... loading ...
امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ قوی امکان ہے کہ آئندہ ہفتے صدر ٹرمپ ایران کی جانب سے جوہری معاہدے پر عمل درآمد کی تصدیق نہیں کریں گے اور یہ معاملہ کانگریس کو بھیج دیں گے تاکہ ایران پر نئی پابندیاں عائد کی جا سکیں۔جوہری معاہدے کے تحت صدر ٹرمپ ہر تین ماہ بعد کانگریس کو یہ بتانے کے پابند ہیں کہ ایران اس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل کر رہا ہے۔امریکی صدر کو معاہدے پر عمل درآمد کی اگلی تصدیق 15 اکتوبر سے قبل کرنی ہے۔
امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جمعرات کو صحافیوں کو بتایا ہے صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق اپنے موقف کا اعلان آئندہ ہفتے متوقع ہے جس میں وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو امریکی مفادات کے خلاف قرار دیں گے۔امریکی اہلکار کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے اس اقدام کے نتیجے میں 2015میں طے پانے والا جوہری معاہدہ ختم تو نہیں ہوگا البتہ اس کے بعد امریکی ارکانِ کانگریس کے پاس یہ طے کرنے کے لیے 60 روز کا وقت ہوگا کہ آیا ایران پر وہ پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں یا نہیں جنہیں اس معاہدے کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔امریکی صدر کی جانب سے معاہدے کی تصدیق نہ کرنے کی صورت میں معاہدے پر از سرِ نو مذاکرات کی راہ بھی کھل سکتی ہے لیکن ایران کے صدر حسن روحانی اس آپشن کو پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔ایران کے ساتھ یہ معاہدہ سابق صدربارک اوباما کی حکومت نے کیا تھا جس پر دستخط کرنے والوں میں ایران اور امریکا کے علاوہ چین، روس، فرانس، برطانیہ اور جرمنی بھی شامل ہیں،اور ان میں سے کوئی بھی ملک ایران کے ساتھ معاہدے کو ختم کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کے حق میں نہیں ہے اس لیے اس اہم مسئلے پر ایک دفعہ پھر امریکی صدر ڈونلڈ تنہا کھڑے نظر آرہے ہیں ،جو امریکا جیسی سپر پاور کے لیے انتہائی شرم کی بات ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے پر ابتدا سے ہی کڑی تنقید کرتے رہے ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی بارہا اعلان کیا تھا کہ وہ صدر بننے کے بعد یہ معاہدہ ختم کردیں گے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق ایران اس معاہدے پر عمل درآمد کر رہا ہے ،جبکہ وائٹ ہائوس مسلسل یہ الزام لگاتا آیا ہے کہ ایران معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل پیرا نہیں۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز کہاتھا کہ وہ ایران کے ساتھ ایٹمی تعاون کے سمجھوتے کے حوالے سے فیصلے تک پہنچ گئے ہیںکہ آیا امریکا کو 2015کے بین الاقوامی معاہدے سے الگ ہو جانا چاہیے، جس کے تحت ایران کو جوہری ہتھیار تشکیل دینے کا راستہ ترک کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔تاہم ٹرمپ نے یہ بتانے سے احتراز کیا آیا اْنھوں نے کیا فیصلہ کیا ہے۔لیکن، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے ساتھ امریکا کی تلخی کا معاملہ توجہ کا مرکز بن چکا ہے، جس سے ایک ہی روز قبل اْنھوں نے یہ کہتے ہوئے ایران کی مذمت کی تھی کہ، ’’معاشی طور پر کمزور من مانی کرنے والا یہ وہ ملک ہے، جس کی خاص برآمدات تشدد، خونریزی اور افراتفری‘‘ ہیں۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر، ایچ آر مک ماسٹر نے ایران کے حوالے سے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خیالات کی تائید کی ہے اور وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ان خیالات کے حامی ہیں کہ امریکا کو 2015میں جوہری ہتھیاروں کی تشکیل ترک کرنے کے عوض ایران کے ساتھ ہونے والے بین الاقوامی معاہدے سے الگ ہوجانا چاہئے۔ اْنھوں نے بتایا کہ فیصلہ ایران کے بارے میں امریکا کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔مک ماسٹر نے ’این بی سی‘ کے پروگرام ’ٹوڈے شو‘ نے کہا کہ ’’صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اعلان بنیادی طور پر یہ اْس وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں ایران کے عدم استحکام پیدا کرنے کے رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم امریکی مفادات کے تحفظ کو اولیت دی جائے گی۔ایسے میں جب مک ماسٹر نے فیصلے پر روشنی نہیں ڈالی، اْنھوں نے تسلیم کیا کہ یہ بات ’’واضح ہے‘‘ کہ ٹرمپ سمجھوتے کے کچھ حصوں پر دوبارہ غور و خوض کرانا چاہتے ہیں جس کا تعلق معاہدے کی میعاد پوری ہونے اور ایران کے بیلسٹک میزائیل پروگرام سے ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے گزشتہ روز اپنے خطاب میں عالمی تنظیم کے 193 ملکوں کے سربراہان کے سالانہ اجتماع کو بتایا کہ ایران کسی کی دھمکی برداشت نہیں کرتا اور ٹرمپ کی شکایات سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ روحانی نے انھیں ’’بدنما، لاعلمی پر مبنی الفاظ‘‘ قرار دیا۔بظاہر امریکی سربراہ کا حوالہ دیتے ہوئے، روحانی نے کہا کہ دنیا کی سیاست میں ایک نووارد ’’آوارہ فرد‘‘ کی جانب سے جوہری سمجھوتے کی ’’تباہی‘‘ سے ایران کو پیش قدمی اور ترقی کی راہ سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔روحانی نے کہا کہ ’’ایران سمجھوتے کی خلاف ورزی میں پہل نہیں کرے گا۔ لیکن کسی فریق کی جانب سے اس کی خلاف ورزی پر وہ فیصلہ کْن اور پختہ جواب دے گا۔ بین الاقوامی فیصلوں کی خلاف ورزی کرکے، نئی امریکی انتظامیہ آئندہ نسلوں کی نظروں میں اپنی ساکھ گنوا دے گی‘‘۔ایک ٹوئٹر پیغام میں، ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ٹرمپ کے دعووں کو ’’ لاعلمی، نفرت پر مبنی خطاب‘‘ قرار دیا، جس کا تعلق قرون وسطیٰ کے دور سے تھا، نہ کہ 21 ویں صدی کی اقوام متحدہ سے‘‘۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مطالبات پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ کسی ملک کی اجازت لیے بغیر ایران میزائل کی اپنی استعداد بڑھائے گا۔ایران کے صدر روحانی نے ایک فوجی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے یہ باتیں کہیں، ایک ایرانی خبر رساں ادارے نے بتایا ہے کہ 2000 کلومیٹر (1200میل) کے فاصلے تک مار کرنے والا ایک نیا بیلسٹک میزائل نمائش کے لیے آویزاں کیا گیا ہے، جو جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔’تسنیم نیوز ایجنسی‘، نے یہ بات پاسدارانِ انقلاب کی ’ایئرواسپیس ڈویڑن‘ کے سربراہ، امیر علی حجازی زادہ کے حوالے سے کہی ہے۔ تاہم، میزائل کے بارے میں مزید تفصیل نہیں بتائی گئی۔گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں، ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران اپنی میزائل صلاحیت بڑھا رہا ہے؛ اور الزام لگایا کہ وہ اپنی شدت پسند کارروائیاں یمن، شام اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر حصوں کی جانب برآمد کر رہا ہے۔ٹرمپ نے 2015 میں امریکا اور چھ دیگر عالمی طاقتوں کی جانب سے ایران کے ساتھ طے کیے گئے جوہری معاہدے پر بھی نکتہ چینی کی، جس میں معاشی تعزیرات میں نرمی کے بدلے ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا۔
سرکاری ٹیلی ویڑن پر نشر کردہ خطاب میں، روحانی نے کہا کہ ’’طاقت کے ضروری مظاہرے کے طور پر، ہم اپنی دفاعی طاقت بڑھائیں گے۔ ہم اپنی میزائل صلاحیتوں کو مضبوط کریں گے۔ اپنے ملک کے دفاع کے لیے ہم کسی سے اجازت نہیں لیں گے‘‘۔صدرروحانی کے الفاظ میں ’’اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں، ماسوائے امریکا اور (اسرائیل) کی یہودی حکومت کے‘‘، تمام ملکوں نے جوہری معاہدے کی حمایت کی۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے بھی کہا ہے کہ معاہدے کو تبدیل کیا جائے ورنہ امریکا اس کا پابند نہیں رہے گا۔ ایران نے کہا ہے کہ اْس کے جوہری معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔امریکا کی جانب سے معاہدے سے ہٹنے کے امکان نے امریکا کے اْن اتحادیوں کو پریشان کیا ہے جنھوں نے سمجھوتہ طے کرنے میں مدد کی تھی، خاص طور پر ایسے میں جب دنیا شمالی کوریا کے جوہری اور بیلسٹک میزائل سے نبردآزما ہے۔
چین کے وزیر خارجہ وینگ یی نے کہا ہے کہ جزیرہ کوریا کے بارے میں تناؤ ایرانی سمجھوتے کی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے اور چین اْس کی حمایت جاری رکھے گا۔بیلسٹک میزائل کے تجربے کے بعد، ٹرمپ نے فروری میں ایران کو انتباہ جاری کیا تھا اور اْس کا میزائل پروگرام، جس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں اپنے عزائم کو بڑھاوا دینا تھا، کی پاداش میں جولائی میں نئی معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف امریکا کی جانب سے یکطرفہ تعزیرات عائد کرنا ’’غیر قانونی اقدام ہے اور اجتماعی نوعیت کی بین الاقوامی کوششوں کے لیے نقصاندہ ہے‘‘۔
امریکی وزیر دفاع جِم میٹس نے ایران کے بارے میںصدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات سے عدم اتفاق کرتے ہوئے اس بات پرزور دیا ہے کہ امریکا کو 2015 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری سمجھوتے میں شامل رہنا چاہیئے، حالانکہ معاہدے کے بارے میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ شدید تنقید کر چکے ہیں۔میٹس نے سینیٹ کی مسلح افواج کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ’’اگر ہم اس بات کی تصدیق کر سکیں کہ ایران سمجھوتے کی پاسداری کر رہا ہے، اگر ہم یہ طے کر لیتے ہیں کہ یہی ہمارے بہترین مفاد میں ہے، تو ہمیں اس میں رہنا چاہیئے‘‘۔اْنھوں نے کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ اس مرحلے پر، اس کے برعکس معاملے پر، یہ ایسی بات ہے کہ صدر کو اس میں رہنے پر غور کرنا چاہیئے‘‘۔امریکی محکمہ خارجہ دو ہفتے کے اندر اندر کانگریس کو اس بات کی تصدیق کرے گا آیا ایران معاہدے کی شرائط میں عمل کر رہا ہے، جسے باضابطہ طور پر مشترکہ مربوط اقدام کا طریقہ کار کہا جاتا ہے۔ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ اْنھوں نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا ہے، لیکن ابھی یورپی سربراہان کو اپنے فیصلے سے آگاہ نہیں کیا، جن میں برطانیہ کی تھریسا مے شامل ہیں، جنھوں نے، اطلاعات کے مطابق، گذشتہ ماہ اقوام متحدہ میں ہونے والی ایک دوطرفہ ملاقات میں اس متعلق پوچھا تھا۔ ٹرمپ اپنے پیش رو، بارک اوباما کے سخت ناقد رہے ہیں، جو اِسے اپنی فخریہ خارجہ پالیسی کی کامیابی خیال کیا کرتے تھے۔گذشتہ سال، صدارتی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ اِسے ’’خراب سمجھوتہ‘‘ قرار دے چکے ہیں، جسے، بقول اْن کے، وہ ختم کر دیں گے۔ اور گذشتہ ماہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران اْنھوں نے معاہدے کو ’’شرمندگی کا باعث‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’امریکا کی جانب سے کیے جانے والے معاہدوں میں یہ بدترین اور سب سے زیادہ یک طرفہ نوعیت کا معاہدہ ہے‘‘۔
جہاںتک ایران کے ساتھ معاہدے کاتعلق ہے تو اس حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ یہ صرف امریکا اورایران کے درمیان دوملکی معاہدہ نہیں ہے بلکہ اس معاہدے میں ایران اور امریکا کے علاوہ چین، روس، فرانس، برطانیہ اور جرمنی بھی شامل ہیں ،اس لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے خلاف کوئی بھی فیصلہ یکطرفہ فیصلہ تصور کیاجائے گا اور امریکا ایران کے خلاف خود تو پابندیاں عاید کرسکے گا لیکن عالمی سطح پر کسی طرح کی پابندی عاید نہیں کراسکے گا ایسی صورت میں ایران کے ساتھ معاہدہ توڑنے کاسب سے زیادہ نقصان امریکا کو ہی ہوگا، اور امریکی ادارے ایران کو کی جانے والی برآمدات سے ہونے والی آمدنی سے محروم ہوجائیں گے،جس سے امریکا کی کمزور پڑتی معیشت مزید زیر بار ہوگی اور اس کانقصان بحیثیت مجموعی پوری امریکی قوم کو برداشت کرنا پڑے گا جبکہ ایران دیگر ممالک سے اپنی پسند کی اشیا خرید کر اور ان ممالک کے لیے اپنی برآمدات میں اضافہ کرکے ان پابندیوں سے ہونے والے نقصان کابآسانی ازالہ کرلے گا۔لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے اب تک کے بیانات اور کارروائیوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ضدی مزاج کے مالک ہیں اور وہ امریکی معیشت اور امریکی عوام کو پہنچنے والے نقصان کو نظر انداز کرکے ایران کے خلاف پابندی لگانے کی اپنی ضد ضرور پوری کریں گے۔
ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ پر سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے ۔پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جاتا ہے اور اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالان...
سندھ کابینہ نے رینجرز کی کراچی میں تعیناتی کی مدت میں 180 دن کے اضافے کی منظوری دے دی۔ترجمان حکومت سندھ نے بتایا کہ رینجرز کی کراچی میں تعیناتی 13 جون 2024 سے 9 دسمبر 2024 تک ہے ، جس دوران رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت اختیارات حاصل رہیں گے ۔کابینہ نے گزشتہ کابینہ ا...
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انتخابات میں کامیابی کے لیے بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی دے رہے ہیں ۔ دی وائر کے مطابق بی جے پی نے آفیشل انسٹاگرام ہینڈل کے ذریعے مودی کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں مودی کہتے ہیں کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ہندؤں کی جائیداد اور دولت م...
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کسی بھی صورت غزہ میں جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا معاہدہ تسلیم نہیں جس میں جنگ کا خاتمہ شامل ہو۔اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ ...
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر شرقی نے بتایا کہ جے یو آئی کو ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ پر جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر بڑے عوامی اجت...
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کوئی بات ہوگی تو سب کے سامنے ہوگی اور کوئی بات چیت کسی سے چھپ کر نہیں ہوگی،بانی پی ٹی آئی نے نہ کبھی ڈیل کی ہے اور نہ ڈیل کے حق میں ہیں، یہ نہ سوچیں کہ وہ کرسی کیلئے ڈیل کریں گے ۔میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گن...
فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ دنیا بھر کی جامعات میں پھیلنے لگا۔امریکا، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا کی جامعات کے بعد یونان اور لبنان کی جامعات میں بھی طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔امریکی جامعات میں احتجاج کا سلسلہ تیرہویں روز بھی...
غزہ میں مظالم کے خلاف اسرائیل کی مبینہ حمایت کرنے والی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ معروف امریکی فوڈ چین کے ایف سی نے ملائیشیا میں اپنے 100 سے زائد ریستوران عارضی طور پر بند کرنیکا اعلان کر دیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ملائیشیا میں امریکی فوڈ چین کی فرنچائز کم...
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔لاہور میں فلسطین کانفرنس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ یہاں بلاوجہ شہباز شریف کی شکایت کی گئی اس بیچارے کی حکومت ہی...
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، ہم سب مل کر پاکستان کو انشااللہ اس کا جائز مقام دلوائیں گے اور جلد پاکستان اقوام عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کر لے گا۔لاہور میں عالمی یوم مزدور کے موقع پر اپنی ذاتی رہائش گاہ پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ ا...
غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے رہنما راجوری اور پونچھ میں مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ یا تو سنگھ پریوار کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق 1947میں جموں خطے میں ہن...
پی ٹی آئی نے جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ، جے یو آئی ف کے سربراہ کو احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کے لیے باقاعدہ دعوت دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق مذاکراتی ک...