج اب سڑکوں پر ہو رہا ہے ،۔ ہونا یہ چاہیے کہ کم از کم وفاق کے آگے صوبے کی مخلوط حکومت ،حزب اختلاف و دوسری سیاسی جما عتیں ایک قطار میں کھڑی ہوں۔ اس ضمن میں زیادہ کردار جام کمال کی حکومت کا بنتاہے۔اسمبلی کے اندر قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈوکیٹ ہیں۔وہ سنجیدہ اور معاملہ فہم اور اچھی شہرت کے حامل سیاستدان ہیں۔گویا ان کے ذریعے ایک تو افہام و تفہیم کا ماحول بنایا جا سکتا ہے ،دوئم وفاق پر صوبے کے آئینی حقوق کے حصول کے لیے مل کر دبائو ڈالا جا سکتا ہے۔ سردست صوبائی حکومت اپنا جائزہ لے کہ آیا وہ وفاق سے صوبے کا مفاد تسلیم کرانے میں آزاد و یکسوہے؟۔یوں یقینا حزب اختلاف بھی دو رائے کا شکار نہ ہوگی۔ بلوچستان کے اندر کورونا وبا پھیل جانے کے بعد حکومت کا کنٹرول رفتہ رفتہ ختم ہورہا ہے۔ بلکہ فی الواقع صوبائی حکومت اور سرکاری مشینری محض اجلاسوں اور اعلانات تک محدود ہوکر رہ گئی۔ جوکوئی فیصلہ اور پالیسی لاگو نہ کرسکی ہے۔اموات کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔خود صوبائی حکومت کا محکمہ صحت کہہ چکا ہے کہ اگست تک صوبے کی سو فیصد آباد ی کورونا مرض میں مبتلا ہوجائے گی۔ حالت یہ ہے کہ سرکاری دولت بے دریغ خرچ ہورہی ہے، جبکہ نتیجہ صفر کی مانند ہے۔ محض دعوؤں ، اعلیٰ سطح کے اجلاس اور گزاف گوئی سے اگر درپیش چیلنج سے نبرد آزما ہونا ممکن ہوتا تو صوبہ کب کا اس وباکے خلاف بند باندھ دیتا۔لہٰذا حکومت کا اپنی عمل داری یقینی بنا ناگزیر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر