... loading ...
کون نہیں جانتا علامہ اقبالؒ کو مشہور انقلابی شاعر جس نے اپنے کلام میں ہر موضوع کو اس انداز میں بیان کیا گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نہ صرف اردو ادب کے ماہر فن تھے بلکہ ان کو مختلف زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ علامہ اقبالؒ کی شخصیت پر مسلمانوں میں کوئی دو رائے نہیں تو کیوں نہ آج علامہ صاحب کے کلام میں سے اس شعر کو پڑھ کر کچھ غوروفکر کیا جائے جس میں انہوں نے جنت اور ملا کو موضوع بنایا ہے۔ کلیات اقبال کے ایک حصہ بال جبریل کے صفحہ 79پر یہ اشعار درج ہیں۔
میں بھی حاضر تھا وہاں، ضبط سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضرت مُلا کو ملا حکم بہشت
عرض کی میں نے الٰہی کر میری تقصیر معاف
خوش نہ آئیں گے اسے حور وشراب ولب کشت
نہیں فردوس مقام جدل و قال واقول
بحث وتکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت
ہے بد آموزی اقوام وملل کام اس کا
اور جنت میں نہ مسجد، نہ کلیسا، نہ کنشت
اور اقبالؒ کی یہ خاصیت رہی ہے کہ وہ اپنے اشعار میں اکثر استعارات استعمال کرتے ہیں جنہیں اہل علم ہی سمجھ سکتے ہیں مذکورہ اشعار میں بھی اقبال نے ایک فیصلہ کن بات کہی ہے کہ جب اللہ نے مُلا کو حکم دیا کہ اسے جنت میں داخل کیا جائے تو تصورات کی دنیا میں اقبال فرماتے ہیں میں بھی وہاں موجود تھا تو میں نے اللہ سے گزارش اے میرے مولا اس مُلا کو جنت میں داخل کرنے کا کوئی سروکار نہیں کیونکہ جنت وہ مقام ہے جہاں جدل، قال، اقول نہیں ہوتا، وہ ایک پرسکون مقام ہے اور یہ مُلا جیسے وہاں سکونت اختیار نہیں کرسکتے کیوں کہ اس مُلا کا کام ہی ہر بات میں جھگڑنا ہے ،بے موقع پر بحث کرنا اس کی عادت ہے اس کا تو کام ہی صرف بحث وتکرار کرنا ہے تو جنت چونکہ تکرار کی جگہ نہیں تو لہٰذا اس بندے کو جنت میں داخل کرنے سے اجتماع ضدین لازم آتا ہے۔ لہٰذا اس کو جنت میں داخل کرنے پر مجھے اعتراض ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ نے یہ کیسے فرمایا کہ مُلا کو جنت نہ ملے حالانکہ مُلا ہی تو قرآن و حدیث سکھاتا ہے۔ معاشرے کا ہر فرد مُلا سے ہی تو دین سیکھتا ہے پھر آخر کیوں علامہؒ نے مُلا پر اتنی تنقید کی؟ جواب یہ ہے کہ اقبال مرحوم نے حقیقی علماء کرام کو نہیں بلکہ نام نہاد مُلائوں کو موضوع سُخن بنایا ہے پھر علامہؒ نے اس موضوع کو صرف دین اسلام میں قید نہیں کیا بلکہ تمام مذاہب کے نام نہاد دینی پیشوائوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو دین ومذہب کے نام پر کھاتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں، یہ بات صرف مذہب اسلام میں نہیں بلکہ پوری دنیا کے مذاہب عالم میں ایسے لوگ کثرت سے موجود ہیں جو خود کو دین کا مذہب ومسلک کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں اور اپنے حلقہ کے افسران کو وہ پٹیاں پڑھاتے ہیں جن میں دوسرے فرقے، دوسرے مذہب ومسلک کے لوگوں کے لیے زہر آلود جملے لکھتے ہوتے ہیں یہ پیشوا حضرات اپنے علاوہ سب کو کافر سمجھتے ہیں پھر مذہب سے نفرت کا درس دیتے ہیں حتیٰ کہ غیر مذہب وغیر مسلک افراد سے ہاتھ ملانا بھی ناجائز سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں ۔
ہے بدآموزی اقوام وملل کام اس کامطلب ہے اس قسم کے مُلا حصرات اقوام عالم کو بری باتیں سکھاتے ہیں، امت کا شیرازہ بکھیرنے میں لگے رہتے ہیں اپنی تقریروں، تحریروں میں ہمہ وقت ہی درس دیتے ہیں وہ برے ہیں ہم اچھے ہیں، فلاں فرقہ کے ہمارے مذہب سے کوئی تعلق نہیں، فلاں فرقہ واجب القتل ہے، فلاں فرقہ مرتد ہے۔ فلاں گستاخ ہے بس ہمہ وقت نفرت کی آگ بھڑکاتے ہیں ان کا کام صرف فرقہ واریت کو ہوا دینا ہے، سوال یہ ہے کہ پھر اس قسم کے مُلا حضرات اپنے موقف کو عوام تک کس طرح پہنچاتے ہیں؟ یہ کہاں بیٹھ کر ایسی نفرت انگیز باتیں لوگوں کے کانوں میں بھرتے ہیں تو علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ جنت میں نہ مسجد نہ کلیسا نہ کنشت مطلب اس قسم کے مُلا مذہبی عبادت گاہوں پر قابض ہوتے اور مسجد وکلیسا سے میں بیٹھ کر درس دیتے ہیں اور وہ مسجدیں اور عبادت گاہیں جو فرقہ واریت کاگڑھ بن چکی ہیں ایسی عبادت گاہیں تو جنت میں نہیں ہونگی پھر یہ مُلاّ بیچارہ جنت میں کرے گا کیا؟۔
آج اگر علامہ اقبالؒ کے ان اشعار کو شدت مذہب سے ہٹ کر ٹھنڈے دماغ سے دور حاضر پر آویزاں کیا جائے تو سو فیصد ایسے مُلاّ دین کے نام لیوا ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو محبت کے بجائے نفرت کا درس دیتے ہیں جو بحث برائے بحث کرتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی بات کا بتنگڑ بناکر تکرار کی نوبت تک لاتے ہیں اور حیرت تو یہ ہے کہ وہ خودکو ہی جنت کا وارث قرار دیتے ہیں، باقی تمام فرقوں کو پکا جہنمی تصور کرتے ہیں ،یہ اپنے نظریات میں لامحدود غلو کرتے ہیںگویا کہ کسی کو مسلمان رہنے کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھتے باقی مذاہب کو چھوڑ کر ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو مسلمانوں میں ایسے حضرات بکثرت موجود ہیں جو اپنی رائے اور اختیار سے اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ جنگ وجدل اور دوسرے ان فروعی مسائل کی بحث میں غلو کے سہارا، علم وتحقیق کا زور اور بحث وتمحیص کی طاقت اور عمر کے اوقات عزیز انہی بحثوں کے نذر کرتے ہیں اگرچہ ایمان واسلام کے بنیادی اور قطعی اجماعی مسائل مجروح ہورہے ہیں، کفر والحاد دنیا میں پھیل رہا ہو سب سے صرف نظر کرکے ان کا علمی مشغلہ یہی فروعی بحثیں بنی رہتی ہیں، ان میں بعض حضرات کا غلو تو یہاں تک بڑھا ہوا ہے کہ اپنے سے مختلف رائے رکھنے والوں کی نماز فاسد اور ان کو تارک قرآن سمجھ کر اپنے مخصوص مسلک کی اس طرح دعوت دیتے ہیں جیسے منکر اسلام کو اسلام کی دی جارہی ہو اور اسی کو دین کی سب سے بڑی خدمت سمجھتے ہیں، معلوم نہیں کہ یہ حضرات اسلام کی بنیادوں پر چاروں طرف سے حملہ آور طوفانوں سے باخبر نہیں یا جان بوجھ کر اغماض کرتے ہیں ان حالات میں کیا ہم پر واجب نہیں کہ ہم غوروفکر سے کام لیں اور سوچیں کہ اس وقت ہمارے آقا نبی کریم ﷺ کا مطالبہ اور توقع اہل علم سے کیا ہوگی؟ اور اگر محشرمیں آپ ﷺ نے ہم سے سوال کرلیا کہ میرے دین اور شریعت پر اس طرح کے حملے ہورہے تھے، میری امت اس بدحالی میں مبتلا تھی تم وارثت نبوت کے دعویدار کہاں تھے؟ تم نے اس وراثت کا کیا حق ادا کیا؟تو کیا ہمارا جواب یہ کافی ہوگا کہ ہم نے رفع یدین پر ایک کتاب لکھی تھی یا کچھ طلباء کو قطبی کے اسباق خوب سمجھائے تھے یا حدیث میں آنے والے اجتہادی مسائل پر ایسی بڑی دلچسپ تقریریں کیں تھیں ۔صحافیانہ زور قلم اور نعرہ بازی کے ذریعے دوسرے علماء وفضلا کو خوب ذلیل کیا تھا۔
قرآن وحدیث میں اس تجاوز عن الحددود کا نام تفرق ہے جو جائز اختلاف رائے سے ایک الگ چیز ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا دوسری جگہ اللہ تعالیٰ دین کے قیام کے لیے فرماتے ہیں۔ ان اقیمواالدین ولا تفرقوافیہ ترجمہ دین قائم کریں اور اس میں تفرقہ نہ ڈالیں۔
ہماری تبلیغ ودعوت کو بے کار کرنے، تفرقہ اور جنگ وجدل کی خلیج وسیع کرنے میں سب سے زیادہ دخل اس کو ہے کہ آج کل اہل زبان اور اہل قلم علماء نے عموماً دعوت کے پیغمبرانہ طرق کو نظر انداز کرکے صحافیانہ زبان اور نعرے چسپاں کرنے کو ہی بات میں وزن پیدا کرنے اور مؤثر بنانے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے اور یہ طریقہ دعوت واصلاح کے بجائے دلوں میں دشمنی کے بیج بوتا ہے اور عداوت کی آگ بھڑکاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرقہ واریت سے ہٹ کر دین کا کام انبیاء یا ان کے وارث ہی کرسکتے ہیں جو ہر وقت خود سے مستغنی ہوکر دشمن کی خیر خواہی اور ہمدردی میں لگے رہتے ہیں ان کی گفتار میں کسی مخالف پر طنز وتشنیع کا شائبہ نہیں ہوتا وہ الزام تراشی کا پہلو اختیار نہیں کرتے۔
اللہ تعالیٰ نے تو فرعون جیسے ظالم بادساہ سے بھی نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا ہے فرمایا اے موسیٰ وہارون ’’قولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی‘‘ ترجمہ آپ دونوں جب اس فرعون سے بات کرو تو نرمی سے بات کرنا۔
اس وقت دنیا کے ہر ملک میں مسلمان جن مصائب میں مبتلا ہیں ان کا سب سے بڑا سبب آپس کا تفرقہ اور خانہ جنگی ہے ،اگر ہم اسلام کے بنیادی اصول کی حفاظت اور بے دینی کے سیلاب کے دفاع کو اہم مقصد سمجھ لیں تو اس پر مسلمانوں کے سارے فرقے اور تنظیمیں جمع ہوکر کام کرسکتی ہیں۔
لیکن موجودہ دور کے حالات بتاتے ہیں کہ اصل مقصد ہماری بینائی سے اوجھل ہے اس لیے ہماری ساری قوت، علمی تحقیق کا زور آپس کے اختلافی مسائل پر صرف ہوتا ہے ۔آپ مشاہدہ کریں آج کل ہماری تقریریوں، جلسوں، رسالوں، اخباروں میں موضوع سخن کے لیے یہی اختلافی مسائل رہ گئے ہیں ہمارا زور قلم، زار زبان جس قوت سے اختلافی مسائل میں جہاد کرتا ہے اس کا کوئی ایک حصہ بھی ملکی سرحدات اور اصول ایمانی پر ہونے والی یلغار کے مقابلہ میں کیوں صرف نہیں ہوتا۔
آخر وہ وقت کب آئیگا جب ہم اپنے نظریاتی مسائل سے ذرا آگے بڑھ کر اصول اسلام کی حفاظت اور بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح کو اپنا اصلی فرض سمجھیں گے۔
آج علامہ اقبالؒ کی روح تڑپ کر ہم سے سوال کررہی ہے ۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کیا ہی بڑی بات ہوتی جو ہوتے مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہ ہی باتیں ہیں؟
روح اقبال ہم سے سوال کررہی ہے کہ کیا دنیا میں زندہ رہنے کے لیے ، کارواں کو آگے بڑھانے کے لیے ، صرف فرقہ بندی کی باتیں رہ گئی ہیں ،اسلام کی حفاظت کا بس صرف یہی کام رہ گیا ہے ؟نہیں میرے دوستوں !دشمن اسلام آج ہمارے حالات پر جس طرح خندہ زن اور مسلمانوں کا مذاق اڑارہا ہے وہ اقبالؒ نے اس انداز سے بیان کیا تھا۔
خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
تمام علماء امت سے میری گزارش ہے خدارا مقصد کی اہمیت اور نزاکت کو سامنے رکھ کر سب سے پہلے تو اپنے دلوں میں یہ عہد کریں کہ اپنی علمی اورعملی صلاحیت اور تعلیم کی طاقت کو زیادہ سے زیادہ اس محاذ پر لگائیں جس کی حفاظت کے لیے قرآن وحدیث آپ کو بلارہے ہیں۔
اپنے اختلافی مسائل کو برائے کرم اپنے حلقہ درس اپنی تصنیف تک محدود رکھیں ،عوامی جلسوں، اخباروں، اشتہاروں اور جھگڑوں کے ذریعے ان کو نہ اچھالیں جو بحث علماء کی شایان شان ہے اس کو عوام میں نہ پھیلائیں ۔ہم آپ کو یہ نہیں کہتے کہ اپنا مسلک چھوڑو بلکہ اپنے مسلک کی باتیں اور نظریات تقریروں، جلسوں میں مت چھیڑو ، فکر امت کرو، دعوت واصلاح کے پیغمبرانہ طریقے اپنائو۔
اگر ہم اس روش پر قائم رہے اور عداوت کو ختم نہ کیا تو معذرت کے ساتھ علامہ اقبال کی یہ بات بے جا نہ ہوگی۔
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں کہ جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
٭٭٭٭٭
مولانا عبیداللہ سندھی نائچ
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کوئی بات ہوگی تو سب کے سامنے ہوگی اور کوئی بات چیت کسی سے چھپ کر نہیں ہوگی،بانی پی ٹی آئی نے نہ کبھی ڈیل کی ہے اور نہ ڈیل کے حق میں ہیں، یہ نہ سوچیں کہ وہ کرسی کیلئے ڈیل کریں گے ۔میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گن...
فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ دنیا بھر کی جامعات میں پھیلنے لگا۔امریکا، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا کی جامعات کے بعد یونان اور لبنان کی جامعات میں بھی طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔امریکی جامعات میں احتجاج کا سلسلہ تیرہویں روز بھی...
غزہ میں مظالم کے خلاف اسرائیل کی مبینہ حمایت کرنے والی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ معروف امریکی فوڈ چین کے ایف سی نے ملائیشیا میں اپنے 100 سے زائد ریستوران عارضی طور پر بند کرنیکا اعلان کر دیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ملائیشیا میں امریکی فوڈ چین کی فرنچائز کم...
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔لاہور میں فلسطین کانفرنس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ یہاں بلاوجہ شہباز شریف کی شکایت کی گئی اس بیچارے کی حکومت ہی...
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، ہم سب مل کر پاکستان کو انشااللہ اس کا جائز مقام دلوائیں گے اور جلد پاکستان اقوام عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کر لے گا۔لاہور میں عالمی یوم مزدور کے موقع پر اپنی ذاتی رہائش گاہ پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ ا...
غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے رہنما راجوری اور پونچھ میں مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ یا تو سنگھ پریوار کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق 1947میں جموں خطے میں ہن...
پی ٹی آئی نے جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ، جے یو آئی ف کے سربراہ کو احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کے لیے باقاعدہ دعوت دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق مذاکراتی ک...
حکومت نے رات گئے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کردیا۔ وزیراعظم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی منظوری دے دی۔ وزارت خزانہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 5 روپے 45پیسے کمی کے بعد نئی قیمت 288روپے 49پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے ۔ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 8 روپ...
مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو وزیراعظم شہباز شریف کا مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تعینات کر دیا گیا۔ن لیگی قیادت نے الیکشن 2024ء میں اپنی نشست پر کامیاب نہ ہونے والے رانا ثناء کو شہباز شریف کی ٹیم کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق وزی...
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے شیر افضل مروت کا نام فائنل کر لیا گیا ہے ۔ اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کے دوران بیرسٹر گوہر نے کہا کہ شیر افضل مروت کا نام فائنل ہونے پر تمام تنازعات ختم ہو چکے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ کچھ دنوں سے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے لیے شیر افضل مروت کے نام پر تحریک انصاف...
گزشتہ سال نومبر میں تیزاب پھینکنے کے الزام کے حوالے سے سابق وفاقی حکومت کے مشیر شہزاد اکبر نے حکومت پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی تیاری کر لی۔شہزاد اکبر نے قانونی کارروائی کی کاپی لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کو بھجوا دی۔شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا کہ تیزاب حملے کے پیچھے حکومت پا...
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ملین مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں روکنے کی کوشش کرنے والا خود مصیبت کو دعوت دے گا۔تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر کے زیر صدارت شروع ہوا جس میں پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر ا...