وجود

... loading ...

وجود
وجود

خونِ مسلم کے پیاسے رہزن

جمعه 13 اپریل 2018 خونِ مسلم کے پیاسے رہزن

روئے زمین پر دستیاب اشیاء میں سب سے سستی چیز خونِ مسلم ہے۔مسلمان کو ہر مسلم اور غیر مسلم ملک میں مختلف ناموں پر اتنی بڑی تعداد میں قتل کیا جا رہا ہے گویاکہ مسلمان انسان نہیں کوئی جانورہے جبکہ جدید دنیا میں جانوروں کے بھی حقوق تسلیم کئے جانے کے بعد انہیں تحفظ حاصل ہے ۔ خودبھارت میں وحشی جانوروں کے تحفظ کے لیے اتنے سخت قوانین ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی انسان پر بھی حملہ کرتا ہے اور وہ اپنے تحفظ کے لیے وحشی جانور کو مارتا ہے تو مارنے والے کے خلاف کیس درج کیا جاتا ہے اور اس کو جیل بھیجنے کا بھی قانون موجود ہے ۔

مگر مسلمان اس وحشی جانور سے بھی کم قیمت ہے کہ جب جو چاہتا ہے اس کو وہاں انگریزی کے مشہور ضرب المثل Give a bad name to the dog and kill himکے اصول کے تحت برانام دیکر بغیر کسی پریشانی کے قتل کیاجاتاہے۔برما،کشمیر،پاکستان،افغانستان،شام،عراق،صومالیہ،فلسطین،سوڈان اور یمن اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔رہی انسانیت وہ مر چکی ہے اوررہا عالم اسلام وہ بہت پہلے کبھی تھا اب نہیں ہے وہ بغیر غیرت و حمیت کے ایک لاشہ ہے جس کو بے حس و حرکت وجود ماننے کے باجود ذلتناک طریقوں سے عالمی سطح پر تماشا بنایا جا رہا ہے اور اس میں سب سے قابل نفرت رول امریکہ اور اسرائیل کا ہے ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سفاک امریکیوں نے صوبہ قندوز کے ضلع دشت آرچی کے پھٹان بازار کے علاقے میں واقع دینی مدرسے دارالعلوم ہاشمیہ پر2اپریل 2018ء سوموار کے دن دوپہر کے وقت ایسے وقت میں فضائی بمباری کی جب مدرسے میں علاقے کے علماء کرام، مدرسین اور قبائلی عمائدین سمیت ہزاروں لوگ حفاظ کرام کی دستار بندی اور تقسیم اسنادکی مناسبت سے ایک تقریب میں شریک تھے۔جس کے نتیجے میں 150 سے زائد نہتے افراد شہید ہوئے۔وحشی امریکیوں نے اس سے قبل بھی کسی قسم کی وحشت و بربریت برپا کرنے میں کوئی تردد محسوس نہیں کیاہے مگر یہ اپنی نوعیت کا سب سے المناک واقعہ ہے۔

مذہبی تقریب پراس قدر شدید بمباری کی گئی کہ اس کے نتیجے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق ڈیڑھ سو سے زائد علماء کرام، حافظ قرآن بچے ، اور عام شہری شہید جبکہ سینکڑوں زخمی ابھی زیر علاج ہیں ۔وحشی امریکیوں نے یہ دعویٰ کیا کہ مدرسے میں افغان طالبان کے رہنما ء اور شوریٰ کے اراکین موجود تھے۔جو بالکل من گھڑت اور بے بنیادثابت ہوا ہے۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل انتظامیہ کی وزارت دفاع کے اس دعوے کی شدیدالفاظ میں تردیدکرتے ہو ئے کہا کہ قندوز میں ہونے والے فضائی حملے میں مجاہدین نہیں بلکہ افغان علماء اور حفاظِ کرام شہید ہوئے ہیں۔ مجاہدذبیح اللہ نے کہا کہ وحشی دشمن کا دعویٰ بے بنیاد اور افغان عوام کی آنکھوں میں خاک پاشی کے مترادف ہے۔موصوف نے اپنی ٹویٹر اکاونٹ میں لکھا کہ جرائم پیشہ دشمن اس طرح کے دعوے کر کے اپنے جرائم کو چھپا نے کی ناکام کوشش کرتا ہے ،مگر اہلیان قندوز گواہ ہیں کہ وحشتاک فضائی حملہ ایک دینی مدرسے میں قرآن کریم کے حفاظ کرام کی دستار فضلیت کی تقریب پر کیا گیانہ کہ مجاہدین پر۔مجاہد ذبیح اللہ کا کہنا تھا کہ مجاہدین ڈسپلن کے پابند ہیں اور مجاہدین خاص کر ذمہ دار حضرات سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے کسی بھی صورت میں اس طرح کی عظیم الشان تقریبات میں شرکت نہیں کرتے ہیں۔

دوسری جانب بی بی سی کے مطابق جمعہ کے روز 7اپریل 2018ء کوفلسطین کے محکمہ صحت کا کہنا تھا کہ مظاہرین اور اسرائیلی فورسز کے درمیان غزہ اور اسرائیل کی سرحد پر جھڑپوں کے نتیجے میں مزید دس فلسطینی جاں بحق ہو ئے ہیں۔حکام نے تیرہ سو سے زیادہ افراد کے زخمی ہونے کی بھی تصدیق کی ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے مظاہرین پر گولی اس وقت چلائی جب انھوں نے سرحد کی خلاف ورزی کی۔خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے اسی طرح کی جھڑپوں میں 16 افراد مارے جا چکے ہیں۔فلسطینی وزارت صحت نے تصدیق کی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں غزہ سے تعلق رکھنے والے صحافی یاسر مرتضی بھی شامل ہیں۔جمعے کو ہزاروں مظاہرین اسرائیل اور غزہ کے 65 کلومیٹر طویل باڈر کے پانچ مقامات پر اکھٹے ہوئے۔ مظاہرین نے بڑی تعداد میں ان مقامات پر ٹائر جلائے تاکہ اس کے دھویں سے سرحد پار موجود اسرائیلی فوجی انھیں باآسانی نشانہ نہ بنا سکیں۔مگر اس کے باوجود اسرائیلی فوجیں نے پہلے سولہ جبکہ تازہ ترین واقعات میں دس فلسطینیوں کو قتل کردیا۔

تیسری طرف کشمیرکے دو اضلاع شوپیاں اور اسلام آبادمیں اپریل کی پہلی ہی تاریخ کودو الگ الگ جھڑپوں کے دوران 12عسکری نوجوانوں کے علاوہ 4عام شہری جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہو ئے ہیں ۔ ضلع شوپیاں میں 1ا پریل کو درگڈ علاقے میں شبانہ جھڑپ کے دوران 7عساکر جان بحق ہوئے،اور اس دوران2مکانات کو بھی نقصانپہنچا۔ذرائع کے مطابق رات کے تین بجے طرفین میں جھڑپ ہوئی جو اتوار صبح دس بجے تک جاری رہی۔پولیس کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند علاقے میںتین بھائیوں کے مکانوں میں چھپے ہوئے تھے،جن میں ایک پولیس افسر کا مکان بھی شامل تھا۔ 6بجکر30منٹ پر عسکریت پسند مکان سے باہر آئے اور نزدیکی باغ میں داخل ہوئے،جہاں سے انہوں نے محاذ سنبھالتے ہوئے فوج پر فائرنگ شروع کردی۔

اس دوران جھڑپ میں 7 مقامی مجاہدین شہید ہو ئے جن کی شناخت حزب المجاہدین کے زبیر احمد ترے شوپیان، اشفاق احمد ملک پنجورہ،یاور ایتو ساکن صف نگری،ناظم نذیر ڈار ساکن ناگہ بل امام صاحب،عادل احمد ٹھوکر،عبیدشفیع ملہ ساکن ترنج اور رئیس احمد ٹھوکر ساکن مل ڈیرہ کے بطور ہوئیں۔ یہ تمام نوجوان شوپیاں کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔میڈیا ذرائع کے مطابق یہ جھڑپ جہاں ہوئی اس کے نزدیک مشتاق احمد ٹھوکر نامی ایک شہری کوبھی اپنے ہی مکان کے اندر گولی لگی اوروہ موقع پر ہی جاں بحق ہوا۔ (جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر