وجود

... loading ...

وجود
وجود

عید الاضحیٰ اور آج کے زندہ نمرود

بدھ 30 اگست 2017 عید الاضحیٰ اور آج کے زندہ نمرود

عید الفطر ہو یا عید الاضحی مسلمانوں کے لیے دونوں یکساں طور پر مقدس ہیں اور دونوں کا پیغام وپیام ایک ہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور ان کے نفاذ کے لیے جدوجہد اور آخری درجہ کی قربانی کا واضح اظہار ۔اُمت مسلمہ عید الاضحی’’ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں‘‘ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے مناتی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرماتے ہوئے حکم دیا کہ اے ابراہیم گمراہ انسانوں کو راہ ہدایت کی جانب دعوت دیدو۔حضرتؐ کے زمانے میں نمرود نامی بادشاہ گمراہی کے آخری حدود کو پھلانگتے ہوئے خدائی دعویٰ کر بیٹھا تھااور وہ خدا کے بندوں کو اپنی عبادت کے لیے مجبور کر تا تھا ، اگر کوئی ایسا نہ کرتا تو اس سے انتہائی خطرناک سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ یہ بھی انسان کا ہی عجب کمال ہے کہ جب بھی اسے اللہ تعالیٰ نے تھوڑی سی قوت سے نوازا تو وہ خود ہی خدائی کا دعویٰ کر بیٹھا ۔انسانی تاریخ ایسے بیوقوف انسانوںکے ناموں سے بھری پڑی ہے۔انسان کمزوریوں اور محتاجیوں کا ناقابل انکار مجسمہ ہے مگر اس کی یہ خصلت کتنی عجیب ہے کہ اپنی نا ممکن الاصلاح ناتوانیوں کے باوجود ا سے اپنے ہی جیسے انسانوںکے ذریعے اپنی عبادت کا اتنا چسکا ہے کہ ’’نا‘‘سننا اسے گوارا نہیں ؟حضرت ابراہیمؐ نے نمرود کے خدائی دعوے کو رد کرتے ہوئے اس کواس دعوے سے باز آنے کی دعوت دی مگر نمرود نے ایک نہ سنی بلکہ اپنے دعوے پر اڑا رہا ۔حضرت ابراہیمؑ نے نمرود کے دعوے کے بطلان کے لیے بھرے دربارمیں ا سے کہا کہ اے نمرود تو کیسے خدا ہو سکتا ہے خدا تو وہ ہے جو بندوں کو پیدا کرتا ہے اور انھیں موت دیتا ہے !!!نمرود نے کہا یہ کام تو میں بھی کرتا ہوں ۔۔۔۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا اچھا ٹھیک ہے اگر تو ایسا کرتا ہے تو میرے خدا کے حکم سے سورج مغرب سے طلوع ہوتا ہے اور مشرق سے غروب ذراتو اس سے آج مشرق سے طلوع کر اور مغرب میں غروب ۔۔۔۔قرآن کہتا ہے کہ ان الفاظ کے سنتے ہی نمرود مبہوت ہوگیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پا یا اور بھرے ایوان میں اس سے شرمندگی اُٹھانی پڑی ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کا ایک اور مشہور واقعہ قرآن نے کچھ اس طرح بیا ن کیا ہے کہ قوم نمرود (جو بت پرست تھی)کے وہ بت جن کی وہ ایک بڑے عبادت خانے میں جمع ہو کر عبادت کرتے تھے کو حضرت ابراہیمؑ نے ایک بڑے سے ہتھوڑے سے توڑا ۔عید کے روز جب قوم نمرود عبادت گاہ میں بتوں کی عبادت کے لیے پہنچی تو وہ معبد کے اندرکی حالت دیکھ کر چیختے چلاتے ہوئے باہر نکل آئے کہ یہ ہمارے خداؤں کو تباہ و برباد کس نے کر دیا ۔ابراہیم ؑکی بتوں کی مخالفت چونکہ بہت مشہور تھی لہذا ہر ایک نے انہی کو اسکا ذمہ دار قرار دیدیا ۔نمرود نے ابراہیمؑ کو اسی معبد کے پاس لوگوں کی موجودگی میں طلب کر کے ان سے پوچھا ابراہیمؑ ہمارے ان خداؤں کو کس نے توڑا حضرت نے جواباََ کہا مجھ سے پوچھنے کے بجائے تم لوگ اس بڑے بت سے پوچھوجس کے کندھے پر ہتھوڑا ہے لگ رہا کہ یہ اسی کی کاروائی ہے ۔قوم نے حضرت ابراہیم ؑ سے بہ یک زبان کہا اے ابراہیم ؑ ہم بتوں سے کیا پو چھیں گے یہ تو بات ہی نہیں کر پاتے ہیں تو حضرت ابراہیم ؑنے کہا پھر بتاؤ کہ یہ خدا کس طرح ہو سکتے ہیں ؟ عوام اور دوسرے حکام حضرت ابراہیم ؑکی اس جرأت پر بہت مشتعل ہوئے حقیقت سمجھنے کے برعکس انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلتے ہوئے آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ۔الاؤ تیار کیا گیا اور ہزاروں انسانوں کی موجودگی میں حضرت ابراہیم ؑ کو جلتے ہوئے آگ میں ڈال دیاگیا ۔اللہ تعالیٰ قرآن مقدس میں اس واقعہ کا تذکرہ کچھ اسطرح فرماتے ہیں کہ جب نمرود نے انہیں آگ میں ڈالا تو ہم نے آگ کوحکم دیا کہ’’ اے آگ ٹھنڈی ہو جا‘‘تو حضرت ابراہیم ؑ آگ میں جلنے کے برعکس سلامتی کے ساتھ باہر نکل آئے ۔
حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت طیبہ کا ایک اور مشہور واقعہ قرآن ہی کے ذریعے ہمارے علم میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو اولاد کی نعمت سے نوازا حالانکہ انکی بیوی کو اب اولاد کی کوئی امید نہیں تھی اس لیے کہ انکی بچے کو جنم دینے کی عمر ڈھل چکی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں اسی عمر میں اولاد صالح سے نوازتے ہوئے ایک اور امتحان میں ڈالا جو ما قبل کے تمام امتحانوں سے بھی سخت اور دشوار ترین امتحان تھا ۔بعض مفسرین کے مطابق جب حضرت اسماعیل علیہ السلام تیرہ سال کی عمر میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ایک خواب (جس کے معنی اور تاویل میں بڑی وسعت ہوتی ہے )میںابراہیم علیہ السلام کو اپنے معصوم بچے کو ذبح کرتے ہوئے دکھایا ۔حضرت نے صبح اسماعیل علیہ السلام کو اس خواب سے باخبر کیا تو بچہ بھی کیا تھا کہ بلا چون وچرا عرض کیا’’ والد محترم آپ وہی کیجئے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا‘‘ابراہیم بچے کو لیکر گئے ’’اب جب ذبح کرنے کے ارادے سے زمین پر لٹا دیا تو اللہ تعالیٰ نے اسماعیل کو چھوڑدینے کا حکم دیتے ہوئے ایک مینڈھے کو ذبح کر نے حکم دیا اور اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں پر جانوروں کی قربانی واجب قرار دیدی اور مسلمان آج تک حضرتؑ کی اس سنت کو قائم رکھتے ہوئے جانوروں کی قربانی اللہ کے حضور پیش کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کے ان چند مشہور و معروف واقعات سے جو سبق ہم کو ملتا ہے امت مسلمہ آج اسی سبق کے حوالے سے نسیان کی شکا ر ہے ۔یہ اُمت ملت ِ ابراہیم کا ہی ایک جزہے جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ انبیائِ کرام کے ان حالات و واقعات سے روشنی اور رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے ہم صرف سننے پر اکتفا کرتے ہیں ۔آج ابراہیمی طریقہ دعوت کو عوام تو کیا خواص بھی خلاف مصلحت سمجھتے ہوئے ایک نئے طریقہ دعوت کو عام کرتے جارہے ہیں ۔آج اسلامی دعوت جس کی بنیاد ہی توحید پر ہے کی بات کرناخلاف مصلحت بن چکا ہے ۔اسلام کی اصلی صورت پیش کرتے وقت اب علماء مسلمانوں کے درمیان میں بھی پس وپیش سے کام لیتے ہیں ۔حالانکہ شرک و کفر پر کمپرومائز کر کے اسلام کی بات کہنا اسلامی دعوت و فکر کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے ۔عوامی سپورٹ اور مالی مفادات کے متا ثر ہونے کا خوف جب دامن گیر ہو جائے تو اسلام کی اصلی شکل پیش کرنے میں لازماََ ہچکچاہٹ پیدا ہوگی اور ہم یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کو اکیلے نمرودی نظام کو چیلنج کرنے کا حکم دیا گیا حالانکہ اس وقت چھ سات لاکھ انسانی آبادی والے اس عظیم شہر ’’اُر‘‘میںان پر کوئی ایک شخص بھی ایمان نہیں لایا تھا ۔بتوں کو توڑنے کا حکم اور اس پر بلا چون وچرا عمل اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندھوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو راضی کرنے کی فکر ہو تی ہے کسی نمرود یا نمرودی ایجنٹ کو نہیں ۔اور آج اسلام کی اس دورخی دعوت سے جس میں نہ صرف نمرود خوش ہو تا ہے بلکہ سارے نمرودی ایجنٹ بھی اس اسلام سے خوش ہو کر بعض اوقات ابراہیمی پیغامبروں کو مالامال بھی فرماتے ہیں اوراس سارے دوغلے پن کو صرف دو لفظوں’’ مصلحت اور حکمت‘‘ کا خوبصورت نام دیکر اپنے شیطانی نفس کو خوش کر کے یہ سمجھا جاتا ہے کہ میں جو کچھ کرتا ہو ں یہ بھی اسلام ہی کی خدمت ہے ہے حالانکہ یہ نہ ہی کوئی مصلحت ہے اور نہ حکمت بلکہ بدترین منافقت ،دوغلہ پن اور اسلامی دعوت و فکر کے ساتھ صریح مذاق ہے ۔اور یقیناََ اسلام ایسی کوئی دعوت نہیں ہے جس میں اللہ کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی خوش ہو ں گے جنہیں خود بھی خدائی کو دعویٰ ہو ۔حکمت و دانش سے انکار نہیں پر بے حکمت اور عدم دانش کے بل بوتے پر اٹھائے جانے والے اقدامات کا نام اگر حکمت رکھ کر دین کا حلیہ ہی بگاڑا جائے تو یہ دانش نہیں نادانی ہے ۔
(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر