وجود

... loading ...

وجود
وجود

نظام کی خرابی

هفته 09 ستمبر 2017 نظام کی خرابی

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کرپشن کے آخری مقدمے سے بھی بری ہو گئے۔جس پر کراچی کے بلاول ہاؤس میں خوب جشن منایا گیا اور آتش بازی ہوئی۔ اس واقعہ سے سندھ حکومت کو حوصلہ ہوااور اب وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے ایک مرتبہ پھر نڈر آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کو سبق سکھانے کے لیے توجہ مرکوز کی ہے ۔ آئی جی خواجہ نے کچھ عرصہ قبل وزیر اعلیٰ کو دو مراسلے تحریر کیے تھے جس میں ان کی مرضی کے بر خلاف محکمہ پولیس میں تبادلوں اور تقرریوں پر اعتراض کیا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ کو یہ شکوہ بھی ہے کہ آئی جی نے چیف سیکریٹری سے اجازت لیے بغیر 18 گریڈ کے ایک پولیس افسر کو بیرون ملک جانے کے لیے رخصت کیوں دی ؟ یوں سندھ حکومت نے ایک بار پھر آئی جی اے ڈی خواجہ کا تعاقب شروع کر دیا ہے۔
شاہ حکومت کا ایک ہدف کرپشن کی تحقیقات کرنے والا وفاقی ادارہ قومی احتساب بیورو(نیب)بھی ہے۔ پی پی حکومت نے سندھ اسمبلی میں اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبے میں نیب کی عملداری ختم کرنے کا نیا قانون منظور کرایا ہے جس کی منظوری کے آخری مرحلے میں گورنر سندھ محمد زبیر سدِراہ بن گئے ہیں ۔ وہ سندھ اسمبلی سے دوبارمنظور ہوکر آنے والے اینٹی نیب بل کو دوسری بار بھی مسترد کر چکے ہیں ۔ اب یہ معاملہ عدالت میں بھی چلا گیا ہے۔ سندھ کی بدعنوان انتظامیہ احتساب کے ہر عمل کو ختم کردینا چاہتی ہے یا احتساب کے لیے اپنا ادارہ اور قانون تخلیق کرکے سرکاری معاملات کو اپنے طور پر چلانا چاہتی ہے ماڈل گرل ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی نے سندھ کے حکمرانوں کو یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ صوبے میں اپنی من مانی کرسکیں ۔ قانون تو ہونہ ہو لیکن اپنی مرضی نافذ کرسکیں ۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے چار سالہ حکمرانی کا نچوڑ یہ پیش کیا ہے کہ ان کی اپنی پارٹی کے وزیر اور ارکان اسمبلی بلدیاتی نظام کے مخالف ہیں اور انہوں نے بلدیاتی لوکل گورنمنٹ کو صحیح طور پر چلنے ہی نہیں دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کو وفاقی میں حکومت مل جاتی تو وہاں بھی انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ بلوچستان اور پنجاب کی صورتحال بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے لیکن یہاں صوبائی حکمرانوں میں عمران خان جتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ اپنی ناکامی کا برملا اعتراف کرسکیں ۔ سندھ میں صورتحال زیادہ خراب ہے۔ گزشتہ زمانے میں جب پیپلز پارٹی وفاق کی حکمرانی سے آؤٹ ہوتی تھی تو ”سندھ ھودیش“ کا نعرہ پنجاب کو بلیک میل کرنے میں بہت کام آتا تھا لیکن آج جئے سندھ تحریک کئی ٹکڑوں میں نہ صرف تقسیم ہے بلکہ سیاسی طور پر پیپلز پارٹی کے مخالف کھڑی ہے۔ اب پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت اور وزراءکو ہی انتہا پسند نعروں اور بیانات کا محاذ سنبھالنا پڑا ہے۔ پی پی پی سندھ کے صدر اور سینئر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو نے گورنر سندھ محمد زبیر کو دھمکی دی ہے کہ وہ ٹھیک ہو جائیں ‘ پہلے ہم صرف زبانی بول رہے ہیں کہ گورنر ہوش میں رہیں اگر بہت زیادہ آگے بڑھے تو ان کے خلاف عدالت میں جائیں گے۔
گورنر سندھ محمد زبیر کا تعلق وفاق میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے ہے نثار کھوڑو کا کہنا ہے کہ سابقہ گورنر عشرت العباد کا تعلق ایم کیو ایم سے ہونے کے باوجود انہوں نے پارٹی سے لاتعلقی ظاہر کی تھی لیکن گونر محمد زبیر خود کو سیاسی پارٹی کا کارکن کہلاتے ہیں ‘ گونر محمد زیبر سندھ میں وفاق کے نمائندے ہیں ۔ انہیں صوبے میں وفاقی اداروں کی عملداری قائم کرنی ہے اور سندھ حکومت کو آئین وقانون کے مطابق چلنے پر مجبور کرنا ہے۔ سندھ کا جاگیردارانہ سماج انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ انہیں اپنا مطیع و فرما نبردار بنانا چاہتا ہے۔ گورنر نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں ‘ انہیں اپنی آئینی حدود کا علم ہے وہ بہت محتاط اور پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں ۔ صوبائی حکومت کی گورنر سندھ سے مخاصمت اور محاذ آرائی ابھی جاری ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی اے ڈی خواجہ کو عہدے پر برقرار رکھنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ 7 ستمبر کو جاری ہونے والے عدالت عالیہ کے فیصلے میں آئی جی کی برطرفی سے متعلق صوبائی حکومت کے دونوں نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دے دیے ہیں اور آئی جی کو مستقل ذمہ داری سنبھالنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے سندھ حکومت کا پولیس افسران کے تبادلوں اور تقرریوں کا نوٹیفیکیشن بھی کا لعدم کردیا ہے۔
جاگیردارانہ سماج میں اداروں کی حیثیت اور اہمیت با اثر افراد کی ٹھوکروں میں ہوتی ہے ۔ پاکستان میں گزشتہ 70 برس سے یہی کھیل کھیلا جارہا ہے ۔مسلم لیگ(ن) کی 2013 والی انتخابی مہم کے دوران شریف برادران کا سارا زورِ خطابت آصف علی زرداری کے خلاف صرف ہوتا تھا۔ آج مسٹرزرداری کرپشن کے سارے الزامات سے آزاد ہیں ۔ نیب میں ان کا آخری کیس بھی ختم ہوچکا ہے۔ اور شریف برادران نیب کے سامنے مجرم بنے کھڑے ہیں ۔ سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ این آر او کرکے انہیں مُکتی دی اور آج سارے ایک آواز ہوکر انہیں آرٹیکل 6 میں فٹ کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں پاکستانی سیاست کی یہ بوقلمونی ملک میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ سابقہ دور کے مجرم معصومیت کے سرٹیفکیٹ حاصل کررہے ہیں اور اس عہد کے ملزم پناہ تلاش کررہے ہیں ۔ جب تک اسمبلیوں کو موروثی جاگیرداروں سے پاک نہیں کیا جائے گا ‘ نہ عمران خان کا بلدیاتی نظام چلے گا اور نہ ہی پاکستان میں سیاسی واقتصادی استحکام پیدا ہوگا۔ نہ مقامی گونمنٹ (بلدیاتی حکومت) کام کرسکے گی اور نہ عوام کے مسائل حل ہونگے۔گورنر ‘ آئی جی اور نیب سے لڑنے والی سندھ حکومت کا سب سے پہلا فریضہ تو یہ ہے کہ روشنیوں کا شہر کراچی اور صوبے کے دیگر علاقے کچرے کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں ۔ وزیراعلی مراد علی شاہ کی شان میں اسی وقت اضافہ ہوگا جب صوبہ سندھ کی سڑکیں اور گلیاں صاف ہوں گی اور رشوت‘ کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر