وجود

... loading ...

وجود
وجود

قانون وانصاف

اتوار 26 اپریل 2020 قانون وانصاف

تمام حمد و ثنا اس پاک پروردگار کے لئے ہے جس کی مدحت تک ناطق کے تکلم کو رسائی نہیں اور اس کی نعمتوں کو گننے والے شمار نہیں کرسکتے۔ اس کے حق کو کوشش کرنے والے ادا نہیں کرسکتے، نہ ہمتوں کی بلندیاں اس کا ادراک کرسکتی ہیں نہ ذہانتوں کی گہرائیاں اس کی تہہ کو پاسکتی ہیں۔اس نے تجربات کے مراحل سے گزرے بغیر زمین و آسمان اور ان کے مابین مخلوقات کو غیب سے بالکل ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ ایجاد کیا اور واشگاف الفاظ میں دعوت دی کہ کوئی ہے جو اس کی تخلیقات میں عیب کی نشاندہی کرے۔ اس نے عرش و کرسی کی تخلیق کی اور کار ہائے قدرت کے لیے تمام تخلیقات کو ان کے افلاک میں ڈال کر ضوابط و قوانین کا پابند بنا دیا۔اس نے متضاد اجزاء کے مرکب سے آدم کو تخلیق کیا اور اسے فضیلتِ اشرف سے نواز کراحسنِ تقویم قرار دیا اور فرشتوں کو سجدہئ آدم کا حکم دے کر اس کی افضلیت پر مہر ثبت کر دی۔ پھر جس نے غرور و تکبر کے زیرِ اثر اس کے حکم سے سرکشی اختیار کی تو اسے ابلیس کا نام دے کر لعنت کا مستحق قرار دیا اور دیگر مخلوقات کے لیے نشانِ عبرت قرار دیا جبکہ دوسری جانب جب آدم نے اپنی خطا پر معافی طلب کی اور اس کی بزرگی، برتری و کبریائی کا اقرار کیا تو اسے ہدایت کے ساتھ زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کردیا اور اپنی صفات کا اقل تر تین حصہ عطا کیا تاکہ اس کے تقابل سے وہ اپنی بزرگی، برتری و کبریائی سے انسان کو مزید روشناس کروائے۔ پھر یوں جس نے اس کی وحدانیت، حقانیت اور کبریائیت کا اِصرار و تکرار کیا اس ذات نے اس کی تمام تر کمزوریوں اور ناتوانیوں کو ناقابل تسخیر طاقتوں میں بدل دیا پھر چشم فلک شاہد ہے کہ کبھی اس نے نار کو گلزار کروایا تو کبھی دریا کی تندو تیز لہروں کو چیر کر دشمن سے پرورش کروائی۔ کبھی کنویں کی تاریکیوں سے نکال کر مصر کا بادشاہ بنایا تو کبھی سمندر کو پاٹ کر راہ گزر بنا دی، کبھی لمس ید سے بے جان کو زندہ کردیا تو کبھی جنبشِ انگشت سے چاند کو دولخت کردیا، کبھی تارِ عنکبوت سے لشکر کا راستا روک دیا تو کبھی صحرانشینوں کے قدموں میں سلطنت روم وایراں کو ڈال دیا۔
غرض جس نے اس کی بڑائی بیان کی اور اس کے قوانین کا پاس کیا، اس نے اس کے سامنے کائنات کو جھکا دیا اور جس نے جستجو کی اس پر کائنات کے اسرار و رموز کو کھول کر رکھ دیا۔
اس نے قانونِ فطرت کے لبادے میں بنی آدم کی ہدایت کے لیے قانونِ حیات، قانونِ سیر، قانونِ سلطانیہ، قانونِ طبیعیات، قانونِ فلکیات، قانونِ ارضیات، قانونِ حیاتیات، قانونِ طب،قانونِ عبادات اور قانون اخلاقیات و دیگر سے متعارف کروایا۔ ان قوانین کی تعلیم کے لیے اس نے انبیاء ارسال کیے اور خاتم المرسلین ﷺپر اس سلسلے کو تمام کیا اور ان قوانین کو مکمل و جامع انداز میں قرآن مجید، فرقان حمید کی صورت میں قیامت تک بنی آدم کو عطا کرکے دعوت تدبر دیا۔
اس تدبر میں رنگ و نسل، دین و مذہب، عرب و عجم کی کوئی تفریق نہیں کی گئی جس کے باعث کبھی سمرین نے کائنات کے سربستہ رازوں کو پایاتو کبھی آموری، عکاری،آشوری، مصری، عرب وہندی نے علم و فنون کے ابواب وا کیے۔ پھر اہل فرہنگ،بنی سام اور بنی قنطورہ نے یہ باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لی اور جدت کے نام پر بنی نوع انسان کو خالقِ حقیقی سے دور کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ وہ قوانین جو باہم شیر و شکر تھے ان کو الگ الگ کرنے کا آغاز ہوا پھر کچھ قوانین معمل گاہوں اور رصد گاہوں کی زینت بنے تو کچھ کو ایوانوں اور عبادت گاہوں تک محدود کردیا۔ جب کہ کتاب ضابطہ حیات بلا تمیز و تخصیص دعوت فکر دے رہی تھی۔
یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں جہاں قوانین طبیعیات، کیمیاء، فلکیات، طب، حیات و حیاتیات میں نئے ابواب رقم کیے، وہاں قانونِ اخلاقیات قانون السلطانیہ والسیرکی بھرپور پامالی کی، اپنے اقتدار کے لیے ہر جائز اور ناجائز ذرائع کو استعمال کرنے میں دریغ نہیں کیا اپنی برتری جتانے کے لیے انسان نے تلوار کی جگہ آتشی اسلحہ دریافت کیا تو کبھی ایٹمی، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار کا استعمال کیا۔کھنکھناتی، ٹھیکری مٹی کا مجسم انسان، چند صفات اور اعزاز ِمسجود ملائکہ کے زیر اثر اپنے حقیقی تخلیق کار اور حاکم کو بھول کر ابلیس سے بھی آگے نکل گیا۔ ابلیس نے اس کی کبریائی کا اقرار تو کیا تھا لیکن حکم سے سرکشی اختیار کی مگر انسان نے تو اپنے رب کے وجود کا ہی انکار کردیا اور اپنی ربوبیت کا دعویدار ہوگیا۔
انسان نے جب اس کے قانون سے روگردانی کی تو اس منتقمِ اعظم نے انسان کے ضعف و ناتوانی کو باور کروانے کے لیے اپنے بظاہر کمزوراور ناتواں سپاہی اس کی سزا کے لئے مقرر کیے جب بابل کے حکمران نے سرکشی اختیار کی تو ایک مچھر سے اس کا مقابلہ کروا دیا اور اپنے قانون میں بیان کیا کہ وہ مچھر کی مثال دیتے ہوئے نہیں شرماتا۔ جب مصر کے حکمران نے طاقت کے نشے میں اس کے قانون کو للکارکر اپنی برتری کا دعویٰ کیا تو اس نے مینڈک اور ٹڈی کے ذریعے تنبیہہ کی اور جب اس نے سرکشی اختیار کی تو اسے رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔ جب انسان نے اس سے مقابلے کے لیے مال و اسباب اور ہاتھی جیسے جانور پر بھروسا کیا تو اس نے ابابیل کو پاسبان مقرر کرکے انسان پر واضح کردیا کہ وہ اکیلا ہی ہے غالب اور حکمت والا اور انسان کو چاہئے کہ اس سے سبق سیکھے۔
تاریخ وہ زبان ہے جسے اللہ نے قرآن کے لیے پسند کیا اور بار بار انسان کو گزشتہ سے تعبیر لے کر آئندہ کے لیے تدبیرِ صالح کا حکم دیا لیکن انسان خوگرِپیکر محسوس ہے وہ اس وقت تک عبرت نہیں لیتے جب تک عذاب کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لے،جبکہ آنکھوں کا دیکھنا حقیقت میں دیکھنا شمار نہیں کیا جاتا کہ آنکھیں اپنے اشخاص کو دھوکا دے سکتی ہیں پر عقل کا سکھایا ہوا کبھی دھوکا نہیں کھائے گا اور عقل کہتی ہے کہ دنیا میں سب سے بڑا عذاب توفیقِ سجدہ معبود کا سبب ہوتا ہے۔ آج درِبیت اللہ اور درِ بیت الرسول کا بند ہونا اس طرف اشارہ تو نہیں کہ اب ہمارے سجدوں میں اب وہ خلوص نہیں رہا اور ہماری ریاکاری اور خودکَشی (سیلفی) نے وہاں ہماری عبادتوں کی جگہ لے لی ہے۔
عصر حاضر کے صاحب اقتدار ایک بار پھر طاقت کے بدمست ہاتھی پر سوار ہوکر اس حاضر و ناظر کے وجود سے انکاری ہوئے تھے تواس نے اپنے نادیدہ سپاہی مقرر کرکے انسان کو ایک بار پھر اپنی طرف پلٹنے کے تنبیہہ کی ہے۔ ہمیں اس کے اشارے کو سمجھنا چاہئے۔ کورونا وائرس کی تخلیق رصدگاہ (لیب) میں ہوئی یا باہر ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ عذاب کو کسی بھی شکل میں اور کسی کے ذریعے بھی بھیج سکتا ہے۔ جب ہلاکو کو کسی نے اللہ کے قہر سے ڈرایا تو اس نے جواب دیا کہ آنکھیں کھول کر دیکھو میں ہی اس کا قہر ہوں جو تم پر نازل ہوا ہوں۔
خدا بڑا غیور ہے وہ اپنے اقتدار میں کسی کی شراکت برداشت نہیں کرتا۔آج بہت سی بین الاقوامی طاقتیں اس نادیدہ بظاہر حقیر ترین مخلوق کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہیں اور آسمان سے مدد کی امید میں ہیں۔ اس بات سے قطع نظر یہ نکتہ بھی اہم اور قابل توجہ ہے کہ ابلیس و دجال کے نمائندے انسانیت و دیانت کے لباس میں میدان میں اُترتے ہیں یہ فریب دورخی تصویر کی مانند ہے عام لوگ اس کی انسانیت و دیانت کی خدمت کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جبکہ اہلِ نظر اس میں پوشیدہ شیطانی مذموم مقاصد کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ موجودہ دور کا ہلاکو خان بل اینڈ میلنڈاگیٹس فاؤنڈیشن اور جان ہاپکنز بلومبرگ اسکول آف پبلک ہیلتھ اور عزائم نقد کرنسی اور انسانی آزادی کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے اور ایجنڈا 21 بھی۔
مخبرِ صادق ﷺنے خبر دی تھی کہ دجال جو جنت دکھائے گا وہ درحقیقت جہنم اور جو جہنم دکھائے گا وہ در حقیقت نجات ہوگی آج وہی ہوتا نظر آرہا ہے انسانیت کی خدمت اور فلاح کے پس پردہ انسانیت کے خلاف ہی جال بنا جارہا ہے۔
انسان سے اس کی آزادی اور دیگر حقوق سلب کرکے اسے ایک روبوٹ کی زندگی دی جارہی ہے۔ مرتے ہوئے انسان کو جان بچانے والی دوا بغیر پیسے کے نہ دینے والے بندوق کی نوک پر ویکسین مفت پلاتے ہیں۔ اب دیکھیں کے کورونا وائرس کی ویکسین کسی طرح سے پیش کی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پوری دنیا میں جن بااثر افراد نے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا دعویٰ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی جاں بحق نہیں ہوا بلکہ پانچ یوم کے قلیل عرصہ میں بھی صحت یاب ہوکر قرنطینہ سے باہر آگئے۔
اس دنیا نے اپنی تمام تر رعنائیوں اور رنگینوں کے باوجود ایک مقررہ دن کو فنا ہوجانا ہے اور باقی صرف اس کی ذات نے رہنا ہے جو لازوال ہے اور لامتناہی ہے۔ انسان اس دنیا کے فریب میں اس کو پانے کے لیے کیا کیا جتن کرتا ہے لیکن ایک دن سب کچھ یہاں چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہتا ہے اور پیچھے رہنے والے ایسے ہوجاتے ہیں کہ گویا موت صرف اسی کے لیے تھی جو چلا گیا کہتے ہیں کہ پھر تو یہ لوٹنا نقصان دہ ہے۔ یقینا لوٹنا تیرے رب کی طرف ہے اور اس کے نام کی تاثیر میں ہر مرض کی شفا ہے اور ہمارے حق میں شفا صرف اس کے ذکر میں پوشیدہ ہے اس ذات نے مرض سے پہلے دوا خلق کی ہے بس دریافت انسان کے سپرد کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انسان نے اپنے فرض کی ادائیگی کسی طرح کی۔ بے شک اُسی کی طرف اُن کو لوٹنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر