وجود

... loading ...

وجود
وجود

ہم جوتاریک راہوں میں مارے گئے

جمعرات 02 نومبر 2017 ہم جوتاریک راہوں میں مارے گئے

اب تولوگ کہتے ہیں ہمیں ہمارے پیارے زندہ نہیں توان کی لاشیں ہی دے دوتاکہ ہمیں صبرآسکے ۔مجھ سے فون پرآمنہ مسعود صاحبہ مخاطب تھیں جوپاکستان میں جبری گمشدگی ،مسئلے کواجاگرکرنے اوراس مسئلے پرآوازبلندکرنے والی باہمت خاتون ہیں ۔یہ لاپتہ افرادکی بازیابی اوران کے اہل خانہ کی کونسلنگ کرنے اورانہیں معاشرے کا،کارآمدفردبنانے کی جدوجہدمیں مصروف ہیں ۔ یہ ایک تعلیم یافتہ گھریلوخاتون تھیں جیسی پاکستان کی اکثرخواتین ہوتی ہیں ،یہ بہت اچھی مصورہ ہیں ۔آج سے 12برس قبل یہ بچوں اور بے پناہ محبت کرنے والے شوہر مسعود جنجوعہ کے ساتھ سب سے پرامن اور محفوظ تصور کیے جانے والے اسلام آباد کے ساتھ واقع راولپنڈی میں رہتی تھیں ۔ ایک روز،ان کے شوہرمسعودجنجوعہ گھرسے گیے اورآج تک لوٹ کرنہیں آئے ۔
پختون روایات کی امین ،محترمہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے گھرسے پہلی مرتبہ قدم اپنے شوہرکوتلاش کرنے کے لیے نکالاتھامگران کوجلداحساس ہواکہ یہاں توکئی آمنائیں اپنے مسعودکوڈھونڈنے کے لیے دربدرکی خاک چھان رہی ہیں ۔اسی روز سے وہ ایسے تمام لاچار ، محکوم ،مظلوم، بے سہارااور بے یارومددگار لوگوں کا ارض وطن پر واحد سہارا بن گئیں ۔اب ان کی منزل صرف مسعود جنجوعہ کا گھرواپس آجانا نہیں ہے ۔آج وہ ہر لاپتہ فرد کی والدہ، بہن، بیٹی اور بیوی کو اپنے اپنے مسعود سے ملوانے کی تحریک کی سربراہ ہیں ۔ آمنہ مسعود صاحبہ بتارہی تھیں 25اکتوبرکوڈیڑھ سال بعد40لاپتہ افرادکا کیس سپریم کورٹ کے بینچ نمبرتین میں لگایاگیا۔ یہ کیس جسٹس اعجازافضل کے سامنے پیش کیاجاناتھا۔مگراس روزپیش ہونے والے کیسز کی فہرست میں لاپتہ افراد کانمبرآخری تھا،اس لیے عدالت کاوقت ختم ہوگیااور کیس کی سنوائی کانمبرہی نہیں آیا۔شایدعدالت کے لیے لاپتہ افرادکامسئلہ دیگرمسئلوں سے کم اہم ہوگا؟ آج سے ڈیڑھ سال پہلے لگنے والی پیشی پرمعزز عدالت نے حکم نامہ جاری کیاتھاکہ بیس سے پچیس مقدمات مختلف عدالتوں میں سنے جائیں گے ۔اورلاپتہ افرادکے کیس کی سماعت بغیرکسی رکاوٹ کے جاری رہے گی ۔اس موقع پرعدالت نے بڑی برہمی بھی فرمائی تھی کہ اتنی اہمیت کے حامل کیسز کو2سال کی تاخیرسے کیوں سناجارہاہے ؟اس برہمی کااتنااثرہواکہ پورے ڈیڑھ سال بعدکیس کی سنوائی کی باری آئی۔
محترمہ آمنہ مسعود کی طرف سے 750جبری گمشدہ لوگوں کے کیسز 33پٹیشنوں کے ذریعے سپریم کورٹ میں داخل کیے جاچکے ہیں جن میں سے 19مقدمات نے 25اکتوبرکوسناجاناتھا۔مگرعدالت کاوقت ختم ہوگیااورعدالت لاپتہ افرادکے مسئلے سے زیادہ اہم مسائل کوسنتی رہی ۔25اکتوبرکوعدالت میں سنوائی کی امیدلیے پاکستان کے مختلف شہروں سے گمشدہ افرادکے لواحقین اسلام آبادپہنچے تھے ۔جوان، آدھی بیوہ عورتیں معصوم بچوں کوگودمیں لیے آئیں تھیں ،بوڑھی امائیں ہاتھوں میں تسبیاں پڑھتیں اوربوڑھے باپ جوان بیٹوں کی راہ دیکھتے دیکھتے اندھی ہوچکی آنکھوں سے آنسوبہاتے رہے ۔مگرعدالت میں سنوائی کا نمبرنہیں آیااوروقت ختم ہوگیا۔25اکتوبرکی شام کویہ سب سوالی کس دل کے ساتھ اسلام آبادسے گھروں کولوٹے ہونگے ؟آسمان نے ضروران کے دلوں کی آوازسنی ہوگی ،اورفرشتوں نے عرش تک ان کی فریادضرور پہنچائی ہوگی۔ 25اکتوبرکوسنوائی کے لیے رکھے گیے مقدمات میں 2005سے لاپتہ مسعود جنجوعہ جو،راولپنڈی کے کاروباری شخصیت اورتعلیم دان تھے کاکیس شامل تھا۔لاہورکے انجینئرفیصل فرازکاکیس بھی تھاجوکہ 2005سے لاپتہ ہیں ۔ملتان کے سعیداحمدکاکیس بھی تھاجو2009سے لاپتہ ہے ۔سعیداحمدکے بارے میں 3رہاشدہ افرادبیان حلفی میں یہ بتاچکے ہیں کہ سعیداحمدکہاں ہے اورکس کی تحویل میں ہے۔مگرلاپتہ افرادکاکمیشن اس کے باوجودکچھ کرنے میں ناکام رہاہے ۔
لاپتہ افرادکے معاملے میں کسی فردکایہ گواہی دیناکہ اس نے فلاں لاپتہ فردکوکہاں دیکھاتھایہ بہت مشکل کام ہوتاہے ۔کیونکہ لاپتہ افرادمیں سے جواللہ پاک کے حکم سے رہاہوکرواپس اپنے گھروں کوآتے ہیں وہ اس قدرڈرکاشکار ہوتے ہیں کہ وہ کسی سے کوئی بات نہیں کرتے ۔گواہی دیناتودورکی بات ہے ۔ایسے رہاہونے والے افرادکے اہل خانہ اس پررب کاشکرکرتے نہیں تھکتے،کہ ان کواپنے پیارے کی لاش نہیں ملی بلکہ خودمل گیاہے۔ ایسے میں لوگ کسی دوسرے کی مددکرنے کاخطرہ مول نہیں لیتے ۔مگراس کے باوجوداگرچندباہمت لوگ سامنے آجائیں جوگواہی دیں کہ انہوں نے فلاں لاپتہ شخص کوفلاں جگہ پردیکھاہے تواس پرلاپتہ افرادکاکمیشن کچھ نہیں کرپاتاجوایک الگ داستان غم ہے ۔
25اکتوبرکوسنے جانے والے کیسز میں چکوال سے 2010ءسے لاپتہ دوبھائی عمربخت اورعمرحیات کاکیس بھی تھا۔4سال قبل اس کیس کے حوالے سے حتمی ثبوت مل چکے ہیں مگر ابھی تک بازیابی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔2009 ءمیں پشاور کی ایک مسجد کے خطیب خیرالرحمان کو تمام اہلخانہ کے ساتھ اٹھایا گیا تھا بال بچے تو ایک ہفتے میں واپس آگیے مگر خیرالرحمان آج تک لاپتہ ہے اس کا بوڑھا باپ اس کی یاد میں روروکر آنکھوں سے معذور ہوچکا ہے۔ لاہور کے مدثر اقبال کی والدہ 2014 ءتک بیٹے کی رہائی کے لیے لاہور ، اسلام آباد کے درمیان سفر کرتی رہیں لیکن اب فالج کی مریضہ بن جانے کے سبب چارپائی پر ہیں ، کبیروالہ کے عبدالرحمان ، بشیر احمد عثمانی اور عبدالجبار شاکر کے نام بھی اس لسٹ میں تھے جن کا کیس 25 اکتوبر کو سناجاتا ۔
محترمہ آمنہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اکثر لاپتہ افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا جارہا ہے ۔کراچی کے 2 انجینئرز بھائی ستمبر 2017 کو مختلف تاریخوں میں اٹھائے گیے، ایک بھائی سکندر جمال کی حال ہی میں پولیس مقابلے کے بعد لاش گھر والوں کو دیدی گئی، جبکہ دوسرابھائی حسن جمال تاحال لاپتا ہے ۔ اس ملک میں وزیراعظم، گورنر اور جسٹس کے بیٹے تو بازیاب کروالیے جاتے ہیں مگرعام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ، انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی اور سینیٹر فرحت اللہ بابر کی لاپتہ افراد کے لیے کی جانے والی کوششوں کو امید کی کرن قرار دیا۔آمنہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ حالات اتنے خراب ہیں کہ میڈیا میں بھی لاپتہ افراد کے حوالے سے مکمل سچ نہیں آسکتا۔ایک مرتبہ ایک لاپتہ فرد کی بیوی نے کسی ذمہ دار سے کہا کہ مجھے میرے شوہر تک رسائی دی جائے ورنہ میں میڈیا میں چلی جاؤں گی، متعلقہ ذمہ دار نے اس خاتون سے کہا ”اگر آپ نے آمنہ جنجوعہ بننے کی کوشش کی ، تو اس کا حال دیکھ لیں “۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے اہلخانہ اور لواحقین عدالتوں میں اور کمیشن میں بیان حلفی جمع کرواتے ہیں کہ اگر ہمارے لوگوں نے کوئی جرم کیا ہے توان کو سامنے لاکر پھانسی دے د یں ہم کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔ مگر لاپتہ نہ رکھیں ۔انہوں نے ایسے والدین کا ذکربھی کیا جو متعلقہ جگہوں پر جاکر اپنے لاپتہ ہونے والے افراد کی لاشیں مانگتے ہیں کہ اگر زندہ نہیں دے سکتے تو مردہ حالت میں دے دو تاکہ ہم ان کو دفنا کر ان کی قبر تو دیکھتے رہیں ۔ آمنہ صاحبہ نے بتایاکہ نوازشریف صاحب اورچوہدری صاحب اقتدارکے دنوں میں کوشش کے باوجودلاپتہ افرادکے لیے کچھ نہیں کرسکے ۔
آمنہ صاحبہ کے فون بند کرنے کے بعد میں دیر تک سوچتا رہا کہ یہ انسانی تاریخ کا بدترین المیہ ہے کہ ،جس دور کو لوگ عظیم سمجھتے ہیں جہاں لوگ دعوی کرتے ہیں کہ آج کا انسان ماضی کے تمام انسانوں کے مقابلے میں آزاد ترین انسان ہے وہاں جبری گمشدگی آج بھی اپنا وجود رکھتی ہے ۔چند روز قبل سینیٹ میں فرحت اللہ بابر صاحب اور چیئرمین سینیٹ نے لاپتہ افراد کے مسئلہ پر کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کہیں اور بنتی ہے۔پہلے صرف پاکستانی اٹھاکر غائب کردئیے جاتے تھے اب غیر ملکی بھی غائب کیے جارہے ہیں اگر ملک میں ایسا ہی چلتا رہا تو، عالمی برادری ہماری (پاکستان )کیا عزت کرےگی؟جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھاکہ اس نے پاکستانی ،امریکہ کوبیچے ہیں ،اورجنرل پرویزمشرف پاکستان سے باعزت باہرچلاگیا۔ہم بین الاقوامی سطح پراپنے لیے مشکلات خودتیارکررہے ہیں ۔آج پورے ملک میں لاکھوں لوگوں کو اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں یہ خوش گمانی ہوگی کہ وہ ہرمعاملے میں بااختیار ہیں ، مگر عدلیہ کا اختیار لاپتہ افراد کے کیسز میں کتناچلتا ہے ؟ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے ۔ پاکستان کی فکر کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ جزا اور سزا کا قانون جب تک اپنی روح کے مطابق نافذ نہیں ہوگا اس وقت تک نہ ملک ترقی کرسکتا ہے نہ معیشت پروان چڑھے گی اور نہ ہی امن قائم ہوگا ، اگرکسی نے جرم کیا ہے تو اس کو قانون کے مطابق سزادی جائے، قانون میں طریقہ کار واضح کردیا گیا ہے۔ اگر کوئی، طریقہ کار سے متفق نہیں یا وہ سمجھتا ہے کہ اس طریقہ کار میں خامیاں ہیں جو مجرموں کو فائدہ دیتی ہیں تو قانون ساز اسمبلی سے ترمیم کروائی جاسکتی ہے ۔ جن کے لیے پاکستان سب سے پہلے ہے ،ان کے لیے اسی پاکستان کاآئین ،قانون ،اصول وضابطے کیوں سب سے مقدس اورمعتبرنہیں ؟ خداکے بنائے ہوئے قانون کو نافذ نہ کرنے والے لوگ ،اب اپنے بنائے ہوئے قانون کی تو عزت کریں ۔ قومیں صرف کرپشن سے تباہ نہیں ہوتی ہیں ،قومیں صرف اخلاقی پستی سے تباہ نہیں ہوتی ہیں ، قومیں اس وقت تباہ ہوجاتی ہیں ، جب وہاں سے انصاف بھی ختم ہوجائے۔ہرفرد قیامت کے روز اللہ پاک کو نہ محب وطن ہونے کے ناطے جوابدہ ہوگا نہ کسی ادارے کافرد ہونے کے ناطے۔نہ دفاع وطن کے تقاضوں کے نام پرکسی ناانصافی پرمعافی طلب کرسکے گا۔روزمحشر ہر فرد کو اپنے کیے کا جواب اپنی ذاتی حیثیت کے مطابق دینا ہوگا۔
رسول ﷺ نے جنگ میں بھی قیدیوں ، بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کی حرمت کو سلامت رکھا۔ظلم کا بدلہ ظلم کسی صورت بھی نہیں ہوسکتا ۔ نفرت کا جواب محبت ہوتی ہے ، ناکہ نفرت۔اس لیے اصل پاور اور اقتدار رکھنے والے محب وطن بھائیوں کو چاہیے کہ وہ غریب، مظلوم اور کمزور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی بددعاؤں سے بچیں ۔وہ سادہ لوگ جومذہب کے نام پراستعمال ہوئے ،ان بیچاروں کاکیاقصورتھا؟کل تک کے غازی آج غدارٹھہرے ۔المیہ یہ نہیں لوگ مارے گیے المیہ یہ ہے کہ ،مارے جانے والے تاریک راہوں میں مارے گیے ۔اوران کے پیچھے بیوائیں ،بچے ،بوڑھے ماں باپ دربدرکی ٹھوکریں کھاتے تقدیرمیں لکھی آزمائشیں کاٹ رہے ہیں ۔المیے سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ آج بھی وہ لوگ جن کوخطابت آتی ہے جولاکھوں کامجمعہ جمع کرلیتے ہیں ،جولشکرتیارکرسکتے ہیں ۔وہ اپنی آنکھوں سے افغانستان اورکشمیرمیں اپنے ساتھ روارکھاجانے والاسلوک دیکھ کربھی توبہ کرنے پرراضی نہیں ہیں ۔آج بھی لشکرنکالنے کاٹھیکہ پکڑنے سے بازنہیں آتے ۔ایک روٹی ،دوبوٹی کے لیے مذہب کااستحصال انتہائی حرام عمل ہے ۔میں جب کبھی دارالحکومت کی اداس شام کاخوبصورت دیکھتاہوں تب وہ لاکھوں شہداء،قیدی اورغازی جوعالمی ،علاقائی ،گروہی ،مسلکی ،اورقومی مفادکوسمجھنے سے بالکل قاصررہے اوران کے بعدان کے دربدر،رلتے بچے دیکھتاہوں توخیال آتاہے کہ اللہ تعالی توان کی نیت کے عیوض ان کوضروراجردے گا،مگرکیایہ سب تاریک راہوں میں مارے گیے ۔۔۔۔۔۔؟؟؟


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر