وجود

... loading ...

وجود
وجود

مولاناسلمان ندوی صاحب کی بابری مسجد تجویز پر محشر برپاکیوں؟

جمعرات 22 فروری 2018 مولاناسلمان ندوی صاحب کی بابری مسجد تجویز پر محشر برپاکیوں؟

مولانا  سید سلمان حسینی ندوی صاحب استاددارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنونے چند روز قبل مشہور ہندو لیڈر روی روی شنکر کے ساتھ بابر ی مسجدتنازع کے سلسلے میں ملاقات کی۔ انھوں نے ملاقات کی وی، ڈیوسوشل میڈیا پر کیا ڈالی کہ پورے ہندوستان میں ایک محشر برپا ہوا ۔سوشل میڈیا پر لمحہ بہ لمحہ نئے پوسٹس اورخیالات کے سیلاب نے تمام تر حدود و قیود پھلانگتے ہو ئے مولانا کے خلاف اور حمایت میں ایک محاذ کھول رکھاہے ۔مخالفین اور حمایتیوں کے روز نئے خیالات اور دلائل کے بعد انہیں دیکھنا پڑھنا بھی ممکن نہیں رہا ہے ۔دراصل پورا ہنگامہ اس بات پر ہے کہ مسلمانانِ ہند کے اب تک اپنائے گئے موقف کے بالکل برعکس مولانا سلمان ندوی صاحب نے یہ تجویزکیوں پیش کی کہ ’’ہم متنازع جگہ ہندؤں کو دیدیں اس کے عوض میں حکومت ہمیں اسے دوگنی زمین کہیںفراہم کرے جہاں مسجد کے علاوہ ایک شاندار یونیورسٹی تعمیر کی جائے گی ‘‘۔ساتھ ہی ساتھ مولانا کے مطالبات میں یہ بھی شامل ہے کہ اصل جگہ سے دستبرداری کی صورت میں حکومت بابری مسجد شہید کرنے والوں کو سزا دیدے ،اس مسئلے کے نام پر اب تک ہو ئے شہیدوں کو معاوضہ فراہم کیا جائے ،تمام شدت پسند ہندؤ تنظیمیں ہمیشہ کے لیے دیگر جگہوںپر کیے گئے دعوؤں سے دستبردار ہو جائیں جن میں بہت ساری مساجد،خانقاہیں ،قبرستان اور مدارس شامل ہیںاور مولانا نے ملک میں خوشگوار برادرانہ ماحول کو بڑھاوا دینے کے لیے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ جب بھی مستقبل میں ہندؤں اور مسلمانوںکے بیچ پرتناؤ صورتحال جنم لے گی اس وقت مسلم اور ہندؤ علماء کی پہلے سے تشکیل شدہ کمیٹی فوراََ حالات کو قابو میں لانے کے لیے مشترکہ موقف اپناتے ہو ئے دونوں طرف کے شدت پسندوں کے عزائم کو ناکام بنا دی گی ۔

ان تمام نقاط میں اصل ہنگامہ اس بات پر ہے کہ ’’مولانا نے شہید بابری مسجد کی زمین ہدیہ کرنے کی تجویز کیوں پیش کی ہے؟ ‘‘مولانا کے دوسرے مثبت پر نقاط پریہ تجویز اس قدر غالب آچکی ہے کہ کوئی نہ ان کی طرف توجہ دے رہا ہے نا ہی سننے کے لیے تیار ہے ۔اس کی وجہ وہ ذہنیت ہے جس کو پروان چڑھانے میں میرے سمیت تمام صاحبانِ جبہ و دستار برابر کے شریک ہیں ۔مولانا کی تجویز سے ایک لمحہ ہٹ کر اگر ہم غور کریں تو محسوس ہوتاہے کہ عوام الناس سے شکوہ کی کوئی گنجائش خودخواص نے نہیں چھوڑی ہے اس لیے کہ وہ’’ خاص علمی ماحول ‘‘کوطاقت بخشنے میں عرصہ دراز سے مشغول ہیںجہاں رٹی رٹائی باتوں سے الگ اور ذرا ہٹ کر سوچنے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔یہ معاملہ اسی مسئلے کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کے جمیع فقہی اور شرعی مسائل میں یہ جمود زدہ بیمار ذہنیت اس حدغالب آچکی ہے کہ کوئی عالم اگر کسی بھی مسئلہ میں ائمہ اربعہ کے شاگردوں کی بات مع دلائل و جواز پیش کرے تو بھی اس کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے ۔مقلدانہ مزاج (جس کو ہم نے صدیوں سے پروان چڑھانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے )نے ہمیں فقہی مسائل میں ہی نہیں بلکہ علمی ،سائنسی ،سماجی ،تاریخی اور سیاسی مسائل میں بھی نومولود بچوں کے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ جس پر ہمارے بڑوں یا بزرگوں نے ایک مرتبہ مہر لگا دی قیامت تک کے لیے ایسی ’’وحی‘‘بن گئی کہ ایک قدم باہر گناہ اور ارتداد نا صحیح جرم ضرور ہے ۔مجھے ہر ایسے موقع پر،امام احمدبن حنبلؒاور امام ابن تیمیہ ؒ کے بعد مولانا سید مودودیؒ یاد آتے ہیں جنہیں علمائِ عصر نے اس قدر مطعون کردیا کہ ایک کو کوکوڑے کھانے پڑے ،دوسرے کو جیل کے اندر مر جانے پر مجبور کردیا گیا اور تیسرے کو گالی کے ہم پلہ بنا دیا ۔المیہ یہ ہے کہ ’’تفرداتِ علماء‘‘سے واقف ہمارے بڑوں نے بھی اجنبی رائے رکھنے یا دینے کو ناقابل معافی جرم بنا دیا ہے ۔مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب کے عقائد،افکار،تصورات بلند حوصلوں اور عزائم مولانا وحید الدین خاں صاحب کی طرح جمہور سے الگ اور مختلف نہیں ہیں ۔بابری مسجد قضیہ سے متعلق ایک رائے دینے پر جب ان کے ساتھ ایسا ’’غیر مہذب‘‘رویہ اپنایا جا سکتا ہے تو پھر دوسروں کے لیے کیا گنجائش نکل سکتی ہے تصور کرنا اب محال نہیں ہے ۔

مولانا سلمان ندوی صاحب کی تجویزکوخاص مسلم حلقوں نے اُس مخصوص اندازاور پس منظر میں لینے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے جس میں اس طرح کی تجاویز کو شریعت کی ترازو میں تولنے کے برعکس اس من پسند ترازو میں تولا جاتا ہے جہاں پلڑے کو ہر حال میں اپنے ہی جانب جھکانے پر مجبور کیا جاتا ہے ،نہیں تو پوچھا جا سکتا ہے کہ بابری مسجد تنازعہ سے ذرا ہٹ کر دیکھ لیجیے کہ بین المسلمین اختلافات میں بھی ہم نے مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی اجازت تو درکنار بلکہ ہم نے ہمیشہ’’ مسجد جہاں ہے وہاں ہی قیامت تک رہے گی ‘‘کا فتویٰ صادر کر کے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن کردی ۔آخر کیا وجہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی حضرت امام اہلسنت احمد بن حنبلؒ تو دور کی بات خود حضرت امام محمد شیبانیؒ کے فتوے کے مطابق فتویٰ نہیں دیا بلکہ ہم بضد امام ابویوسف ؒ کے فتوے پر رہے آخر کیوں؟خود میرے گاؤں میں ایک مسئلہ پیدا ہوا کہ محلے کے لوگ ایک مسجدمیں تنگی کے پیش نظر دوسری جگہ مسجد بنانے اور پہلی کو شہید کر کے قرآنی درسگاہ بنانے کے خواہش مند تھے میں نے ان کے سامنے نامی گرامی مفتیوں سے بات کی تو انھوں نے پہلی اور آخری بات یہی کہی کہ پہلی مسجد قیامت تک مسجد ہے لہذا لوگ پہلی مسجد میں دوسری تیسری منزل کا اضافہ کریں مسجد نا بنائیں حالانکہ انتہائی تیزی کے ساتھ بڑھتی آبادی کے لیے یہ جگہ ہر لحاظ سے بہت تنگ تھی ۔ عوام نے نا میری اور نا ہی مفتیوں کی مانی بلکہ اپنے طور پر شاندار مسجد تعمیر کی جس میں بہت سارے لوگ فتوے کے پس منظر میںابھی تک نماز پڑھنے میں ترددمحسوس کرتے ہیں ۔مفتیان ِکرام اور علمائِ عظام کے شدت اور تکرار کے ساتھ ان فتوؤں نے عوام تو عوام لکھے پڑھوں کا بھی یہ ذہن بنا لیا ہے کہ میرے فیس بک پر سلمان صاحب کے متعلق ایک پوسٹ ڈالنے پر ایک صاحب نے مولانا کو نعوذباللہ مرتد قراردیدیا ۔عوام الناس کی بد زبانی ،بدتمیزی،لعن وطعن،توہین و تحقیر پر کیوں حیرت ہوگی جب پارلیمنٹ ممبر بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب اور اعظم خان صاحب بھی مولانائے محترم سے متعلق وہ زبان استعمال کرے جو جاہلوں اور آوارہ لفنگوں کو بھی زیب نہیں دیتی ہے ۔یہ ہے وہ شر جو میں نے اور آپ نے پھیلا رکھا ہے ،جس کو میں نے اور آپ نے پروان چڑھایا ہے اور افسوس کہ ایک روز ہم خود اس کی ضد میں آتے ہیں ۔ (جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر