وجود

... loading ...

وجود
وجود

’’کُرد کارڈ ‘‘عالمی طاقتوں کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے؟
(سیاسی زائچہ..راؤ محمد شاہد اقبال)

پیر 28 اکتوبر 2019 ’’کُرد کارڈ ‘‘عالمی طاقتوں کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے؟<br>(سیاسی زائچہ..راؤ محمد شاہد اقبال)

<p style=”text-align: right;”>کئی دہائیوں سے اہلِ مغرب ’’کرد کارڈ ‘‘ کو عالمِ اسلام کے خلاف پوری شد و مد سے استعمال کرتے آئے ہیں لیکن شاید اَب ترکی کے صدر طیب اردگان کی سیاسی بصیرت اور حوصلہ مندی سے وہ وقت قریب آگیا ہے کہ کرد قوم مغرب کے استعماری ،منافقانہ اور استحصالی شکنجے سے جان چھڑا کر ایک بار پھر سے اپنی پرانی عظیم الشان تاریخ کی طرف لوٹ رہی ہے ۔

</p>
<p style=”text-align: right;”>اگر طیب اردگان شام میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اِس کا سادہ سا مطلب یہ ہی ہوگا کہ ’’کرد کارڈ ‘‘ عالمی طاقتوں کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے گا اور اِس امر واقعہ کو روکنے کے لیے ہی پورااہلِ مغرب امریکا کی سربراہی میں ترکی کے خلاف صف آرا ء ہونے جارہا ہے ۔ فی الحال جس طرح سے مغربی میڈیا میں کردقوم اور ترکی کی شام میں کی جانے والی عسکری کارروائی کو منفی انداز میں پیش کیا جارہا ہے ، اُس سے اہلِ اسلام کی صفوں میں عجیب سی بے چینی پیدا ہورہی ہے اور اُنہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کرد قوم اور ترکی کے مابین آنے والے دنوں میں ہونے کیا جارہا ہے ۔ میرے خیال میں کرد قوم اور ترکی کا مستقبل سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے ایک نظر کرد قوم کی تاریخ پر ضرور ڈال لینی چاہئے تاکہ ہمیں مغربی پروپیگنڈے کے برعکس بالکل درست اور راست رائے قائم کرنے میں آسانی ہوسکے۔</p>
<p style=”text-align: right;”>یاد رہے کہ کردوں کا شمار آریائی قوم کی ہندی، یورپی نسل میںہوتاہے جو مشرق وسطیٰ کے مختلف ملکوں میں رہائش پزیر ہیں۔کرد قوم بیک وقت عراق، ایران، ترکی، شام اور سابق سوویت یونین کے مختلف ملکوں میں آباد ہے۔ جبکہ کردوں کے بعض گروہ لبنان، یمن، پاکستان اور یورپی ممالک خاص کر جرمنی، سوئٹرز لینڈ اور امریکا میں بھی رہتے ہیں۔ دنیا میں واحد قوم ’’کرد‘‘ ہے جو تیس ملین سے زائد آبادی کے باوجود بھی اپنی قومی شناخت یعنی ’’ریاست‘‘ کے حق سے محروم ہے۔ اگر جغرافیائی طور پر کردوں کے علاقے کا نقشہ پیش کیا جائے تو اس نقشے کی شمالی سرحدیں ’’ارارات‘‘ پہاڑیوں سے شروع ہوتی ہیں جو ایران، آرمینیا اور ترکی کی سرحدوں سے لگتی ہیں۔ جنوب میں ’’حمرین‘‘ پہاڑی علاقہ آتاہے جو بغداد و بصرہ اور ’’عثمانی موصل‘‘ کے درمیان واقع ہے۔ جبکہ کرد خطے کی مشرقی سرحد ایران کے علاقہ ’’لرستان‘‘ کے آخر تک پھیلی ہوئی ہے اور مغرب میں ترکی کا صوبہ ’’ملاطیہ‘‘ آتا ہے۔ ’’کردستان‘‘ کا لفظ پہلی دفعہ بارہویں عیسوی صدی میں وجود میں آیا جب سلجوقی خاندان حکمرانی کر رہاتھا۔ سلجوقی بادشاہ نے خطے کا مغربی حصہ الگ کرکے اس علاقے کا نام کردستان رکھا اور اپنے قریبی دوست سلیمان شاہ کو اس کا حاکم بنا دیا۔ماضی کا کردستان آج بنیادی طور پر تین ملکوں میں بٹ چکا ہے۔ عراق، ایران اور ترکی کے علاوہ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ شام میں واقع ہے۔ ترکی کے نوے صوبوں میں سے اْنیس صوبے کرد آبادی کے ہیں جو ترکی کے جنوب مشرق اور مشرقی حصہ میں واقع ہیں۔</p>
<p style=”text-align: right;”>تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کْرد اسلام سے قبل فارس کے حکمرانوں کے زیر دست تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے لگا تو مسلم فاتحین اور کردوں کے روابط استوار ہوئے۔ خاص کر جب مسلمانوں کا لشکر ’’قادسیہ‘‘ و’’نہاوند‘‘ میں ایرانی افواج کو شکست سے دوچار کرکے آگے بڑھ رہاتھا۔ اکثر کرد علاقے اُسی وقت مختلف صلح ناموں کے نتیجے میں فتح ہوئے، صرف چند علاقوں میں کردوں نے سخت مزاحمت کی مگر بآلاخر انہیں سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ سنہ 21 ہجری میں اکثر کرد علاقے اسلام کے حلقے میں داخل ہوچکے تھے۔ کردوں کی اکثریت اپنی مرضی سے مشرف بہ اسلام ہوئی اور مسلمان ہونے کے بعد کردوں نے اسلامی فتوحات میں قابل ذکر اور نمایاں کردار ادا کیا۔کرد قوم میں اسلام کی حقیقی روح موجود تھی جنہوں نے نہ صرف خلافت اسلامیہ کی فوجوں میں ہر اوّل دستہ کا کام کیا۔ بلکہ یہ لوگ روسیوں، بازنطینیوں اور ان کے ارمنی و جارجین اتحادیوں کے سامنے بھی ہمیشہ سینہ سپر رہے ۔ شاندار تاریخ رکھنے والی کرد قوم کا سب سے قابل فخر کارنامہ صلیبیوں اور بازنطینیوں سے مقابلے کے دور میں’’ سلطان صلاح الدین ایوبی‘‘ جیسے جلیل القدر قیادت کاپیدا کرناہے۔</p>
<p style=”text-align: right;”>دلچسپ با ت ہے کہ سلطان صلاح الدین کی صلیبی جنگوں کا حساب چکتا کرنے کے لیے ہی اہلِ مغرب نے کردوں کو ایک منظم ساز ش کے تحت پہلے الگ الگ کیا اور پھر انہیں مسلمان ریاستوں کے خلاف لڑنے کے لیے اُکسایا ۔ دو بڑی طاقتوں (عثمانی خلافت اور صفوی ریاست) کے درمیان کردستان کی پہلی بار تقسیم کے بعد ان دو حکومتوں کے درمیان ہمیشہ جنگیں ہوتی رہیں۔1514ء کو ’’جالدیران‘‘ جھڑپ کے بعد متعدد جنگیں لڑی گئیں جو تین صدیوں تک جاری رہیں۔ کرد عوام ان لڑائیوں کے ایندھن بنے رہے۔اس کے علاوہ کردستان کی دوسری تقسیم جو ’’سائیکس۔ پیکوٹ 1916ئ‘‘ معاہدے کے نتیجے میں ممکن ہوئی کرد قوم مزید تتر بتر ہوگئی اور اہلِ مغرب کاٹارچر، جبری جلاوطنی اور تشدد کرد قوم پر پہلے سے زیادہ تیز ہوگیا۔</p>
<p style=”text-align: right;”>سائیکس پیکوٹ معاہدے کے بعد کردستان کا مستقبل مکمل طور پر تاریک ہوگیا تھا۔ عثمانی خلافت کے زیر اثر کردستان تین حصوں میں بٹ گیا، تاریخی کردستان کا سب سے بڑا حصہ ترکی کے ساتھ ملحق ہوا، اس کا کل رقبہ دو لاکھ تیس ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ دوسرا حصہ عراق کے حصے میں آگیا جس کا رقبہ 80 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ سب سے چھوٹا حصہ شام کے ساتھ ملحق ہوا۔ جبکہ ایرانی کردستان ’’جالدیران‘‘ معرکے کے بعد سے ایران کے قبضے میں چلا گیا۔ ایرانی کردستان کا کل رقبہ تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ کردی بولنے والوں کا خطہ برطانیا، ہالینڈ، بلجیم، سوئٹزرلینڈ اور ڈنمارک کے کل رقبہ سے بھی زیادہ ہے لیکن اِس کے باوجود جدید دنیا نے کبھی کرد قوم کوکسی ایک جگہ سکون سے رہنے نہ دیا ۔ یہ کرد ہی تھے جنہیں سب سے پہلے صدام حسین کی فوج کے ساتھ لڑایا گیا پھر انہیں شام میں بشارالاسد سے نبرد آزما ہونے کے لیے اُتار دیا گیا ۔ جبکہ کرد قوم کو ترکی کو کمزور کرنے کے لیئے بھی مسلسل استعمال کیا جاتا رہا۔</p>
<p style=”text-align: right;”>طیب اردگان نے کرد قوم کے مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے لیے پختہ عہد کرلیا ہے اور طیب اردگان کرد قوم کی ایک بہت بڑی قیادت کو اپنا ہمنوا بنا کر ترکی کی پارلیمنٹ میں عملی طور پر شامل کرنے میں کامیاب بھی ہوچکے ہیں ۔ جبکہ کرد قوم کو بھی طیب اردگان کے ساتھ اتحاد میں اپنی بقا نظر آنا شروع ہوگئی لیکن عالمی قوتیں کسی بھی صورت نہیں چاہتیں کرد قوم ایک بار پھر سے عالمِ اسلام کا دستِ بازو بنیں ۔ اَب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے ایام میں اس عالمی چومکھی لڑائی میں کون غالب آتا ہے ؟اگر فتح ترکی کے نصیب میں آئی تو ’’کرد کارڈ‘‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عالمی طاقتوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور کرد قوم ایک بار پھر سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں ہر اوّل دستہ کاکردار ادا کرنے کے قابل ہوجائے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭</p>


متعلقہ خبریں


ڈار اور ڈالر وجود - پیر 03 اکتوبر 2022

یہ جنوری 2014 کی ایک شام کی بات ہے کہ جناب شیخ رشید ، پاکستانی معیشت کے دگرگوں حالات پر کسی نجی چینل پرماہرانہ تبصرہ فرما تے ہوئے ، نواز شریف حکومت کی معاشی پالیسیوں اور اُس وقت کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی نالائقی کے بارے میں نت نئے انکشافات کررہے تھے۔ جب دوران ِ بات چیت پروگرام کے...

ڈار اور ڈالر

مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر