وجود

... loading ...

وجود
وجود

نواز شریف کے4سالہ دورکے اربوں ڈالر قرض کی رقم کہاں گئی؟

هفته 16 ستمبر 2017 نواز شریف کے4سالہ دورکے اربوں ڈالر قرض کی رقم کہاں گئی؟

ملک پربڑھتے ہوئے گردشی یاسرکلر قرضوں، درآمدات میں بے انتہا اضافے اور برآمدات میں کمی کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں ملازم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں کمی کی وجہ سے ملک کی معیشت سنگین صورت حال کاشکار ہوکر رہ گئی ہے اور ملکی حالات اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ ہماری معیشت بری طرح گرداب میں پھنسی نظر آرہی ہے ، اس وقت حقیقی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کے زرمبادلے کے ذخائر غیر ضروری طورپر بڑھا چڑھا کر دکھانے کے لیے قومی ادارے گروی رکھ کر دنیا کے کم وبیش تمام مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرلیا ہے اور اب ان قرضوں پر سود اور منافع کی ادائیگی کے لیے مزید قرض حاصل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور یہاںتک اطلاعات ملی ہیں کہ عالمی بینک نے پاکستان کو مزید قرض دینے سے انکار کردیاہے،اور اب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف عوام کاایک بڑا طبقہ دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہے اور دوسری طرف حکمراں ہرطرف سے آنکھیں بندکرکے ، شاہانہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیںلیکن اس کے باوجود ان کی لالچ اور اقتدار کی بھوک اپنے انجام تک نہیں پہنچ رہی ، حقیقی معنوں میں اس وقت ملک کے اندرونی و بیرونی حالات اپنی سمت تبدیل کرتے نظر آرہے ہیں جبکہ ہمارے ملک میںہر طرف افراتفری کاسماں نظر آرہا ہے۔
بیرونی سطح پر پاکستان کو گوناگوںچیلنجوں کاسامنا ہے ،سابق وزیر اعظم کی انا کی وجہ سے ملک میں 4سال تک کوئی کل وقتی وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی سطح پر بھارت امریکا کے ساتھ مل کر پاکستان کیخلاف ایک محاذ کھڑا کرنے کی کوشش کررہاہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ موجودہ حکومت نے اپنی پوری مشینری سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئے جانے والے عالیٰ جاہ کی امیج بلڈنگ اور ان کو نااہل قرار دینے والی پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے جج صاحبان کی کردار کشی کی مہم پر لگادیا ہے۔نااہل قرار دئے گئے عالی جاہ کے نورتنوں اور ان کے سیاسی جانشین اب عوام کو یہ باور کرانے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کے 20کروڑ عوام نے ان کو ووٹ دیکر اسمبلی میں بھیجا تھا ، اوراعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے انھیں فارغ کردیا ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ن کو پاکستان کے20کروڑ نہیں بلکہ ڈیڑھ کروڑ عوام نے ووٹ دیکر اقتدار کے ایوان میں بھیجا تھااور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ انھیں ووٹ دینے والے ان ڈیڑھ کروڑ عوام کی آشائیں پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہے اور اقتدار کے نشے میں خود کو شہنشاہ اعظم تصور کرنے لگے، اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت وہ کسر شان سمجھتے تھے یہاں تک کہ شبانہ روز محنت کے بعد منتخب ہوکراسمبلی میں اکثریت بنا کر انھیں اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچانے والے اپنی ہی پارٹی کے ارکان اسمبلی کے لیے بھی ان کے پاس وقت نہیں تھا ۔ کرپشن اور اقرباپروری کی سیاست میں لت پت حکمران ہمیشہ سے ہی اپنے “جاہ و جلال “اور بڑے محلات میں بادشاہت کی طرز پررہنا پسند کرتے ہیں آج ملک میں جس سیاسی لیڈرشپ کے فقدان کی باتیں ہو رہی ہیں اللہ جانتا ہے کہ پاکستان میں “کرپشن “اور “معیشت “ کی تباہی کو پروان چڑھانے میں ان سیاستدانوںکا اول دن سے ہاتھ رہا ہے ، اگرماضی کی تلخ حقیقتوں کو کھنگال کر دیکھاجائے تو ایسے ایسے تماشے اور کرپشن کی کہانیاں سننے کو ملیں گی جو رونگٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی ہوں گی۔ملک کے اربوں روپے لوٹنے والوں کو چند ٹکوں کے عوض چھوڑ دیاجاتا ہے ۔ پاکستان میں کرپشن کو ختم کرنے ، اداروں کو مضبوط اور “کشکول “ توڑنے کے حوالے سے جس طرح کے دعوے کیے گئے تھے۔ آج سے چار سال قبل اگر ان پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا جاتا توشاید ان کو آج دربدر نہ ہونا پڑتا ، مگر یہاں کرپشن کی گنگا آج تک بہہ رہی ہے پاکستان کا غریب طبقہ مصائب اور مشکلات کے لاتعداد مسائل میں جکڑاہوا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہی “کرپشن “کا ناسور ہے جو ملک کی بنیادوں کومضبوط نہیں ہونے دے رہا۔
پاکستان اس وقت جن حالات سے دوچار ہے اس کی ذمہ داری کسی ایک حکمران یا فرد پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں ایڈمنسٹریٹر سے لیکر چپڑاسی تک کرپشن کرنا اپنا قانونی اور جائز حق سمجھتا ہے اور اپنے جائز کام کرانے کے لیے بھی رشوت دینا ایک ضرورت بن چکا ہے۔ کرپشن کی لعنت نے جس قدر پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اس سے بڑھ کر دوسرا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت “دہشت گردی سے بڑا مسئلہ پاکستان میںکرپشن کاخاتمہ ہے “ مگر ایسا کون اورکیسے کرے گا یہ ایک تلخ سوال ہے جس کاجواب حاصل کر نااگرچہ پاکستان کے ہر فرد کا حق ہے ، لیکن اس کا کوئی جواب کسی کے پاس نظر نہیں آتا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کا پورا نظام اس وقت سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہے جن کا مقصد پاکستان میں حکومت کرنا اور یہاں سے مال و دولت اکٹھا کرکے بیرون ملک محلات کھڑے کرناہے،تاکہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد پوری زندگی عیش وآرام سے گزار سکیں اور چین کی بانسری بجائیں ۔ آپ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کر دیکھیں اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دی گئیں ،اسے فلاحی ریاست بنانے کے لیے قائد محمد علی جناح جیسی نابغہ روزگار شخصیت نے جو افکار و نظریات ہمیں دئیے آج اس کا عشر عشیر بھی اگر پاکستان کو مکمل فلاحی ریاست بنانے کے لیے وقف کر دیاجاتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔سابقہ ادوار سے لیکر موجودہ حکومت تک سب نے کرپشن کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ اگر یہ نہیں مانتے تو یہ پاکستان کے عوام کو خود سمجھنا ہوگا ، پاناما اسیکنڈل اس کی ایک کڑی تھا۔اسی کیس کے حوالہ سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں سابق حکمرانوں کی مزید ایسی کمپنیوں کا انکشاف ہوا جس نے پاکستان کے 20کروڑ عوام کے رونگٹے کھڑے کر دئیے۔ جبکہ اس کیس کے بعد سے آج تک موجودہ حکومت کے نورتن اور سابق حکمران ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ “مجھے کیوں نکالا“ہمیں“کرپشن “کی وجہ سے نااہل نہیں کیا گیا بلکہ اپنے ننھے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی صورت میں نااہل کر دیا گیا ، یہ وہ شرمناک فعل ہے جو پاکستان کے عوام کو ایک مرتبہ پھر لالی پاپ دینے کی کوشش ہے ، اب آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میںگزشتہ چار سال کے دوران کیا گل چھرے اڑاے گئے۔کہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہو رہی ہے مگر انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت اندرونی و بیرونی قرضوں تلے دبی ہوئی ہے اربوں ڈالر قرض لیکر ملک کا نظام چلانے کی کوششیں کی گئیں جو شاید ماضی کی کرپٹ ترین حکومت نے نہ کی ہوں۔ ابھی حال ہی میں ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس کے مطابق پاکستان کا ہر فرد 95ہزار روپے کا مقروض ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس رپورٹ میں بھی حقائق چھپائے گئے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر پاکستانی ایک لاکھ 16ہزار روپے کا مقروض ہے۔پاکستان پرواجب الادا قرضوں کے بارے میں جو حقائق قومی اسمبلی میںپیش کیے گئے اس سے قطع نظر اگر باریک بینی سے ان قرضوں کابغور جائزہ لیاجائے اور دیکھاجائے تو پاکستان کی اس حکومت نے جو خود کو پاکستان کی کامیاب ترین حکومت کہتے ہوئے نہیں تھکتی قرضوں کا ایک طوفان برپا کر رکھا ہے اور انتہائی ظالمانہ شرائط پر ملکی وغیر ملکی اوربھاری سود پر قرضے لے کر پوری قوم کو مقروض بنا دیا ہے۔موجودہ حکومت نے ملک کے بچے بچے کوقرضوںمیں توجکڑ دیاہے لیکن صحت اور تعلیم جیسے اہم ترین شعبوں پر رتی برابر کام نہیں کیا گیا بجٹ میں تعلیم اور صحت کے لیے مختص کیے گئے فنڈز کو اگر ایماندار ی سے خرچ کیاجاتا تو پاکستان میں تعلیم اورصحت جیسے شعبوں کوخاطر خواہ ترقی دی جاسکتی تھی اور پاکستان میںعام شہریوں کوبھی علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کی جاسکتی تھیں۔
آج پاکستان کے 20کروڑ عوام گزشتہ 4سال تک حکمرانی کرنے والوںسے یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ “ہمارے مسائل ختم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتے ہی کیوں جارہے ہیںاور بھاری شرح سود پر حاصل کئے جانے والے قرضوں کی بھاری رقم کہاں غائب ہو جاتی ہے کس کے اکائونٹس میں منتقل ہورہی ہے “ پاکستان کا ہر شہری لاکھوں روپے کا مقروض ہے مگر ان کی حالت بہتر کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا گیا۔
ملکی معیشت کو دیکھاجائے تو آج ہماری برآمد اور درآمدات میں زمین آسمان کا فرق حائل ہے 20سال قبل پاکستان کی برآمدات کا حجم آج کی درآمدات سے زیادہ تھا مگر آج ہماری برآمدات تشویش ناک حد تک نیچے آچکی ہیں جبکہ موجودہ حکومت کے قرضوں کے حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ اس حکومت نے اپنے چار سال کے دوران تقریبا36ارب ڈالر قرضہ لیا ان بے تحاشہ قرضوں میں انٹر نیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) اور دیگر مالیاتی اداروں سے لی گئی 18ارب ڈالر کی رقم پہلے لیے گئے قرضوں کی ادائیگیوںکے لیے تھی جبکہ اس میں 18ارب ڈالرکا وہ نیا قرضہ شامل ہے جو کہاں خرچ کیا گیا آج تک اس کا کسی کو علم نہیں ۔ موجودہ حکومت نے9ماہ کے دوران 819ارب روپے مزید مقامی قرضے لیے ، 31دسمبر 2016تک مجموعی قومی قرضوں کی مالیت 12ہزار 310ارب روپے تھی جو آج 20ہزار ارب روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ یکم جولائی 2016سے لیکر 31مارچ 2017کے دوران موجودہ حکومت نے 819ارب روپے اندرونی قرضے لیے جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور تجارتی بینکوں سے حاصل کیے گئے حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 735ارب روپے جبکہ تجارتی بینکوں سے 84ارب روپے قرضے لیے ان قرضوں کابھی کچھ اتاپتہ نہیں اس حکومت نے یہ رقم کہاں خرچ کی ، ان تمام تر حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا قطعاً غلط نہ ہوگا کہ ہمارے حکمران پروٹوکول اور شاہانہ زندگیاں گزارنے کے لیے ہی حکومت میں آتے ہیںا ور اقتداربے دخل ہوتے ہی وہ موسمی پنچھی کی طرح اڑکر لندن ،امریکا یا دبئی میں آشیانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ،اس صورتحال کاتقاضہ ہے ہمیںاب یہ سوچنا ہوگا کہ اگر آج ہم نے اپنے مستقبل کا نہ سوچا تو کبھی بھی ہم ان مسائل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔


متعلقہ خبریں


اسحاق ڈار نائب وزیراعظم پاکستان مقرر وجود - پیر 29 اپریل 2024

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم مقرر کر دیا۔وزیراعظم نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم مقرر کرنے کی منظوری دی۔کابینہ ڈویژن نے اس ضمن میں نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے ۔وزیر خارجہ اس وقت وزیراعظم کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ حکومت پاکستان...

اسحاق ڈار نائب وزیراعظم پاکستان مقرر

پاکستان کے لیے 1.1ارب امریکی ڈالرز کی حتمی قسط کی منظوری متوقع وجود - پیر 29 اپریل 2024

وزیراعظم شہبازشریف اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان سعودی عرب میں جاری عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے دوران غیررسمی اہم ملاقات ہوئی جہاں پاکستان کے ایک اور قرض پروگرام میں داخل ہونے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔تفصیلات کے مطا...

پاکستان کے لیے 1.1ارب امریکی ڈالرز کی حتمی قسط کی منظوری متوقع

فلسطینیوں کی حمایت، طلبہ کا احتجاج مزید وسیع ہوگیا وجود - پیر 29 اپریل 2024

غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں امریکا سے شروع ہونے والا طلبہ کا احتجاج مزید وسیع ہوگیا ہے ۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اب برطانیہ، اٹلی، فرانس اور آسٹریلیا کے طلبہ بھی میدان میں آگئے ، انہوں نے اسرائیلی کمپنیوں سے تعلقات منقطع کرنے کی حمایت کی ہے۔ ادھر کولمبیا یونیورسٹی ...

فلسطینیوں کی حمایت، طلبہ کا احتجاج مزید وسیع ہوگیا

لیاری سے بی ایل اے کاانتہائی مطلوب دہشت گرد گرفتار وجود - پیر 29 اپریل 2024

حساس ادارے نے چھاپہ مار کارروائی میں کراچی اور بلوچستان کی پولیس کو انتہائی مطلوب دہشت گرد سمیت 3 افراد کو گرفتار کر کے اسلحہ برآمد کر لیا، گرفتار دہشت گرد کالعدم بی ایل اے کے لیے ریکی اور دہشت گردی کی متعدد واردتوں میں ملوث رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق دہشت گرد اور اس کے ساتھی کو اب...

لیاری سے بی ایل اے کاانتہائی مطلوب دہشت گرد گرفتار

درآمد گندم مقررہ اجازت سے زائد منگوانے کا انکشاف، ایک ارب ڈالر کا نقصان وجود - پیر 29 اپریل 2024

درآمد شدہ گندم مقررہ ضرورت و اجازت سے زائد منگوائے جانے اورپرائیویٹ سیکٹر کو نوازے جانے کا انکشاف ہوا ہے ،بیوروکریسی کے غلط فیصلوں سے قومی خزانہ کو ایک ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے ۔ ذرائع کے مطابق نیشنل فوڈ سکیورٹی نے ضرورت سے زیادہ گندم ہونے کے باوجود 35 لاکھ 87 ہزار ٹن گندم د...

درآمد گندم مقررہ اجازت سے زائد منگوانے کا انکشاف، ایک ارب ڈالر کا نقصان

بھارت سے مسلمانوں اور سکھوں کے قتل کا بدلہ لیں گے ،سکھ فار جسٹس وجود - پیر 29 اپریل 2024

سکھ فار جسٹس نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف عالمی عدالت میں جانے کا اعلان کیا ہے ۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکا میں بھارت کی ناکام قاتلانہ سازش کا شکار سکھ رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ بھارتی وزیر اعظم مودی کے خلاف عالمی عدالت میں جائیں گے...

بھارت سے مسلمانوں اور سکھوں کے قتل کا بدلہ لیں گے ،سکھ فار جسٹس

عمران خان کا پارٹی قیادت کوگرین سگنل، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت وجود - اتوار 28 اپریل 2024

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے اپنی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت دے دی۔پاکستان تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ ہے، تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی اجازت دیے جانے کی تصدیق ک...

عمران خان کا پارٹی قیادت کوگرین سگنل، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت

اسرائیل کیخلاف احتجاج،امریکا سے آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گیا وجود - اتوار 28 اپریل 2024

امریکا کی مختلف جامعات میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مظاہروں میں گرفتار طلبہ اور اساتذہ کی تعداد ساڑھے پانچ سو تک جا پہنچی ۔ کولمبیا یونیورسٹی نے صیہونیوں کیخلاف نعروں پر طلبہ کو جامعہ سے نکالنے کی دھمکی دے ڈالی ۔ صہیونی ریاست کیخلاف احتجاج آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گئے ۔ سڈن...

اسرائیل کیخلاف احتجاج،امریکا سے آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گیا

سڑکوں، فٹ پاتھوں سے تجاوزات 3دن میں ختم کرنے کا حکم وجود - اتوار 28 اپریل 2024

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے کراچی تجاوزات کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیاہے۔سپریم کورٹ نے ملک بھر سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔حکم نامے کی کاپی اٹارنی جنرل، تمام ایڈووکیٹ جنرلز اور تمام سرکاری اداروں کو بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔پیمرا کو اس ضمن میں ...

سڑکوں، فٹ پاتھوں سے تجاوزات 3دن میں ختم کرنے کا حکم

اے وی ایل سی گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی،شہری ٹریکر لگی گاڑیاں خود تلاش کرنے لگے وجود - اتوار 28 اپریل 2024

کراچی پولیس کا اسپیشلائزڈیونٹ مسروقہ گاڑیاں برآمد کرنے میں ناکام ہو گیا ہے، اے وی ایل سی کی جانب سے شہریوں کی مسروقہ گاڑیوں کو برآمد کرنے میں روایتی سستی کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔کراچی کے علاقے گلشن حدید میں اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل(اے وی ایل سی)گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی ...

اے وی ایل سی گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی،شہری ٹریکر لگی گاڑیاں خود تلاش کرنے لگے

کراچی ، ناکے لگا کر چالان کرنا ٹریفک اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا وجود - اتوار 28 اپریل 2024

کراچی میں ناکے لگا کر شہریوں کے چالان کرنا ٹریفک پولیس اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا۔تفصیلات کے مطابق ڈی آئی جی ٹریفک پولیس احمد نواز نے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی جانب سے غیر قانونی چیکنگ پر ایکشن لے لیا۔ڈی آئی جی نے ایس او محمود آباد اور ریکارڈ کیپر سمیت 17افسران و اہلکاروں کو معطل ...

کراچی ، ناکے لگا کر چالان کرنا ٹریفک اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا

شکارپور اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائے گی، آئی جی سندھ وجود - اتوار 28 اپریل 2024

آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی ہدایت پر ضلع شکارپور سے کراچی رینج میں تبادلہ کیے جانے والے پولیس افسران کے خلاف شوکاز نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے مطابق اِن اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائیگی۔ترجمان پولیس کے مطابق اہلکاروں کے خلاف ملزمان کے سات...

شکارپور اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائے گی، آئی جی سندھ

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر