وجود

... loading ...

وجود
وجود

سنگین غداری کیس حکومت اور عدلیہ کے لیے چیلنج

هفته 03 مارچ 2018 سنگین غداری کیس حکومت اور عدلیہ کے لیے چیلنج

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت سنگین غداری کے کیس کی سماعت کے لیے 8 مارچ کی تاریخ مقرر کر دی گئی ہے، اس کیس کی سماعت جسٹس یحیٰی آفریدی کی سربراہی میں سہ رکنی خصوصی عدالت اسلام آباد میں وفاقی شرعی عدالت کی بلڈنگ میں کرے گی جس کے لیے بیگم صہبا مشرف اور دوسرے فریقین بشمول متعلقہ اداروں کو نوٹس جاری کر دئیے گئے ہیں۔ اس کیس کے حوالے سے رجسٹرار خصوصی عدالت نے چیف کمشنر اسلام آباد اور آئی جی پولیس اسلام آباد کو خصوصی سکیورٹی انتظامات اور ملزم پرویز مشرف کو ان کی پیشی کے وقت فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے مراسلہ بھجوا دیا ہے۔ اس کیس کی آخری سماعت مئی 2017ء کو ہوئی تھی جب پرویز مشرف کی اہلیہ صہبا مشرف اور ان کی بیٹی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ تمام پراپرٹی اور بنک اکائونٹس مشرف کے نام نہیں ہیں اس لیے عدالت ان کی پراپرٹی قرق نہ کرے اور ان کے منجمد کیے گئے بنک اکائونٹس ڈی فریز کرنے کے احکام صادر کرے۔ عدالت نے ان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے متعلقہ اداروں اور ایف آئی اے کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی اور اس معاملہ میں ہونے والی پیش رفت کی رپورٹ طلب کی تھی۔ آخری تاریخ سماعت پر مشرف اور ان کی اہلیہ کے وکلا نے بتایا تھا کہ مشرف ملک واپس آنا چاہتے ہیں بشرطیکہ انہیں فول پروف سکیورٹی فراہم کر دی جائے، اس حوالے سے رجسٹرار خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی عدالت میں پیشی کو یقینی بنانے کے لیے گزشتہ روز چیف کمشنر اور آئی جی پولیس اسلام آباد مراسلہ بھجوا دیا ہے۔ مقررہ تاریخ سماعت پر مشرف کی جائیداد ضبط کرنے کے عدالتی حکم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی جائے گی۔

سابق صدر جنرل (ر) مشرف کے خلاف ملک میں 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی لگانے اور دوسرے غیر قانونی اقدامات بشمول پی سی او نافذ کرنے کے خلاف وفاقی حکومت کے ایما پر آئین کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا جس میں ان پر فرد جرم بھی عائد کر دی گئی تاہم اس کے بعد مشرف بیرون ملک چلے گئے۔ انہیں عدالت میں پیش ہونے کا حکم صادر کیا گیا اور ان کی عدم پیشی کے باعث خصوصی عدالت نے انہیں مفرور قرار دے کر ان کی جائیداد بحق سرکار ضبط کرنے کے احکام صادر کیے۔ مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کے لیے مسٹر جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس سائرہ بتول اور جسٹس یاور علی پر مشتمل سہ رکنی بنچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم اب مسٹر جسٹس یاور علی کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے منصب پر فائز ہونے کے باعث بنچ کے تیسرے فاضل رکن کی نامزدگی وفاقی وزارت داخلہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی مشاورت سے کرے گی۔ غداری کیس میں سینئر ایڈووکیٹ محمد اکرم شیخ بطور سپیشل پبلک پراسیکیوٹر پیش ہو رہے ہیں، مشرف کے خلاف زیر سماعت آئین سے غداری کا یہ کیس اس حوالے سے عدلیہ اور حکومت کے لیے ایک چیلنج کیس ہے کہ ماورائے آئین اقدام کے تحت آئین کو توڑنے اور منتخب پارلیمنٹ کو گھر بھجوانے والے کسی جرنیلی آمر کو آج تک قانون و انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا، اس تناظر میں پرویز مشرف وہ واحد بقید حیات جرنیل ہیں جو آئین کی دفعہ 6 کے خلاف اقدام اٹھانے پر قانون کے شکنجے میں آئے ہیں۔ اس حوالے سے مشرف کو آئین و قانون کی عملداری کی زد میں لانا موجودہ حکومت کا بڑا کارنامہ ہے ۔ چونکہ مشرف کو پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں پروٹوکول دے کر ملک سے باہر جانے کی سہولت فراہم کی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے مشرف کو شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا قاتل قرار دینے کے باوجود ان کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی تھی جس پر میاں نواز شریف کو پیپلز پارٹی کے خلاف پوائنٹ ا سکورنگ کی سیاست کا موقع ملا اور جب وہ اقتدار میں آئے تو اسی بنیاد پر مشرف کے خلاف کارروائی کے لیے ان کی آزمائش شروع ہو گئی جس کا ان سے پیپلز پارٹی کی جانب سے اس بنیاد پر تقاضہ شروع ہوا کہ مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کی حکومت اور اسمبلی کو توڑ کر ہی آئین کی دفعہ 6 کے زمرے میں آنے والے غداری کے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔

میاں نواز شریف نے اپنے اقتدار کا پہلا سال مشرف کے خلاف کیس کے حوالے سے وکلا سے مشاورت میں گزار دیا اور جب ان کے خلاف آئین کی دفعہ 6 کا کیس بنانے کی نوبت آئی تو یہ کیس ان کے 12 اکتوبر 1999ء والے ماورائے آئین اقدام کے بجائے 3 نومبر 2007ء کے پی سی او اور ایمرجنسی کے نفاذ والے اقدام کے خلاف تیار کیا گیا جس کے بارے میں آئینی ماہرین کا خیال تھا کہ میاں نواز شریف نے مشرف سے ذاتی انتقام لینے کے الزامات سے بچنے کے لیے ان کے 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کو کیس کی بنیاد نہیں بنایا تاہم اس سے کیس کی بنیاد ہی کمزور رکھ دی گئی ہے اس لیے مشرف کو آئین سے غداری کی موت کی سزا تک لے جانا شاید ممکن نہیں ہو گا۔ اس وقت مزید دلچسپ صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ اس کیس کی سماعت کے لیے اعلیٰ عدلیہ کا بنچ تشکیل دلانے کی خاطر وفاقی وزارت قانون نے اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری سے تحریری طور پر رجوع کیا جو خود بھی مشرف کے 9 مارچ 2007ء کے اقدام کی بھینٹ چڑھ کر بطور چیف جسٹس معطل ہوئے تھے اور پھر مشرف کے 3 نومبر 2007ء کے اقدام کے تحت ان کے سمیت پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹوں کے تمام فاضل ججوں کو گھروں پر نظربند کر دیا گیا تھا، اس طرح مشرف کے آئین سے غداری والے جرم کے معاملہ میں جسٹس افتخار چودھری سے انصاف ملنے کی زیادہ توقع تھی تاہم انہوں نے بھی ذاتی انتقامی کارروائی کے الزام سے بچنے کے لیے خود اس کیس کی سماعت کرنے کے بجائے خصوصی بنچ کی تشکیل کے لیے وفاقی حکومت سے نام طلب کر لیے چنانچہ اس پراسس میں موجودہ حکومت کا مزید ایک سال گزر گیا۔

جب اس کیس کی سماعت کے لیے تشکیل دئیے گئے خصوصی بنچ کے روبرو کیس کی سماعت کی نوبت آئی تو اس وقت تک مشرف کے خلاف نواب اکبر بگٹی اور بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمات بھی دائر ہو چکے تھے چنانچہ ان تمام مقدمات کی بیک وقت سماعت شروع ہونے کے باعث غداری کیس میں بھی تاریخیں پڑنے لگیں اور اس دوران وفاقی حکومت کے مقرر کردہ ا سپیشل پبلک پراسیکیوٹر محمد اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے یہ موقف بھی اختیار کر لیا کہ مشرف کے خلاف یہ کیس غداری کا نہیں بلکہ آئین سے انحراف کا کیس ہے جس سے یہ عندیہ ملا کہ حکومت انہیں آئین کی دفعہ 6 کے تحت غداری کے جرم کی اصل سزا نہیں دلانا چاہتی، جب اس کیس میں مشرف پر فرد جرم عائد ہو گئی تو انہیں مختلف جسمانی عوارض لاحق ہو گئے جن کی میڈیکل رپورٹیں عدالت میں پیش کرکے حاضری سے استثنیٰ لیا جاتا رہا اور پھر ایک میڈیکل رپورٹ میں ان کا مرض پاکستان میں لاعلاج قرار دے کر عدالت سے علاج کے لیے انہیں بیرون ملک بھجوانے کی استدعا کی گئی اور انہیں بیرون ملک لے جانے کے لیے ائر ایمبولنس کا بھی اہتمام کر دیا گیا۔ اس میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر عدالت نے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی جبکہ عدالتی احکام کی بنیاد پر وفاقی وزارت داخلہ نے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا چنانچہ اسی روز وہ بیرون ملک روانہ ہو گئے جس کے بعد اب تک ان کی ملک واپسی ممکن نہیں ہو سکی اور وہ لندن اور دبئی میں مختلف تقریبات میں موج مستی کرتے نظر آتے رہے ہیں۔

اس مسئلہ پر آئینی، قانونی اور عوامی حلقوں میں یہ تبصرے بھی زیر گردش رہے کہ مشرف کو مقتدر حلقوں کی مداخلت پر ملک سے باہر بھجوایا گیا ہے تاہم جب میاں نواز شریف اور ان کے اہلخانہ پانامہ لیکس کیس کی زد میں آئے تو انہوں نے اس حوالے سے عدلیہ کو مطعون کرنا شروع کر دیا کہ انصاف کی عملداری کے نام پر انہیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ آئین کی دفعہ 6 کے سنگین جرم کے ملزم مشرف کو پاکستان واپس لا کر ان کے خلاف کیس چلانے کی کسی کو جرات نہیں ہو رہی، یہی الزام بعدازاں پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے بھی عائد کیا جانے لگا اور اس سلسلہ میں ریلوے اراضی سکینڈل میں ملوث سابق اعلیٰ فوجی حکام بشمول جنرل جاوید اشرف قاضی، سعیدالظفر، حامد علی اور اختر علی کے نام بھی انصاف کی عملداری کے حوالے سے زیر گردش آنے لگے۔ گزشتہ روز چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے بھی کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس امر کا تقاضہ کیا ہے کہ احتساب صرف سیاستدانوں کا نہیں بلکہ ملٹری اور عدلیہ کا بھی ہونا چاہئے اور اس کے لیے نیب کی ازسرنو تشکیل کی جائے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم نے کرپشن فری معاشرے کی بنیاد رکھنی ہے تو پھر بلاامتیاز اور بے لاگ احتساب کا عمل شروع کرنا ہو گا جس میں کسی کے خلاف انتقامی کارروائی کا شائبہ بھی نہیں گزرنا چاہئے۔ چونکہ مشرف کے خلاف گزشتہ اڑھائی سال سے غداری کیس کی سماعت زیر التوا پڑی تھی اور اسی طرح اراضی سیکنڈل میں ملوث سابق فوجی حکام کی بھی اب تک قانون کے کٹہرے میں آنے کی نوبت نہیں آئی تھی اس لیے پانامہ کیس میں نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور حکمران مسلم لیگ (ن) کے دوسرے قائدین کو انصاف کی عملداری پر انتقامی کارروائی کا الزام لگانے کا موقع ملا جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی اپنے مقاصد کے تحت اس پر سیاست شروع کر دی۔ اب خصوصی عدالت میں مشرف غداری کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہو رہی ہے اور نیب کی درخواست پر ریلوے اراضی سیکنڈل میں ملوث سابق فوجی حکام کے نام بھی ای سی ایل میں شامل کر لیے گئے ہیں تو اب بادی النظر میں سب کے لیے بے لاگ احتساب اور ان پر انصاف کی عملداری کا پراسس شروع ہو گیا ہے۔ اس وقت مشرف کو ملک واپس لانا حکومت اور عدالت دونوں کے لیے بڑا چیلنج ہے جس کے لیے خصوصی عدالت نے مشرف کی فول پروف سکیورٹی کے انتظامات بھی کرا لیے ہیں۔ یہ امر واقع ہے کہ مشرف کی ملک واپسی سے ہی انصاف کی بے لاگ عملداری کا تصور پختہ ہو گا بصورت دیگر پانامہ لیکس جیسے سیاسی بنیادوں پر قائم مقدمات کے حوالے سے انتقامی کارروائیوں کے الزامات سے بچنا بہت مشکل ہو گا۔ مشرف کیس کو بہرصورت منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہئے تاکہ ماورائے آئین اقدامات کے لیے ہوتی موجودہ سازگار فضا سے بھی کسی کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔


متعلقہ خبریں


تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان نے خلائی تحقیق کے میدان میں اہم سنگ میل عبور کرلیا، تاریخی خلائی مشن ’آئی کیوب قمر‘چین کے وینچینگ خلائی سینٹر سے روانہ ہو گیا جس کے بعد پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن گیا ہے ۔سیٹلائٹ آئی کیوب قمر جمعہ کو2 بجکر 27 منٹ پر روانہ ہوا، جسے چینی میڈیا ...

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے عدالتوں سے ان کے مقدمات کے فیصلے فوری طور پر سنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل سے اہم پیغام میں کہا ہے کہ میں اپنے تمام مقدمات س...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ بس مجھے قتل کرنا رہ گیا ہے لیکن میں مرنے سے نہیں ڈرتا، غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔برطانوی جریدے دی ٹیلی گراف کے لیے جیل سے خصوصی طور پر لکھی گئی اپنی تحریر میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آج پاکستانی ریاست اور اس کے عوام ایک دوسرے...

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ وجود - هفته 04 مئی 2024

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں کیوں دفتر نہیں کھولتے ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں دفاتر کھولنے چاہئی...

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق وجود - هفته 04 مئی 2024

یوم صحافت پر خضدار میں دھماکا، صحافی صدیق مینگل سمیت 3 افراد جاں بحق ہوگئے ۔پولیس کے مطابق خضدار میں قومی شاہراہ پر سلطان ابراہیم خان روڈ پر ریموٹ کنٹرول دھماکے سے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ایس ایچ او خضدار سٹی کے مطابق ریموٹ کنٹرول دھماکے میں ایک شخص جاں بحق اور 10 افراد زخمی ...

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ وجود - جمعه 03 مئی 2024

ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ پر سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے ۔پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جاتا ہے اور اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالان...

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ

رینجرز تعیناتی کی مدت میں 180 دن کا اضافہ، سندھ کابینہ کی منظوری وجود - جمعه 03 مئی 2024

سندھ کابینہ نے رینجرز کی کراچی میں تعیناتی کی مدت میں 180 دن کے اضافے کی منظوری دے دی۔ترجمان حکومت سندھ نے بتایا کہ رینجرز کی کراچی میں تعیناتی 13 جون 2024 سے 9 دسمبر 2024 تک ہے ، جس دوران رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت اختیارات حاصل رہیں گے ۔کابینہ نے گزشتہ کابینہ ا...

رینجرز تعیناتی کی مدت میں 180 دن کا اضافہ، سندھ کابینہ کی منظوری

انتخابی حربے، مودی کی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی وجود - جمعه 03 مئی 2024

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انتخابات میں کامیابی کے لیے بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی دے رہے ہیں ۔ دی وائر کے مطابق بی جے پی نے آفیشل انسٹاگرام ہینڈل کے ذریعے مودی کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں مودی کہتے ہیں کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ہندؤں کی جائیداد اور دولت م...

انتخابی حربے، مودی کی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی

نیتن یاہو کا جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار وجود - جمعه 03 مئی 2024

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کسی بھی صورت غزہ میں جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا معاہدہ تسلیم نہیں جس میں جنگ کا خاتمہ شامل ہو۔اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ ...

نیتن یاہو کا جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار

جمعیت علماء اسلام کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی وجود - جمعه 03 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر شرقی نے بتایا کہ جے یو آئی کو ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ پر جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر بڑے عوامی اجت...

جمعیت علماء اسلام کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی وجود - جمعرات 02 مئی 2024

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کوئی بات ہوگی تو سب کے سامنے ہوگی اور کوئی بات چیت کسی سے چھپ کر نہیں ہوگی،بانی پی ٹی آئی نے نہ کبھی ڈیل کی ہے اور نہ ڈیل کے حق میں ہیں، یہ نہ سوچیں کہ وہ کرسی کیلئے ڈیل کریں گے ۔میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گن...

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا وجود - جمعرات 02 مئی 2024

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ دنیا بھر کی جامعات میں پھیلنے لگا۔امریکا، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا کی جامعات کے بعد یونان اور لبنان کی جامعات میں بھی طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔امریکی جامعات میں احتجاج کا سلسلہ تیرہویں روز بھی...

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا

مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر