وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا اس حمام میںسبھی ننگے ہیں؟

بدھ 07 مارچ 2018 کیا اس حمام میںسبھی ننگے ہیں؟

سینیٹ کی 52نشستوں کے انتخابات مکمل ہو چکے مگر کرپشن کی مُحیر العقول کہانیاں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتیں اور یہ ہمارے سیاسی جوہڑ کے انمٹ قصے بن چکے ہیں ،خود عمران خان فرماتے ہیں کہ انہیں ایک سیٹ کے لیے40کروڑ روپوں کی پیشکش کی گئی یہ تو عذر گناہ بدتراز گنا ہ کا روگ لگتا ہے، جب انہوں نے خود ہی ارب پتی امیدواروں کو کے پی کے میں ٹکٹ بانٹے تھے تو اب اس کے جیتنے والے پانچ ممبران سینیٹ بھی ان کے ہی صوبائی ممبرز کو”مکمل خوش ” کیے بغیر کیسے ووٹ لے سکتے تھے یہاںتک کہ آخری سینیٹ انتخاب کے لیے بلوائے گئے صوبائی ممبران کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے61میں سے صرف44ممبران موجود تھے تو بقیہ کیا شام غریباں منانے گئے ہو ئے تھے ؟یا پھر ” مال متال” اکٹھا کرکے سہانی راتیں گزارنے میں مصروف تھے ۔ اس طرح ان کا ایک مزید ممبر کا منتخب نہ ہو سکنا واضح طور پر بتا تا ہے کہ اس کے ممبران اسمبلی ہی اس کی موجودگی کے باوجود اپنی قیمت لگواکر منہ سیاہ کرگئے۔

اسی طرح کے پی کے میں صرف 7ممبران اسمبلی رکھنے کے باوجود پی پی پی دو ممبران سینیٹ کیسے منتخب کروانے میں کامیاب ہو گئی؟ مکمل واضح ہے کہ یہ صرف “زرداری کا کمال”ہے اور ان کا”خفیہ کرشمہ “ہی سنا جارہا ہے کہ ایک ایک ووٹ کے لیے کروڑوں کی رقوم بانٹی گئیںاور تو اور ن لیگ کے ممبران اسمبلی بھی کم تھے مگر وہ بھی کے پی کے میں سینیٹ کی دو سیٹیں” دھاڑا ماشا “فرما کر لے اڑے ۔پنجاب میں جہاں صرف ن لیگ کے ہی حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوسکتے تھے مگر سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور نے پی ٹی آئی کی ٹکٹ برائے سینیٹ حاصل کرتے ہی “جوڑ توڑ کا کمال “دکھا دیا۔ راوی بتاتے ہیں کہ ان کا لندن میں اربوں ڈالرز کا کاروبار ہے اور ان کے لیے ایک سیٹ جیت جانامعمولی بات تھی تیس ممبران پی ٹی آئی کے ہیں انہوں نے سب سے زائد یعنی44ووٹ حاصل کرلیے یہ ان کی “ماورائی شخصیت” اور “سرمایہ کا چھو منتر “نہیں تو اور کیا ہوسکتا ہے؟ کمال تو یہ ہے کہ پی پی پی کے آٹھ ممبران اسمبلی بھی” خفیہ طور پر “ووٹ ڈال گئے اور ن لیگیوںمیں سے بھی کئی ایک “دیہاڑیاں ” لگا گئے بحر حال یہ چوہدری سرور کا ہی کمال تھا جس نے ن لیگ کو یہاں ایک سیٹ نکال کر چاروں شانے چت کر ڈالا کہ ابھی تک ان کے ممبران کا رونا دھونا ختم نہیں ہو رہا۔

فاٹا کے چار آزاد امیدواران تو ہر دفعہ اربوں کا کھیل کھیلتے ہیں جسے کوئی انتظامی طاقت روک نہیں سکتی کہ” میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی ” کی طرح وہاں تو بڑے نوٹ ترازو میں تول کر کام دکھاتے ہیںاور یہ سب اس وقت تک جاری رہے گا جب تک الیکشن کمیشن ہی انتخابی طریق کارکوشوآف ہینڈ سے تبدیل نہیں کر ڈالتا مگرہر دفعہ تنقید کیے جانے کے باوجود انتخابی عمل میں کوئی تبدیلی نہ کرسکنا بھی اندرون خانہ الیکشن کمیشن پر بھی سوال چھوڑ جاتا ہے کہ “چور چوری کر ہی نہیںسکتا جب تک اس میں تھانیدار کا حصہ نہ ہو”کے مصداق یہاں بھی انتخابی طریق کار میں کوئی تبدیلی نہ ہو سکنے کی وجہ بھی “چمک “کا شور و غوغانظر آتی ہے ۔

سندھ میں تو زرداری صاحب حکمران تھے وزیر اعلیٰ ہائوس ہی میں ایم کیو ایم کی خواتین مہمان بن بیٹھیں کہ کوئی کسی عورت کو اغوا کرکے نہیں لے جاسکتاجب تک کہ اس کی اپنی مرضی اس میں شامل نہ ہو پھر ایم کیو ایم جو کہ کم ازکم چار سیٹیں جیتنے کی دعویدار تھی وہ صرف ایک سیٹ ہی چھ بارووٹوں کی گنتیاں کروانے کے بعد جیت پائی ہے اور فنکشنل لیگ کا واحد ممبر سینیٹ بھی سندھ سے منتخب ہو نا پیرا پگاڑا کی کرشماتی شخصیت کی بدولت ممکن ہو ا مگر کوئی گھر میں آتے مال کو کیسے ٹال سکتا ہے کہ آجکل سیاست صرف پیسے کمانے کا ہی واحد “باعزت کاروبار” بن چکا ہے ایم کیو ایم کے نام نہاد نظریاتی ایم پی اے کاغذی جہازوں کے پتنگوں کی طرح اڑتے نظر آئے سب کچھ کرنے کے باوجود ان کے لیڈرز سرمایوں کی ہوائوں میں اڑتی ان کی پتنگوں کو نیچے نہ اتار سکے کہ بالا پروازوں پر اڑنے کے لیے ان کی ڈوروں میں اصل مانجھا لگ چکا تھا بحر حال جس نے مال زیادہ لگایا”اس بازار “کی مٹیار کی طرح اسی پیا کو وہ سدھا ر گئی ۔

زرداری صاحب کی پارٹی نے کھل کر”کھیل تماشا” کھیلا اور بھرپور کوشش کی اس لیے وہی “کامیاب خریدار” ٹھہرے۔ دوسرے بھی کم نہ رہے مگر چمپئن شپ زرداری سب پر بھاری کی طرح انہی کے ہاتھ رہی کہ انہوں نے قطعاً “کفایت شعاری “سے کام نہ لیا ۔بلوچستان اسمبلی کے قصے کہانیاں سنیں تو ہاتھ کانوں کو لگانے پڑتے ہیں غرضیکہ اب جیتنے والے “کھلاڑی” کس طر ح اربوں روپے جلد ازجلد پورے کریں گے یہ انہی کا کمال ہو گا کہ وہ مال گھسیٹنے کے فن سے بخوبی واقف ہو ں گے کہ کوئی سوداگر گھاٹے کا سودا کبھی نہیںخریدتا۔

نتیجتاً ن لیگ33،پی پی 20،پی ٹی آئی12سیٹیں حاصل کرسکی ہے اور تینوں ہی سینیٹ کی چیئر مین اور وائس چیئر مین شپ ہتھیانے کے لیے انہوں نے دوبارہ گھوڑے بحر ظلمات میں دوڑادیے ہیں ،اس گھوڑا گدھا ٹریڈنگ میں کون کامیاب ٹھہرتا ہے وہ وقت ہی بتائے گا،مگر یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ بھاری رقوم لگا کر جیتنے والے اب بغیر منافع کے ووٹ دیں یہ سرمایہ کے دنیاوی اصولوں کے خلاف ہو گاگھمسان کا رن پڑے گا اور کھلم کھلا بولیاں لگیں گی سرمایہ دارانہ ناسور کی جنگ میں کون کامیاب ٹھہرتا ہے؟ وہ مستقبل میں پتا چل سکے گا بحر حال ہمارے غلیظ سیاسی جوہڑ میں سبھی راہنمایان ڈبکیاں لگاتے نظر آتے ہیں کہ”جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا”کی طرح مال اِدھر اُدھر خفیہ ہی ہو گا اور ان رازوں کی کہانیاں آہستہ آہستہ مستقبل قریب میں کھلتی رہیں گی مگر سکہ بند کھلاڑی مقتدر ہو چکے ہوں گے اور ہم اور آپ ان کا کچھ بھی تو بگاڑ نہ سکیں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر