وجود

... loading ...

وجود
وجود

مولاناسلمان ندوی صاحب کی بابری مسجد تجویز پر محشر برپاکیوں؟

جمعه 23 فروری 2018 مولاناسلمان ندوی صاحب کی بابری مسجد تجویز پر محشر برپاکیوں؟

(قسط نمبر:2)
مولانا سلمان ندوی صاحب کی تجویز سے وحشت زدہ عوام الناس کا کوئی قصور نہیں ہے جب ہم مخالفین کے خلاف لکھتے اور بولتے ہو ئے انہیں ذلیل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں اور ہم نے انہیں اس کا عادی بنا دیا ہے تو پھر بڑے بڑے علماء کے ساتھ ایسے شرمناک واقعات پیش آنا ناممکن نہیں ہے ۔اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مولانا نے جو تجویز پیش کی ہے وہ شرعی اعتبار سے کتنی درست اور مناسب ہے پر ہمیں گھبرانے کے برعکس ٹھنڈے دماغ کے ساتھ غور کرنا چاہیے ۔محترم ندوی صاحب جن فتاویٰ کو بنیاد بنا کر بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں وہ میرے خیال میں بین المسلمین تنازعات سے متعلق خاص ہیں نہ کہ خانہ خدا کو مسلمانوں کی مرضی سے بت خانہ میں تبدیل کرنے سے متعلق؟اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُن فتاویٰ کو نظیر بنا کر بابری مسجد کے تنازعے پر فٹ کیا جاسکتا ہے جیسا کہ بے شمار مسائل میں فقہاء کرتے ہیں یہ خالصتاََ ایک نازک علمی معاملہ ہے اور مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب جیسے صاحب علم کے ذہن میں اس طرح کی نظائرضرور ہوں گی مگر سوال یہ بھی ہے کہ اگر نظائر کے بالکل برعکس ہم سیدھے طور پر ’’خانہ خدا کو بت خانہ‘‘بنانے کے جواز پر عمل کرنے کے جواز کا فتویٰ بھی دیں گے تو کیا ہندوستان کے مسلمان اسے قبول کریں گے ؟میرے علم کی حد تک ہندوستان میں بریلوی مکتبہ فکر کے لوگوں کی اکثریت رہتی ہے اورپھر ان کے بعد دوسرے مکاتب فکر جن میں دیوبندی ،ندوی،سلفی اور جماعت اسلامی شامل ہے کا نمبر آتا ہے ۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا مولانا کی تجویز کو یہ تمام مکاتب فکر قبول کریں گے ؟ میرے خیال میں یہ بہت مشکل ہے کیوں؟

مشکل اس لیے ہے کہ یہ مسئلہ ناصرف حساس مذہبی مسئلہ ہے بلکہ سیاسی بھی ہے ۔بھارت دولخت ہونے کے بعد ہندؤں کا پورے ملک میں بالادست ہونا اظہر من الشمس ہے ۔وہ جہاںجو چاہتے ہیںبغیر کسی روکاوٹ کے بنادیتے ہیں۔ہندوستان کی مسلم اقلیتی ریاستوں کے برعکس اگر ہم سیدھے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کے صوبہ جموں میں داخل ہو جائیں گے تو لکھن پور پل سے لے کر بانہال (جو وادی کشمیر کا صدردروازہ ہے )تک انھوں نے کوئی ندی ،کوئی نالہ ،کوئی پہاڑ اور کوئی میدان نہیں چھوڑا ہے جہاں انھوں نے مندر تعمیر نہیں کیے ہیں۔لاکھوں بلکہ کروڑوں مندر وں والے ملک میں آخر بابری مسجد ہی نشانہ کیوں بنائی گئی غور طلب معاملہ ہے ؟ اور پھر اس کو اس قدر گرمانے کاپس منظر کیا ہے وہ سمجھنا بھی کوئی دشوار معاملہ نہیں ہے ۔دراصل سنگھ پریوار کے لوگ مسلمانوں سے مسجد چھین کر ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ دولخت ہونے کے بعد یہ ملک مکمل طور ’’اول درجے کے شہریوں ‘‘ہندؤں کا ملک ہے ۔مودی کے دہلی میں وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کے بعد گذشتہ چار برس میں سنگھ پریوار نے مسلمانوں کو برباد کرنے کے لیے کیا کیا وہ ہم سب کے سامنے ہیں ؟ بھارت سرکار کے لیے تین طلاق کا غیر اہم اشو میں دلچسپی کا پس منظر بھی یہی ہے اور حج سبسڈی کی منسوخی کل کی بات ہے ۔میراخیال ہے کہ ایسے میںزخم خوردہ ہندوستانی مسلمان جیتے جی بابری مسجدکی زمین کو ہندؤں کوگفٹ کرنے کی تجویز قبول نہیں کریں گے ۔

مولانا سید سلمان صاحب جیسے زمانہ شناس عالم کی نگاہوں سے یہ بات بھی اوجھل نہیں ہوگی یہ مسئلہ مذہبی اور سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ جذباتی مسئلہ بھی ہے دوسرے خطوں کے مقابلے میں برصغیر کے لوگ ’’زیادہ ہی جذباتی ‘‘ہیں لہذا اس لحاظ سے بھی مولانا کے خلاف ردعمل آنا حیرت انگیز بات نہیں ہے ۔مولیٰنامحترم کو یہ بھی یاد ہوگا کہ بابری مسجد مسئلہ پر ان سے پہلے مولانا وحید الدین خان صاحب نے بھی اسی سے ملتی جلتی تجویز یہ پیش کی تھی کہ اراضی کو حکومت کسی کو دینے کے بجائے اپنی تحویل میں لے کر اس جگہ ہسپتال بنائے۔مولانا کے ہاں چونکہ ہر دوسرے مسئلے میں تفردات کا غلبہ رہتا ہے لہذا ان کی تجویز پر اتنی لے دے نہیں رہی جتنی کہ ندوی صاحب کے تجویز پر رہی ۔میں مولانا سلمان ندوی صاحب کے علم اور تفقہ کے مقابلے میں بہت حقیر سا وجود ہوں ،کمالِ ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بزرگوار سے اس مسئلے کو لے کر کئی مقامات پر ’’ہینڈل‘‘کرنے میں تسامح ہوا ہے نمبر ایک: عالم اسلام کونکال کر اگر اسے صرف مسلمانان ہند ہی کا اشو قرار دیا جائے تو اتنے بڑے مذہبی مسئلے پر ایک دو تو کیا صرف دیوبند اور ندوہ کا فتویٰ بھی کافی نہیں ہے بلکہ تمام مسلمہ مسالک اور مکاتب فکر کے علماء کا کم سے کم اتفاق ضروری ہے ۔نمبردو:عوام میں تجویز پیش کرنے سے قبل مسلمان سیاسی لیڈران اور دانشوروں کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی ۔نمبر تین:روی روی شنکر کے برعکس (جنہیں ہم نے کشمیر میں کئی مسائل کو لے کر غیر سنجیدہ اور غیر محتاط محسوس کیا ہے)کسی بااثر مذہبی پیشوا جس سے سنگھ پریوارمیں مقامِ قبولیت حاصل ہوتی کا انتخاب کیا جانا چاہیے تھا ۔نمبر چار:اس حساس مسئلے پر تجویز دینے سے ایک دو سال پہلے کام شروع کرناضروری تھا ۔نمبرپانچ: اتفاقی اور اجتماعی فتویٰ اور مشورے کے بعدعوام الناس میں تمام مکاتب فکر کے علماء لوگوں کا ذہن تیار کرتے تو پھر شاید وہ ساری باتیں باوزن ہوتی جو اس تجویز کے ساتھ آپ نے پیش کی ہیں ۔

جو کرنا چاہیے تھا وہ نہ کر کے اب جبکہ یہ تجویز سامنے آ چکی ہے اور یہ عوامی موضوع بن چکا ہے تو مولانا کے پیش کردہ باوزن خدشات پر ملک و ملت کے بہی خواہوں کو غورکرنا چاہیے باوجود یکہ وہ آپ اپنے ہاتھوں مسجد کی اراضی گفٹ کرنے کو گوارا نہ کریں مگر سوال سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کا ہے کہ اگر اراضی فریق مخالف کو ملی تو مسلمانوں کے جذبات کو جو ٹھیس پہنچے گی اسے انہیں باہر کیسے نکالا جا سکتاہے ؟دوم اگر اللہ نا کرے فسادات ہوئے تو اس صورت میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟کیس جیتنے یا ہارنے کے بعد تین ہزار مساجداور درگاہوں پر اپنی نگاہیں ٹھہرانے والے مسئلے کا حل کیا ہے؟مولانا سلمان ندوی صاحب کے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ،امام محمدؒ اور امام ابن تیمیہؒکے فتاویٰ کوبنیاد بنا کر’’مسجدجو عرصہ سے نہ صرف اقامت صلوٰۃ سے محروم ہے اور شہید کر دئے جانے کے بعدویران ہی نہیں بلکہ عملاََانتہا پسندوں کے ہاتھوں بت خانے میں تبدیل ہو چکی ہے ‘‘کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے قبل ہی جبری قبضے کو قبول کر کے اپنی شرائط پر بات چیت کا آغاز کردیا جائے۔انہیں خدشہ ہے کہ سپریم کورٹ اراضی ہندوں کو دے یا نا دے مسلمان دونوں صورتوں میں نقصان میں ہیں ہاں اگر وہ ازخود ان کے جبری قبضے کو قبول کرکے انہیں دیدیں تو شاید نقصانات کا دائرہ محدود ہو سکتا ہے ۔ (جاری ہے )


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر