وجود

... loading ...

وجود
وجود

محتاط وزیر اعلیٰ اور مسائل کے انبار

اتوار 03 مارچ 2019 محتاط وزیر اعلیٰ اور مسائل کے انبار

بلوچستان کے وزیراعلیٰ بہت محتاط شخص ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ اپنی حکومت میں صوبے کی بہتری کے لیے بڑے پیمانے پر کام کریں۔ یقیناًوہ اس جانب بڑھنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال بھی کررہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وقت بھی دے رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی انقلابی اقدام اور تبدیلی تنہا کسی شخص کے بس و اختیار میں نہیں ہے۔اس مقصد کی خاطر ہمہ پہلو تعاون اور ہمرکابی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ جام کمال اپنی حکومت اور اتحادیوں سے مطمئن ہوں۔ مگر ماضی کا مشاہدہ سامنے ہے ، اور اب بھی اس ضمن میں اطمینان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حکومت کو حکومت والوں سے ہی بہت سارے مسائل کا سامنا ہے۔ اغلب ہے کہ ان رویوں کی وجہ سے جام کمال بھی مطلوب ہدف حاصل نہ کرپائیں۔ بہر حال ایسا بھی نہیں کہ حکومتیں مطلق ناکام ہوتی ہیں بلکہ ہر حکومت کی خامیوں کے ساتھ ان کے مثبت و قابل ستائش کام و اقدامات بھی ہوتے ہیں ۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ جام کمال محتاط انداز میں آہستگی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی کام اور منصوبہ عجلت و تیزی کی بجائے کافی سوچ و بچار کے بعد نہایت محتاط انداز میں آگے بڑھایا جائے۔ تاکہ اُن اُمور و منصوبوں کے ساتھ انصاف ہو اور حق پر پورا اُترا جائے۔ اس ذیل میں ان کے پیش نظر بد عنوانی کا عنصر اولیت رکھتا ہے، تاکہ صوبے کی ترقی اور عوام کے حقوق اس وباسے محفوظ کیے جائیں۔ ماضی میں یقیناًاس صوبے کے ساتھ بے انتہا نا انصافیاں ہوئی ہیں ۔ذات و خاندانوں کی آسائش و خوشی کی خاطر صوبے اور عوام کے مفاد پر ڈاکے ڈالے گئے ہیں، بد عنوانی اور غبن کے ریکارڈ قائم کیے گئے ہیں۔
صحافی دوست خلیل احمد نے 23 فروری کو اپنی نیوز اسٹوری میں لکھا ہے کہ پچھلے دس سالوں میں بد نصیب بلوچستان میں بد عنوانی اس دیدہ دلیری سے کی گئی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پچھلے دس سالوں میں بلوچستان میں تر قیاتی منصوبوں میں کھربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے ۔400 سے زائد ترقیاتی منصوبے محض کاغذوں میں مکمل ہیں، زمین پر ان منصوبوں کا وجود صرف 10سے 25 فیصدتک ہے۔ غیر معیاری میٹریل موجود ہیں لیکن عمارتوں کی چھتیں، دروازے ، باتھ روم ، الیکٹرک اور سینیٹری ورکس سمیت باقی سب کام باقی ہیں اور ٹھیکیداروں کو سو فیصد ادائیگیاں ہوچکی ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ دس سالوں کے دوران بلوچستان میں دو سو سے زائد چیک ڈیمز کیلئے وفاق نے اربوں روپے فراہم کیے۔ لیکن ان میں متعدد صرف کاغذوں تک محدود ہیں، زمین پر انکا کوئی وجود نہیں۔ اکثر ڈیمز کیلئے یہ بہانہ تراشا گیا کہ بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب میں یہ ڈیمز بہہ گئے ہیں۔ اس بہتی گنگا میں سابق دور کے وزراء ، ارکان اسمبلی ،بیوروکریسی اور مخصوص ٹھیکیدار مافیا نے خوب ہاتھ دھوئے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ تمام تر تحقیقات کا دائرہ کار ماضی کے منتخب نمائندوں تک محدود ہوجاتا ہے جس میں سے اکثر آج بھی حکومت کا حصہ ہیں اور انہی کے دباؤ کی وجہ سے وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کی سرگرمیاں محدود کردی گئی ہیں۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ اندرون بلوچستان تو بہت ہی برا حال ہے لیکن صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بھی وہ کچھ کیا گیا ہے جسے دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ کوئٹہ کے انتہائی اہم علاقے میں ایک عمارت کی تعمیر کی منظوری دی گئی اور اسکے لیے پانچ سال تک متواتر فنڈز بھی فراہم کیے جاتے رہے لیکن زمین پر اس عمارت کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹر سے ایڈوب پروگرام میں اس عمارت کی تصاویر بنائی جاتی رہیں اور اعلیٰ حکام کو انہی تصاویر پر بریفنگ دیکر مطمئن کیا جاتا رہا ہے۔اگر سی ایم آئی ٹی کی رپورٹس پر کارروائی کی جاتی ہے تو بلوچستان میں سیاسی اور انتظامی بحران پیدا ہوجائے گا اب دیکھنا ہوگاکہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اس طاقتور کرپٹ مافیا کیخلاف کارروائی کرنیکا کتنا اختیار رکھتے ہیں یا پھر ماضی کی طرح کرپشن کی یہ کہانیاں بھی فائلوں میں بند ہوکر ردی کی ٹوکریوں کی نذر ہوجائیں گی‘‘۔یہ تو محض ایک ادنیٰ نمونہ ہے،اگر بد عنوانی اور ظلم بازاری پر کام کیا جائے تو کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ کوئٹہ صوبے کا دار الخلافہ ہے کی بہتری اور ترقی کے نام پر ماضی میں کئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے۔ بھاری رقوم اس مقصد کی خاطر مختص ہوئیں ،مگر نتیجہ گویا صفر ہے ۔بلکہ شہر کی حالت دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے۔ شہر کے اندر بہتری کا کوئی نشان و پیش رفت ثابت نہیں کی جاسکتی۔ ہر چیز ہر مقام کی درگت بنی ہوئی ہے۔ کوئی شاہراہ و علاقہ صاف دکھائی نہیں دیتا۔ نالیاں تو گند و غلاظت سے اٹی پڑی ہیں۔ کئی شاہراہوں پر نالیاں سنگین حادثات کا باعث بن رہی ہیں۔ مین ہول کھلے پڑے ہیں۔ بارانی پانی کے اخراج کیلئے بنائی گئی زیر زمین نالیوں کے سیل جگہ جگہ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ بڑی گاڑیاں آئے روز ان میں گرجاتی ہیں۔ان منصوبوں کی تکمیل دو ارب اسی کروڑ کے سرمائے سے ہوئی ،جو مطلق ناکام و ناکارہ منصوبہ ۔ غرض کس کس پہلو کی نشاندہی کی جائے۔کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ صفائی برائے نام ہوتی ہے سڑکوں پر کچرا پڑا رہتا ہے۔اس ضمن میں شہری و تاجر بھی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے۔ سیاسی جماعتوں ،دوسری تنظیموں اور نجی اداروں وکاروباری طبقوں کی وجہ سے شہر کی عمارتیں اور دیواریں پوسٹروں اور وال چاکنگ سے بد نما و گندی ہیں۔ کوئی بھی کسی بھی وقت منہ اُٹھا کر عمارتوں پر پوسٹر لگاتا اور وال چاکنگ شروع کردیتا ہے۔ رہائشی علاقے دھڑا دھڑ کمرشل میں تبدیل ہورہے ہیں، کوئی ضابطہ نہ کوئی روکنے والا ہے۔آبادیاں بغیر ٹاؤن پلانگ کے تیزی سے بن رہی ہیں۔ یہ آبادیاں مزید شہری مسائل کا باعث بن رہی ہیں ۔ ان آبادیوں میں پرائمری اسکول تک نہیں۔ اب تو نکاسوں کا رواج بھی شروع ہوا ہے عمارت تعمیر کرتے وقت چار سے پانچ فٹ نکاسے نکالے جاتے ہیں، جس سے شاہراہیں تنگ ہوچکی ہیں۔ چھوٹی سڑکیں و گلیاں چھتوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ شہر کے اندر غیر قانونی گاڑیوں ، رکشوں کی بھر مار ہے ۔ موٹرسائیکلیں کسی حد میں نہیں رہیں ہر روز رکشوں اور موٹرسائیکلوں سے بھرے ٹرالر شہر میں داخل ہوتے ہیں، پوچھنے والا کوئی نہیں کہ آیا یہ رکشے اور موٹرسائیکلیں کس کی اجازت اور کس قانون کے تحت شہر کے اندر لائے جاتے ہیں۔شہر کی تباہی و بربادی کی پوری ایک تفصیل ہے جس کا احاطہ اس کالم میں کرنا ممکن نہیں۔ ایف سی کی تعیناتی کا بوجھ ویسے بھی صوبائی حکومت برداشت کررہی ہے کیوں نہ ایف سی کے ذمے چند مزید کام بھی لگائے جائیں۔ سردست ان سے غیر قانونی رکشوں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو تحویل میں لینے کا کام لیا جاسکتا ہے۔ چند دوسرے کام بھی لیے جاسکتے ہیں جو حکومت ،ضلعی انتظامیہ پولیس اور دوسرے محکمے و ادارے کرنے میں ناکام ہیں۔ جام کمال نے 13
فروری کو کوئٹہ پیکیج کے تحت منصوبوں کیلئے ایک ارب روپے کا اجراء کیا ہے ان میں سڑکوں کی کشادگی کیلئے اراضی کی خریداری اور بجلی کے کھمبوں کی منتقلی کا کام کیا جائیگا۔ کوئی بھی منصوبہ ہو وزیراعلیٰ اگرخود پر نگاہ رکھے تو اسے خرابیوں اور بد عنوانی کے ناسور سے بچایا جاسکتا ہے۔
اور اس ضمن میں کوتاہی و بد عنوانی پر گرفت بھی بروقت ہونی چاہیے۔ اہل اور دیانتدار افسران سے کام لیا جائے۔ بد عنوان لوگوں کو شہر اور شہریوں کے مفاد کے منصوبوں کے قریب بھی نہ بھٹکنے دیا جائے۔ 13 ؍فروری کو اعلامیہ جاری ہوا کہ حکومت نے ایسے افسران کے خلاف بیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے جو نیب ریفرنسز میں سزا یافتہ ہیں یا اس وقت ضمانت پر رہا ہیں یا جنہوں نے نیب سے پلی بارگین کر رکھی ہے،ان کے خلاف انضباطی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ اقدام خوش آئند ہے، ایسے کئی افسران اہم ذمہ داریوں پر موجود ہیں جو نیب کی گرفت میں آئے ہیں یا جن پر احتساب عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔ الغرض کوئٹہ پیکیج کے تحت رقم شہر پر نہیں لگی ہے ،محض لیپا پوتی کی گئی ہے۔ چنانچہ کوئٹہ ہمہ پہلو توجہ کا متقاضی ہے، اس شہر کو مزید بر بادی سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جام کمال ایک مربوط و سخت راہ عمل و حکمت عملی وضع کریں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر