وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی کا مضافاتی قلعہ رتوکوٹ، جو ڈوبنے کے قریب ہے

اتوار 24 ستمبر 2017 کراچی کا مضافاتی قلعہ رتوکوٹ، جو ڈوبنے کے قریب ہے

ابوبکر شیخ
جب آپ کراچی کے سمندری کنارے سے کشتی میں بیٹھ کر کسی بھی جزیرے پر چلے جائیں تو جولائی کے گرم ترین شب روز بھی کسی افسانوی دنیا جیسے لگنے لگتے ہیں۔ آپ ابراہیم حیدری کے نزدیک واقع ’ڈنگی‘ اور ’بھنڈاڑ‘ جزیروں پر بھی جا سکتے ہیں۔یہ دونوں جزائر فطرت کی ایک عنایت ہیں۔ وہاں بھنڈاڑ پر آپ کو ایک قدیم درگاہ بھی مل جائے گی جہاں جزیروں پر رہنے والے ماہی گیر ہر سال میلے کا انعقاد کرتے ہیں۔ ان جزیروں کے کناروں تک کثافت نہیں پہنچی اس لیے وہاں کے کنارے ابھی تک صاف سْتھرے ہیں اور ابھی تک تیز دھوپ میں وہاں دودھ جیسی سفید ریت دھوپ میں چاندی کی طرح چمکتی ہے۔وہاں آپ کو چھوٹی چھوٹی جْھگیاں بھی دیکھنے کو مل جائیں گی جن میں ماہی گیر رہتے ہیں۔ ابراہیم حیدری یا کراچی اتنا دْور نہیں ہے کہ وہ یہاں سے جا نہ سکیں مگر ان کے چہارسو بسی فطرت ان کے آنکھوں، ذہن اور خون میں کچھ ایسی رچ بس گئی ہے کہ اگر فاقے کی صورتحال ہو تو بھی گزارہ ہو جائے۔ مگر سمندر کے صاف کنارے، باد صبا، صاف سْتھرے آسمان پر صبح کی لالی، پرندوں کی آواز کانوں کو بھلی لگنے والی خاموشی سے وہ آخری سانس تک جْدا نہیں ہونا چاہتے۔ یہ ان کے نصیب ٹھہرے۔
مگر یہاں ایسے جزیرے بھی ہیں جن پر کبھی بستیاں آباد تھیں، قلعے اور بندرگاہیں تھیں۔ میں نے جب رتوکوٹ کے مْتعلق پڑھا تو یہ ان جزیروں پر واحد ایسا خستہ حال قلعہ تھا جس کی اینٹ اینٹ میں پْراسراریت کسی آکاس بیل کی طرح اْگتی تھی۔جہاں بھی اس کا تاریخ کے صفحات میں ذکر آتاہے ۔ وہیں اس قلعے میں رہنے والوں کا ذکر کم اور یہاں بہے خْون کا ذکر زیادہ آتاہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ جس وقت اس قلعے کی پہلی اینٹ رکھی گئی ہوگی تب ستاروں کی چال کیا تھی؟ مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو پہلی اینٹ تھی اْس اینٹ میں ہی کسی بے گناہ کے خْون کے قطروں کو گوندھ دیا گیا ہو۔ بہرحال یہ کوئی اچھے نصیب کا حامل قلعہ نہیں تھا۔یہ تاریخی لیکن خستہ حال قلعہ کراچی مرکز سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ’ریڑھی میاں‘ سے تین کلومیٹر دور جنوب مشرق میں ہے۔ وہ تین کلومیٹر ہم نے کشتی میں سوار ہو کر عبور کیے۔ ہم تمروں کے جنگلات سے ہوتے ہوئے جب رتوکوٹ کے مشرق میں پہنچے تو ہائی ٹائیڈ اپنے عروج پر تھی۔
کشتی چلانے والے نے لنگر پانی میں پھینکا کہ کشتی ٹھہر جائے اور کشتی ٹھہر گئی۔ ایک کلومیٹر کے فاصلے پر رتوکوٹ تھا، اس دوری سے گہری سْرخ اینٹوں کا سلسلہ اْونٹوں کی ایک جاتی ہوئی قطار سا محسوس ہوتا ہے۔ میں یہاں تقریباً ہر موسم میں یہاں آیا ہوں۔ کیوں آیا ہوں، اس کا مجھے بھی علم نہیں شاید یہاں بار بار آنے کو جی چاہتا ہے کہ یہاں کی پْراسراریت اور خاموشی آپ کے دماغ میں بہہ کر ایک عجیب قسم کی کیفیت پیدا کرتی ہے اور شاید اس کیفیت کو محسوس کرنے کے لیے یہاں بار بار آتا ہوں۔جزیرے پر قدم رکھنے سے قبل جزیرے کے بارے میں تاریخ کے اوراق پلٹے، ان میں جو کچھ تحریر ہے وہ آپ کو بھی بتا دیتا ہوں تاکہ اس قلعے کی تاریخ کو سمجھنے میں زیادہ آسانی ہو۔
محترم گْل حسن کلمتی صاحب اپنی تحقیقی کتاب ’کراچی سندھ جی مارئی‘ میں رقم طراز ہیں، “دریائے سندھ کا ایک بہاؤ گھارو کریک سے بہہ کر ابراہیم حیدری کے قریب سمندر میں گرتا تھا، اس بہاؤ پر گزری، واگْھوڈر، ریڑھی میان، ابراہیم حیدری اور رتوکوٹ خوشحال بندر تھے، دریائے سندھ کے بہاؤ کا راستہ تبدیل ہونے سے اور سمندر کے آگے بڑھنے سے ’پھٹی کریک‘، ’کورنگی کریک‘ اور ’گھارو کریک‘ جو ایک زمانے میں دریائے سندھ کے بہاؤ تھے وہ سمندر کے پانی سے بھر گئے اور کئی مقامات سمندر نے ڈبو دیے۔
رتوکوٹ جو ’مْچق‘ جزیرے پر واقع ہے جو اپنے زمانے میں ایک مشہور اور خوبصورت بستی ہوا کرتی تھی۔ یہ 1640 میں ’بڑچھ‘ قبیلے کی ریاست تھی جو وقت کے ساتھ اپنے رْوپ تبدیل کرتی رہی۔ پھر کبھی ریاست سے بستی بنی، کبھی بندرگاہ تو کبھی سرداروں کے رہنے کا کوٹ۔”
ہمارے سامنے ایک بڑی اراضی پر سْرخ رنگ کی اینٹیں بکھری پڑی تھیں۔ قلعے کے مغرب میں کسی بْزرگ کی قبر کے نشانات تھے۔ قبر کے سرے پر ایک لکڑی گڑی ہوئی تھی اور جھنڈوں کے طور پر لگے ہوئے کپڑوں سے تیز دھوپ اور نمکین ہوا نے رنگ چھین لیے تھے۔ مگر ہوا میں اْڑ کر ہلکے آواز سے وہ اپنے وجود کا احساس دلا رہے تھے۔تاریخ کی کتابوں کے مطابق یہاں ایک قدیم قبرستان بھی تھا جس میں چوکْنڈی طرز کی قبریں تھیں۔ یقیناً ہوں گی مگر سمندر کا پیٹ نہیں بھرتا اس لیے اْس نے اس قبرستان کو بھی نگل لیا۔ بس کسی آخری آرامگاہ کا ایک پیلا پتھر بچا تھا جس پر بھی سمندر نے اپنی آنکھیں گاڑ ھ رکھی تھیں۔ اب اگر آپ وہاں جائیں گے تو وہ لائم اسٹون کا پیلا پتھر شاید سمندر نگل چْکا ہوگا۔ میرے پاس اْس آخری پتھر کی بس ایک دھندلی سی تصویر رہ گئی ہے اور اتفاق دیکھیے کہ اْس پتھر کی تصویر بھی دھندلی ہی آئی
رتو کوٹ کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس کی قدامت کئی سو برسوں پر مْحیط ہے۔ آثار قدیمہ کے ایک فرینچ ماہر تحریر کرتے ہیں، “میں نے 1989 میں رتو کوٹ دیکھا تھا جہاں بڑی تعداد میں کلے پورسلین پھیلا ہوا تھا۔ جو مجھے لگ بھگ آٹھویں صدی پرانا نظر آیا جبکہ وہاں موجود ٹوٹے ہوئے برتنوں اور دوسرے پکے ہوئی چیزوں کا ملبہ نظر آیا وہ تیرہویں اور چودہویں صدی کا تھا۔ جس سے اندازہ لگانا مْشکل نہیں کہ یہ بستی آٹھویں صدی یا اس سے پہلے بھی آباد تھی۔”اشتیاق انصاری لکھتے ہیں، “رتوکوٹ ایک زمانے میں ’بڑچھ‘ قبیلے کی ریاست تھی، مرزا صالح (1640) جو مرزا عیسیٰ خان کے بیٹے تھے اور ٹھٹھہ کے نواب تھے تب ’بڑچھوں‘ اور بلوچوں کی آپس میں جنگ ہوئی، روایت ہے کہ جس رات کلمتی بلوچوں نے یہاں اچانک حملہ کیا اْس رات قلعے میں ایک سو بیس جوڑوں کی شادیوں کی تقریب تھی، کہتے ہیں اْس رات یہاں بہت خون بہا یہاں تک کے پالنے میں سوئے ہوئے معصوم بچوں کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔ سارے قلعے کو لْوٹ لیا گیا اور جو برباد ہوسکتا تھا اسے برباد کیا گیا۔ جو ’بڑچھ‘ قبیلے کے کچھ خاندان بچ گئے تھے وہ جوکھیوں کے پاس آ کر رہنے لگے۔”
اس خونریزی کے بعد قلعے میں پھر کبھی کسی نومولود بچے کے رونے کی آواز نہیں گونجی اور نہ ہی کسی بچے کی ہنسی کھنکھ سنائی دی۔ کہتے ہیں کہ بے گناہ بہے ٹھنڈے خون کی بیچارگی میں بہت دْکھ اور بے بسی ہوتی ہے اور یہ دونوں کیفیات جب اپنی آخری حد کو چْھو جائیں تو ان میں سے پراسراریت جنم لیتی ہے جس کی پگڈنڈیاں تاریخ کے اوراقوں میں صدیوں تک پھیل جاتی ہیں۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
مگر اس قلعے کے نصیب میں ایک بار پھر خون بہنا لکھا تھا۔ غلام شاہ کلہوڑو کے دور حکومت (1756-1772) میں ’رانو ارجن‘ دھاراجا (جو موجودہ میرپور ساکرو اور بْہارا سے مغرب میں واقع ہے) اپنی ریاست پر راج کرتا تھا۔ غلام شاہ نے اپنے ٹھٹھہ کے نواب ’شْکراللہ‘ کو حکم دیا کہ، رانو ارجن کو مار دیا جائے تاکہ اس کے علاقے پر قبضہ کیا جا سکے۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے، نواب نے ’بجار جوکھیو‘ کو بلایا اور یہ حکم سْنایا۔ بجار جوکھیو نے یہ کام کرنے کی حامی بھری۔تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ، اس حکم کے کچھ عرصہ بعد جاڑوں کے ابتدائی دنوں میں رانو ارجن اپنے ساتھیوں کے ساتھ شکار کرتا ہوا دوسرے دن اس خستہ قلعے پر آ پہنچا۔ رات کے کھانے اور کچہری کے بعد ہر کوئی اپنے خیمہ میں جاکر سویا۔
رانو کے خیمے میں دیپک جلتا تھا اور اس کی مدھم روشنی میں تھکان کی وجہ سے رانو ارجن گہری نیند سو گئے۔ حملہ کے لیے آئے ہوئے بجار جوکھیو کے 80 لوگ اسی انتظار میں تھے، ان لوگوں نے سوئے ہوئے چند لوگوں پر حملہ کر دیا۔ کسی کو سنبھلے کا موقع تک نہیں ملا اور رات کی سیاہی میں ایک بار پھر اس قلعے کی زمین فرش اور دیواریں خون آلود ہوئیں۔کہتے ہیں اس کامیاب حملے اور خون بہانے کے بدلے میں بجار جوکھیو کو ’جام‘ کا لقب دیا گیا اور جوکھیوں کا سردار مقرر کیا گیا۔
میں نے پورا آدھا دن اس قلعے کی گرتی دیواروں اور اندر بنے برآمدے اور کمروں کو دیکھ کر گْزار دیا۔ جب میرے دوسرے ساتھی کسی اور طرف نکل جاتے تو ان خستہ دیواروں اور فرش کو دیکھ کر ایک عجیب سی کیفیت میرے اندر پیدا ہوتی کہ اس قلعے میں ہزاروں راتیں ایسی بھی آئی ہوں گی جب یہاں شادیانے بجے ہوں گے۔ یہاں مقیم عورتوں نے گیت گائے ہوں گے۔ فانوسوں کی روشنی میں بچوں نے دوڑٰیں لگائی ہوں گی۔
مگر ایک تلوار کی ایک دھار ان ہزاروں راتوں پر بھاری رہی، زندگی کے سارے رنگ اس تلوار کی ضرب میں بسی ہوئی لالچ اور حوس نے چاٹ لیے اور پھر اْسی لالچ کی ضرب نے ایک بار پھر سوئے ہوئے بے گناہ لوگوں کا گلا کاٹ دیا کہ وحشت کی کوئی ذات ہوتی ہے نہ کوئی ایمان، نہ کوئی رشتہ اور نہ کوئی مذہب۔
مغرب کے ماتھے پر جیسے کسی نے سورج ڈوبنے کی سْرخی اْنڈیل دی تھی۔ سمندر میں جوار بھاٹا کا وقت ختم ہو گیا تھا۔ پانی نے پھر کناروں کی طرف لوٹنے کا سفر شروع کیا۔ ہم نے واپسی کے لیے پر تولے۔جب کشتی گھْوم کر شمال کی طرف چلنے لگی تو میں نے رتو کوٹ کو دیکھا، سورج کی ہلکی سْرخی ابھی تک تھی اور رتو کوٹ پر ویرانی اور خاموشی کی اوس پڑنے لگی تھی۔ میں نے ایک اْداس نظر سے رتو کوٹ کو دیکھا اور دل ہی دل میں ان دیواروں سے مخاطب ہوا اور واعدہ کیا کہ آنے والے جاڑوں میں، میں ضرور لوٹ آؤں گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر