وجود

... loading ...

وجود
وجود

وقت وقت کی بات۔۔

بدھ 22 اپریل 2020 وقت وقت کی بات۔۔

دوستو، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ کورونا وائر س پوری دنیا کے لیے عفریت بنا ہوا ہے، دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اس بیماری کا شکار ہیں اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد دنیا فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔۔ماہرین ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈراتے ہیں کہ آنے والے دن مزید خوفناک ثابت ہوں گے۔۔ہمارے وزیراعظم نے تو مئی کا مہینہ انتہائی خطرناک قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ کورونا سے بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا امکان ہے۔یہ ساری باتیں اپنی جگہ لیکن دوسری طرف کورونا انسانیت کا محسن بن کر سامنے آیا ہے۔۔ کورونا کی وجہ سے کرہ ارض کی آلودگی لیول پچاس فیصد نیچے آ گیا ہے اور اب اگر کوئی شخص چاند پر کھڑا ہو کر زمین کی طرف دیکھے تو وہ دوربین کے بغیر سات براعظموں کو الگ الگ دیکھ سکتا ہے‘ اور سوتے جاگتے شہروں کا اندازہ بھی کر سکتا ہے۔کورونا اور گلوبل لاک ڈاؤن زمین کو انیسویں صدی میں لے گیا ہے‘ فضا دھل گئی ہے اور ہواؤں میں سبزے کی مہک واپس آ چکی ہے۔صبح صبح پرندوں کی چہکار بھی سننے میں آرہی ہے جو عرصہ دراز سے ہم سننے سے محروم تھے۔۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے دنیا میں پچھلے ایک مہینے میں اموات کی شرح میں 70 فیصد کمی آ گئی ہے‘کیوں؟ کیوں کہ دنیا میں موت کی دس بڑی جوہات ہیں‘ دل کے امراض‘ کینسر‘ حادثات‘ سانس کی بیماریاں‘ دورے‘ الزائمر‘ شوگر‘ انفلوئنزا‘ گردوں کے امراض اور خودکشی‘ ہے۔۔کورونا کی وجہ سے ان تمام امراض سے مرنے والوں کی تعداد میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔۔
ایک طرف تمام اسپتالوں کی او پی ڈی بند ہیں، ایمرجنسی وارڈ میں بھی رش نہیں۔۔سوائے کورونا سے متاثر مریضون کے کوئی نیا مریض اسپتال نہیں جارہا۔۔سڑکوں پر گاڑیوں کی کمی کی وجہ سے کوئی حادثہ نہیں ہو رہا ہے۔ دل کا دورہ، بلڈ پریشر، برین ہیمریج کی کمی کے واقعات اچانک کم ہوگئے ہیں۔ اتنا اچانک کیا ہوا ہے کہ بیماریوں کے کیس اتنے گر چکے ہیں؟ یہاں تک کہ قبرستان میں مرنے والوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ کیا کورونا نے دیگر تمام بیماریوں کو کنٹرول یا ختم کردیا ہے؟ نہیں، بالکل نہیں؟کورونا کی وجہ سے اصل حقیقت سامنے آرہی ہے،یہ ایسی سنگین بیماریاں نہیں تھیں،ڈاکٹرز اور نجی اسپتال والے جان بوجھ کر اسے سنگین بنادیتے ہیں۔۔ جب سے کارپوریٹ اسپتالوں کی آمد، ٹیسٹنگ لیبز آئیں، یہ بحران مزید گہرا ہونے لگا تھا۔ لوگوں کو ہلکی سردی، نزلہ اور کھانسی میں بھی ہزاروں روپے میں ٹیسٹ کرنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔ تھوڑی بہت پریشانی میں بھی اندھا دھند آپریشن کیا جارہا تھا۔ مریضوں کو آئی سی یو میں رکھا جارہا تھا۔ علاج کے ذریعہ بیماری کا زیادہ خوف محسوس کیا گیا۔ اب کورونا آنے کے بعد، اچانک یہ سب کیسے رک گیا؟اس لیے کہ نجی اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے دھندے بند ہوگئے۔۔ کورونا کی وجہ سے ایک مثبت تبدیلی یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ ہوٹل میں کھانے پینے والے لوگوں پر پابندی عائد ہوگئی۔ لوگوں نے باہر کے کھابے چھوڑ کر گھر کے کھانے شروع کردیئے۔۔ کورونا کی وجہ سے غیرضروری اخراجات کم ہوگئے۔۔کورونا نے انسانوں کی سوچ کو بدل دیا ہے۔ ہر شخص خواب غفلت سے بیدار ہو گیا۔آج یا کل کورونا تو کنٹرول ہوجائے گا، لیکن اس کے ہی ہماری آج کی زندگی کو جو کنٹرول کیاگیا ہے،اگر ہم اسے اسی طرح کنٹرول میں رکھیں، ضروریات کم کرلیں تو بیماریوں کے ساتھ ساتھ زندگی خوب صورت اور خوشگوار ہوجائے گی۔
وقت وقت کی بات ہے،پہلے تاجر دکانیں بند کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے اور آج کل دکانیں کھولنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر دن نشرمکرر لگ رہا ہے،سونا، اٹھنا، کھانا،پینا، واش روم جانا، نمازیں پڑھنا، قرآن پاک کی تلاوت کرنا، ٹی وی دیکھنا،پھر سوجانا۔۔ باباجی نے نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ شادی کا اصل وقت یہی ہے۔۔جی ہاں، لاک ڈاؤن جب تک ہے جن نوجوانوں کی شادی نہیں ہوئی فوری کرلیں، کیوں کہ بیوٹی پارلرز بند پڑے ہیں، کوئی دھوکا نہیں ہوگا، جو چیز بھی ملے گی”اوریجنل“ ہوگی، فضول رسومات اور کھانے پینے،دکھاوے کے معاملات سے بھی جان چھوٹ جائے گی جس سے لمبے چوڑے خرچے الگ بچ جائیں گے۔۔موسم بھی گرم ہونا شروع ہوگیا، اگلے ہفتے رمضان المبارک ہے، یعنی روزے پھر گرمیوں میں آرہے ہیں۔۔ باباجی نے نوجوانوں کو ایک اور مفت مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ۔۔گرمیوں میں محبت ضرور کرلینا۔۔محبت کا ایک بہت ہی زبردست فائدہ یہ ہے کہ گرم ترین موسم بھی آپ کو موسم عاشقانہ نظر آتا ہے اور آپ شدید گرمی میں بھی گرمی لگنے سے بچے رہتے ہیں۔جو لوگ پھیکے اور میٹھے خربوزے۔۔لال تربوز۔۔اور چھوٹے گوشت اور بڑے گوشت میں فرق نہیں کرپاتے، وہ بھی کہہ رہے ہوتے ہیں ہم بندے کو پہلی نظر میں پہچان لیتے ہیں۔۔یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو اتنے پراعتماد ہوتے ہیں کہ ہر کسی کو منہ پر کہہ دیتے ہیں۔۔جایاراپنا کام کر۔۔ مگر وقت وقت کی بات ہے، بعض اوقات اس انسان سے بھی کام پڑہی جاتا ہے جسے آپ نے کبھی کہاہوتاہے کہ جایاراپنا کام کر۔۔ ایسے ہی ایک صاحب ایک بڑے نجی اسپتال میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، گردن میں سریا تھا، ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے، لیکن ایک پیر صاحب کے مرید تھے، پیر صاحب کے علاوہ پوری دنیا کو حقیر کیڑے سے بھی بدتر سمجھتے تھے، ایک روز ان صاحب نے دیکھا کہ پیر صاحب اسپتال میں جلوہ افروز ہیں۔۔دوڑ کر گئے، قدموں کو چھوا، ہاتھوں پر بوسہ لیا اور اسپتال آنے کی وجہ دریافت کی۔۔پیرصاحب بولے، گوڈے میں پیڑہے(گھٹنے میں درد ہے) یہاں سے گزررہا تھا سوچا چیک کراتا چلوں۔۔وہ صاحب پیر صاحب کو فوری اپنے ٹھنڈے ٹھار کمرے میں لے گئے،کہا،آپ یہاں تسلی سے بیٹھیں، میں کسی اچھے سے آرتھوپیڈک سرجن سے آپ کا نمبر لگواتا ہوں۔۔چند منٹوں میں سارا کام جھٹ پٹ ہوگیا، پیر صاحب کا نہ صرف چیک اپ ہوگیا، بلکہ سرجن نے جو ادویات لکھیں مرید نے وہ بھی اسپتال کی فارمیسی سے منگوادیں۔۔ جیسے ہی پیر صاحب رخصت ہونے لگے مرید نے ایک بار پھر قدم بوسی کی اور بولا۔۔حضرت ابا کے گردوں میں دردرہتا ہے، کل دم کرانے آپ کے آستانے پر حاضری لگاؤں گا۔۔
کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن عوام کے ذہنوں پر کس طرح چھایاہواہ ہے، ایک صاحب نے سوشل میڈیا پر اپنی آپ بیتی شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ۔۔ میں اور میری اہلیہ گروسری اسٹور پر کچھ شاپنگ کے لیے گئے۔ ہمارے پاس محفوظ رہنے کے لیے چہرے کے ماسک اور چشمے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں لوگوں کا بہت ہجوم تھا۔سوچا کہ کہیں کورونا نہ چمٹ جائے میں نے بیوی کا ہاتھ پکڑ کر اشارے سے گھر واپس جانے کا کہا لیکن اس نے مزاحمت کی اور اس کے رویہ سے لگا کہ وہ ابھی گھر جانا نہیں چاہتی۔ اس کی مزاحمت کے باوجود میں نے اس کا بازو پکڑا اور بنا بولے زبردستی کھینچتے ہوئے اسے کار میں بٹھایا۔راستے میں وہ مجھے نظر انداز کرتی رہی اور غصہ میں بات تک نہیں کی۔ جب ہم گھر پہنچے اور چہروں سے نقاب ہٹائے تو میں یہ دیکھ کے حیران رہ گیا کہ وہ میری بیوی ہی نہیں تھی۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ وقت وقت کی بات ہے، پہلے گاڑیوں کے پیچھے لکھاہوتا تھا، فاصلہ رکھیں۔۔اب یہ انسانوں کے پیچھے لکھنے کی نوبت آگئی ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر