وجود

... loading ...

وجود
وجود

لاک ڈاؤن کی سسکیاں

جمعرات 16 اپریل 2020 لاک ڈاؤن کی سسکیاں

لاک ڈاؤن نافذ کرنے فقط ایک ہی طریقہ رائج الوقت ہے اور وہ یہ کہ کوئی بھی حکومت اپنے ملک میں سرکاری حکم نامہ کے ذریعے ”لاک ڈاؤن“ کے نفاذ کا اعلان کردے۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے دنیا بھر میں ”لاک ڈاؤن“ نافذ کرنے کے لیے اِسی انتظامی طریق کار کا سہارا لیا گیا لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ”لاک ڈاؤن“ ختم کرنے کے دومستند طریقے ہیں۔پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ جس حکومت نے ایک سرکاری حکم کے ذریعے ”لاک ڈاؤن“ کے نفاذ کا اعلان کیا تھا،اَب وہی حکومت،حالات کی حسیاسیت کو دیکھتے ہوئے،اپنے دوسرے حکم نامے کے ذریعے ”لاک ڈاؤن“ کو ختم کرنے اعلان کردے۔ چین کے شہر ووہان سمیت ساری دنیا میں فقط اِسی انتظامی اُصول کی بنیاد پر ”لاک ڈاؤن“ کے خاتمہ کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید پاکستان اور بالخصوص سندھ میں بھی اِسی انتظامی اُصول کی پیروی کرتے ہوئے ”لاک ڈاؤن“ ختم کرنے کا اعلان کردیا جائے گا۔ مگر ہمارا یہ خیال تو اُس وقت درست ثابت ہوتا نا! جب ہمارے ہاں بھی لاک ڈاؤن ختم کرنے یا نہ کرنے کے لیے ”سیاست“ کے بجائے ”معروضی حالات“ کو پیش ِ نظررکھا جاتا۔پس ہمارے ہاں! ”لاک ڈاؤن“ کے خاتمہ کے لیے دوسرا طریق اختیار کیا گیا،جس کے مطابق ”لاک ڈاؤن“ کے خاتمے کی تمام تر ذمہ داری بے چاری عوام کے کمزور و ناتواں کاندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ کیونکہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت دونوں کی ”سیاسی خواہش“ فی الحال یہ ہی نظر آرہی ہے کہ فدوی لاک ڈاؤن آہستہ آہستہ،سسک سسک کر اپنی موت آپ مر جائے،تاکہ اُن میں سے کسی کے سر بھی ”لاک ڈاؤن“ کی ناگہانی موت کا الزام نہ دھرا جاسکے۔”لاک ڈاؤن“ ختم کرنے کا یہ وہ دوسرا طریقہ ہے۔ جسے دنیا میں پہلی بار ہمارے ہاں ہی تجرباتی طورپر آزمایا جارہاہے۔ اگر ہمارے ملک میں یہ سیاسی تجربہ کامیاب رہا تو بلاشبہ یہ ”سیاسی کارنامہ“ عالمی ذرائع ابلاغ کی اسکرین پر کورونا وائرس کی ویکسین کی ایجاد کی خبر سے بھی بڑی خبر بن کر گرے گا۔
یادش بخیر! کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جزوی لاک ڈاؤن میں چند مزید رعایتوں کے ساتھ دوہفتوں کی توسیع کردی ہے مگر وزیراعظم کے کیے گئے اِس فیصلے کی تعبیر سندھ حکومت نے مزید سخت لاک ڈاؤن کرنے کی ہے جبکہ دوسری جانب سندھ کے تاجر اتحاد نے اِس فیصلہ کی تشریح اپنی دانست میں لاک ڈاؤن معطل ہونے کی فرمائی ہے اور انہوں نے صوبہ بھر میں اپنے تجارتی مراکز کھولنے کا اعلان کردیا ہے۔ اِن تاجروں کا موقف ہے کہ بھوک کے ہاتھوں مرنے سے بہتر ہے کہ پولیس کے ڈنڈوں سے مرجائیں۔ طرفہ تماشہ یہ بھی ہے کہ لاک ڈاؤن کے اِسی توسیعی پسندانہ فیصلے کی روشنی میں علمائے کرام نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں فرما دیا ہے کہ ”اَب کسی بھی صورت مساجد میں لاک ڈاؤن نہیں ہوگا“۔کیونکہ علمائے کرام کا ماننا ہے لاک ڈاؤن کے دوران جن شعبہ جات کو”لازمی سروس“کے تحت استثنا دینے کا کہا گیا ہے،اُس میں یقینا کہیں نہ مساجد بھی ضرور شامل ہوں گی اور اگر نہیں بھی ہیں تو اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کیونکہ سماجی دوری کے اُصول پر جتنا عمل راشن بانٹتے ہوئے کیا جارہا ہے،اُتنا عمل تو مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے دوران با آسانی ہوسکتاہے۔ یعنی پاکستان میں ہر طبقہ فکر کا نمائندہ لاک ڈاؤ ن میں ہونے والی دو ہفتوں کی توسیع کو موم کی ناک سمجھتے ہوئے جس طرف چاہ رہا ہے، اُس طرف موڑ تا جارہا ہے۔اِس نازک صورت حال میں بھی اگر لاک ڈاؤن راہی ملک عدم ہوجانے سے بچ جاتاہے تو پھر یہ اُس کی خوش قسمتی ہی ہوگی وگر نہ ہم پاکستانیوں نے تو لاک ڈاؤن کو ختم کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔
دوسری جانب لاک ڈاؤن پر سیاسی بیانات داغنے کے سلسلہ بھی پورے زور و شور کے ساتھ جاری ہے اور تحریک انصاف کے جید ترجمانوں کی طرف سے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو ہدفِ خاص بناتے ہوئے کہا جارہاہے کہ سندھ حکومت اپنی ذمہ داری درست طور پر ادا نہیں کرپارہی جس کے جواب میں پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمانوں کی طرف سے بھی تیکھے،تیز اور تند سیاسی بیانات کا سلسلہ پورے شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔ حالانکہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ہمیں ملی یکجہتی کی ضرورت ہے لیکن ہمارے قابلِ فخر سیاست دان کورنا وائرس جیسے حساس موضوع پر بھی سیاست کی نمک پاشی کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ سیاسی جماعتوں کی آپسی لڑائی سے کورونا وائرس کے انسداد کے لیے اُٹھائے جانے والے تما م تر حکومتی اقدامات عوام کے نزدیک مذاق بنتے جارہے ہیں،جس کی جھلک اَب تو عوامی رویوں سے بھی صاف جھلکنے لگی ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ چند دنوں سے تو جزوی لاک ڈاؤن کی تھوڑی بہت عزت برقرار رکھنے کے لیے بھی پولیس کو شدید مشکلات کا سامنا کر پڑ رہاہے اور عوام کی جانب سے جگہ جگہ پولیس اہلکاروں سے جھگڑے اور تکرار کے واقعات میں روز افزوں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر بھی آئے روز مشتعل ہجوم کی جانب سے پولیس موبائلوں پر حملے کی نئی نئی ویڈیوز سامنے آرہی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق صرف سندھ میں اَب تک لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے پر 6500 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔اِن اعدادو شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام لاک ڈاؤن کو کس قدر سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
شاید اِسی لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں سندھ حکومت کے تمام تر دعوی اور کوشش کی باوجود اَب لاک ڈاؤن عملی طورپر آہستہ آہستہ غیر موثر ہوتا جارہاہے۔ جس کی بنیادی وجہ لاک ڈاؤن کے نفاذ پر ایک قومی پالیسی کا نہ ہونا ہے۔ اگر یہ ہی صورت حال جاری رہی تو 30 اپریل تک پہنچتے پہنچتے لاک ڈاؤن اپنی بنیادی شناخت ہی کھود ے گا۔ افسوس! ہماری سیاست کورونا وائرس کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکی لیکن اِس ظالم سیاست نے چند ہی ہفتوں میں لاک ڈاؤن کو ضرور ادھ مواسا کردیا ہے اور بے چارہ لاک ڈاؤن شہر کی کسی پرہجوم گلی کے کونے میں کھڑا اپنا منہ چھپائے سسکیاں لے لے کر بین کر رہاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر