وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستان کے6کروڑ عوام زہرملا پانی پی رہے ہیں ،عالمی ادارہ صحت کی چشم کشا رپورٹ

اتوار 27 اگست 2017 پاکستان کے6کروڑ عوام زہرملا پانی پی رہے ہیں ،عالمی ادارہ صحت کی چشم کشا رپورٹ

پاکستان کی6 کروڑ سے زائد آبادی زہریلے کیمیائی عنصر ’آرسینک‘ پر مشتمل زیر زمین پانی استعمال کرنے کے خطرے سے دوچار ہے۔امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق ’ایواگ‘ کے نام سے مشہور سوئس ادارے ’سوئس فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ایکواٹک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کے تقریباً 8 کروڑ 80 لاکھ افراد ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں زیر زمین پانی میں آرسینک شامل ہے۔
پانی کے قابل استعمال ہونے کے حوالے سے تحقیق کرنے والے محققین نے ملک کے تقریباً 12 سو سے زائد مقامات سے زیر زمین پانی کے نمونے لیے اور بتایا کہ پاکستان کی 60 سے 70 فیصد آبادی کا زیر زمین پانی پر انحصار ہے جبکہ ملک کے 5 کروڑ یا ایک اندازے کے مطابق 6 کروڑ لوگ ممکنہ طور پر آرسینک سے متاثر ہیں ۔ایواگ کے تحقیق کار جویل پوڈ گورسکی کا کہنا ہے کہ فوری طور پر دریائے سندھ سے متصل علاقوں میں تمام کنوؤں کے پانی کی جانچ کی ضرورت ہے۔
کچھ عرصہ قبل سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر پینے کے پانی کی صورت حال معلوم کرنے کے لیے قائم کی گئی ٹاسک فورس نے اپنی جو رپورٹ پیش کی ہے اس میں انکشاف کیاگیا ہے کہ سندھ کے 29 میں سے 14 اضلاع میں 83.5 فیصد پانی پینے کے لیے محفوظ نہیں ہے۔یہ رپورٹ جب کمیشن کے سامنے پیش کی گئی تو جسٹس کلہوڑو واضح طور پر پریشان نظر آئے۔ عدالتی مشیر غلام مرتضیٰ کے مطابق “وہ خاصے ناراض تھے اور انہوں نے شہر میں نوے فیصد پانی کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے، ادارہ فراہمی و نکاسی آب یا واٹر بورڈ (KWSB) کے سربراہ سے کہا کہ کوئی ایک ایسا علاقہ دکھا دیں جہاں صاف پانی سپلائی کیا جاتا ہو۔” رپورٹ اب سپریم کورٹ میں پیش کی جاچکی ہے۔
نمونوں کا حصول
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) کے سینئر ریسرچ آفیسر، مرتضیٰ نے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ پورے سندھ سے 460 نمونے حاصل کیے گئے تھے، جن میں سے 232 (50.4 فیصد) نمونے زمینی آبی وسائل سے جمع کیے گئے، 179 (39 فیصد) زیر زمین وسائل، 46 (10 فیصد) ریورس اوسموسس فلٹریشن پلانٹس اور تین (0.06 فیصد) دیگر مختلف وسائل سے حاصل کیے گئے۔نمونے 14 شہروں سے حاصل کیے گئے تھے۔ دیہات کو شامل نہیں کیا گیا کیوں کہ ٹاسک فورس کو بڑے شہری مراکز کا معائنہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا جہاں پانی کی فراہمی حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے تاکہ مؤخر الذکر کا احتساب کیا جاسکے کیوں کہ وہ “عوامی امانت دار” ہیں ۔
تھر وہ واحد جگہ تھی جسے دور دراز اور پسماندہ ہونے کی وجہ سے بڑا شہری مرکز نہیں کہا جاسکتا۔ مرتضیٰ کے مطابق “اسے شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے یہاں ریورس اوسموسس پلانٹس لگانے کے لیے بڑی رقم خرچ کی ہے۔ ہم نے شہر کے مختلف آبی وسائل جیسے آبی ترسیل کی اسکیموں ، نہروں ، ریورس اوسموسس پلانٹس، عوامی مقامات، ہسپتالوں ، اسکولوں اور بس اسٹینڈز سے پانی کے نمونے اکٹھے کیے۔” سندھ ہائی کورٹ نے مرتضیٰ سے سیمپلنگ ٹیم کی سربراہی کے لیے بھی کہا تھا۔
پانی کے نمونے فزیکوکیمیکل اور مائکروبائیولوجیکل تجزیے کے لیے جمع کیے گئے تھے تاکہ رنگ، بو، ذائقہ، پی ایچ، الیکٹرک کنڈکٹیوٹی، کل تحلیل شدہ ٹھوس مادے (TDS)، آرسینک، نائٹریٹ – نائٹروجن، فلورائیڈ (-F)، آئرن، سلفیٹ، سوڈیم، پوٹاشیم، کیلشیم، میگنیشیم، ہارڈنیس، بائی کاربونیٹس، کولیفورمز اور ای کولی کا تجزیہ کیا جاسکے۔ تجزیہ امریکن پبلک ہیلتھ ایسوسی ایشن (APHA) کا معیاری طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے کیا گیا تھا۔مرتضیٰ کے مطابق نمونے جمع کرنے کے دوران تمام معیاری احتیاطی تدابیر کا سخت خیال رکھا گیا۔ مثال کے طور پر، نائٹریٹ کے لیے نمونوں کی بوتلوں میں بورک ایسڈ استعمال کیا گیا۔ بعض نمونے آئس باکس میں محفوظ کر کے بائیولوجیکل ٹیسٹنگ کے لیے لیبارٹریز تک پہنچائے گئے۔ حصول کے فوراً بعد نمونے بیرونی ماحول سے محفوظ کر لیے جاتے۔
اس رپورٹ میں بتایاگیاتھا کہ کراچی کا پانی سب سے زیادہ آلودہ ہے۔ 118 نمونے کراچی سے حاصل کیے گئے تھے، 99 زمینی وسائل مثلاً سپلائی سسٹم، فلٹریشن پلانٹس اور پمپنگ اسٹیشنز سے، 13 زیر زمین آبی وسائل، تین ریورس اسموسس پلانٹس اور تین دیگر مختلف زمینی اور زیر زمین وسائل سے۔فزیوکیمیکل تجزیے کی بنیاد پر پانی کے 21 (17.8 فیصد) نمونوں کو غیر محفوظ قرار دیا گیا کیوں کہ ان میں گدلے پن کی شرح محفوظ حد سے زیادہ تھی۔ بیکٹیریو لوجیکل تجزیہ کے حساب سے، 104 (88.1 فیصد) نمونوں میں کولیفورم بیکٹیریا کی موجودگی پائی گئی جوکہ عالمی ادارہ ِ صحت (WHO) کی مقرر کردہ حد (0/100ml cfu) سے زیادہ تھی اور 40 (33.4 فیصد) میں فضلے کی آلودگی (ای-کولی بیکٹیریا) پائی گئی۔ مجموعی حاصل معلومات کے مطابق کراچی کے مختلف مقامات سے حاصل کیے گئے 107 (90.7 فیصد) پانی کے نمونے پینے کے لیے غیر محفوظ تھے۔مرتضیٰ کے مطابق “ای-کولی کی موجودگی کا مطلب ہے سیوریج اور پانی کی سپلائی آپس میں مِل رہی ہیں ۔”
واٹر بورڈ کے چیف کیمسٹ محمد یحییٰ، پانی کی سپلائی میں ای-کولی کی موجودگی کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں ، لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا کہ اتنی بڑی مقدار میں ای-کولی کی موجودگی کی اور بھی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ای-کولی تیزی سے پھیلنے والا بیکٹیریا ہے۔ای کولی کا صرف ایک جرثومہ چوبیس گھنٹوں میں تقسیم ہو کر پوری کالونی بن سکتا ہے۔ کراچی میں پانی چوبیس گھنٹے، ہفتے کے ساتوں دن سپلائی نہیں ہوتا۔یحییٰ کہتے ہیں ، “بعض علاقوں کو پانی ایک ہفتے اور بعض کو دس دن بعد سپلائی ہوتا ہے۔ اگر ای-کولی کا ایک بھی جرثومہ سوکھی پائپ لائن میں داخل ہوگیا تو ایک ہفتے کے اندر اندر اس کی تعداد کھربوں تک پہنچ جائے گی۔ان کا کہنا ہے کہ اگر لائنز میں پانی پورا وقت چلتا رہتا تو ایسا نہ ہوتا۔ مزید یہ کہ ان پائپوں کے اندر کائی جم گئی ہے جو ان جرثوموں کی افزائش کے لیے موزوں جگہ ہے۔ کراچی میں 10,000 کلومیٹر طویل پانی کی پائپ لائنز کا جال بچھا ہوا ہے جو لوہے کے پرانے پائپوں اور انتہائی کثافت والی پولی بھائیلین پلاسٹک پر مشتمل ہیں ۔”
پانی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کراچی کو پانی ایک نہری نظام کے ذریعے شہر سے 122 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود کینجھرجھیل سے ملتا ہے، جس کا ماخذ دریائے سندھ ہے۔ دریائے سندھ سے بہنے والا ایک پانی کا قطرہ کینجھر جھیل تک پہنچنے کے لیے17دن کی مسافت طے کرتا ہے۔ان کاکہناہے کہ “ہاں آلودگی تو ہے”لیکن وہ اس کاالزام بھی رہائشیوں پر الزام عائد کردیا کہ وہ بجلی کی طرح پانی بھی “چوری” کرتے ہیں ۔ “جب بجلی چوری ہوتی ہے تو آپ کو جگہ جگہ کنڈے لگے نظر آتے ہیں اور آپ ان کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں ۔ لیکن جب زیرِ زمین مین لائنوں میں سوراخ کر کے پانی چوری کیا جاتا ہے تو آپ کچھ نہیں کرسکتے۔”یحییٰ کے مطابق اکثر ان چھیدوں کے ذریعے فضلہ پانی میں داخل ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو زیرِ زمین پانی صاف رکھنے کے لیے اپنا شہری کردار ادا کرنا چاہیے۔ “ہم نے کتنی بار سنا ہے کہ بڑی عمارتوں کے رہائشی، اور مسجدوں یا ہسپتالوں کی انتظامیہ پانی کے ٹینک صاف کرواتی ہیں ؟”واٹر بورڈ کے ایک اور افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا: ”بورڈ لیک کی مرمّت کرتا ہے اور اکثر پائپس کی تبدیلی بھی ہوتی ہے، لیکن تقسیم کے پورے نیٹ ورک کی مکمّل تجدید کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے جس کے لیے نہ صرف دو سے تین سال درکار ہیں بلکہ خرچہ بھی کافی آئے گا۔‘‘
پانی کا مناسب علاج؟
تقسیم کے فرسودہ نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ کراچی میں پانی کی صفائی کے لیے 6 ٹریٹمنٹ پلانٹس ہیں (ایک گھارو میں ہے لیکن وہ بھی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے تحت) جو پوری طرح کام نہیں کررہے۔جنوری میں جب جسٹس کلہوڑو نے ٹریٹمنٹ پلانٹس کا دورہ کیا تو خان صاحب نے ان کے سامنے تسلیم کیا کہ ’’گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے 20 کروڑ گیلن غیر فلٹر شدہ پانی روزانہ سپلائی کیا جاتا ہے۔‘‘
واٹر بورڈ کے ایک افسر نے تسلیم کیا کہ “جی ہاں کچھ فلٹریشن پلانٹس پرانے اور خراب ہیں ؛ زیادہ تر جزوی طور پر کام کررہے ہیں جبکہ ایک تو بالکل فرسودہ ہے۔ حقیقت میں صرف ایک پلانٹ (NEK2) ہیجو پوری گنجائش کے ساتھ کام کررہا ہے۔”دی تھرڈ پول ڈاٹ
نیٹ کو بتایا گیا کہ “غیر ملکی کمپنیاں آتی ہیں ، پلانٹس لگاتی ہیں ، اور چلی جاتی ہیں ۔ ہمارے تکنیکی ماہرین مناسب تربیت نہ ہونے کی بنا پر ان کی دیکھ بھال نہیں کرپاتے۔ چنانچہ جب کوئی خرابی ہوتی ہے تو ہم اپنی محدود مہارت سے کام چلاتے ہیں ۔ آخر میں اپنی مدّت پوری ہوجانے کے بعد مشین دم توڑ دیتی ہے۔”اسد اللہ خان کے مطابق “ایک نیا درآمد شدہ پلانٹ جون 2018 تک واٹر بورڈ کے سسٹم میں نصب ہوجائے گا جو یومیہ 26 کروڑ گیلن فلٹر شدہ پانی سپلائی کیا کرے گا۔”
قلّت کی وجہ؟
کراچی کی تیزی سے پھلتی پھولتی آبادی کی بے لگام طلب کو پورا کرنے کے لیے واٹر بورڈ اپنا آبی ترسیل کا نظام بڑھا تو رہا ہے مگر موجودہ نظام کی تجدید سے قاصر ہے۔ بہرحال جتنی بھی کوششیں کرلی جائیں ، اب بھی خان صاحب کے مطابق “50 فیصد قلّت” برقرار ہے۔اور اس کمی کو ٹینکر مافیاپورا کرتا ہے جو غیر قانونی ہائیڈرینٹس چلانے والوں کی ملی بھگت سے (ریاست سے چرایا گیا) پانی لوگوں کو سپلائی کرتا ہے۔ واٹر بورڈ کے ایک افسر کے مطابق “پانی کے کاروبار سے بہتر کاروبار کوئی نہیں کیوں کہ پانی سب کو چاہیے اور یہ آرام سے دستیاب ہے۔ ہمیں اس کا انتظام اور فراہمی بہتر بنانی ہوگی۔ ہم ایک خوشحال ادارہ بن سکتے ہیں اگر ہم اپنی غلطیاں تسلیم کرنا شروع کردیں ، اور جو غلط کر رہا ہے، اس کی نشاندہی کریں ۔”ان کے مطابق، “یہ آلودگی ہمارے گھروں تک بھی پہنچ رہی ہے۔ آخر کون صحیح الدماغ شخص ہوگا جو اپنے بچوں کو آلودہ پانی پلانا چاہے گا؟
واضح رہے کہ اسی طرح کے آرسینک کے نمونے بھارت کے دریا گنگا اور بنگلہ دیش کے دریا برہما پترا کے اطراف میں زیر زمین پانی میں بھی پائے گئے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ آرسینک عمومی طور پر زیر زمین ہوتا ہے اور گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک کی ایک کثیر آبادی نے زیر زمین پانی کا استعمال بڑھا دیا ہے۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ایک لیٹر پانی میں آرسینک کی 10 مائیکروگرام سے زائد مقدار کو خطرناک قرار دیا ہے، جبکہ پاکستان سے حاصل کیے گئے پانی کے نمونوں میں اس کی مقدار کئی گنا زائد پائی گئی۔آرسینک کے استعمال سے انسانی خلیات ختم ہوجاتے ہیں ، جس کے باعث جِلد، دل اور دیگر اعضا کی بیماریوں سمیت کینسر کا مرض بھی لاحق ہوسکتا ہے جبکہ آرسینک کے زہر کا اب تک علاج ممکن نہیں ہو سکا۔قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنسز کی اسسٹنٹ پروفیسر عابدہ فاروقی کا کہنا ہے کہ اس نئی تحقیق میں لیے گئے نمونوں کی تعداد بہت کم ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے نتائج واضح نہیں ہیں ۔
تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ اس تحقیق نے ملک میں ابھرتے ہوئے آرسینک کے ایک اہم مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرائی لیکن پورے سندھ سے 1200 پانی کے نمونے، نتیجہ نکالنے کے لیے بہت کم ہیں ۔ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کی سربراہ لبنیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی بڑھتی ہوئی آبادی اور زیر زمین پانی، جو تقریباً نصف آبادی غیر متوازی طور پر اپنے استعمال کے لیے زمین سے نکالتی ہے، میں آرسینک کی بڑھتی ہوئی مقدار سے آگاہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک تشویش ناک بات ہے کیونکہ قواعد و ضوابط کی کمی کے باعث لوگوں نے زیر زمین پانی کو آلودہ کردیا جس میں آرسینک کا اضافہ ہورہا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ہنگامی مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کے لیے ان کا محکمہ اقوام متحدہ کے چلڈرن فنڈ کے اشتراک سے انتہائی متاثرہ علاقوں میں اینٹی آرسینک فلٹر پلانٹ لگا رہا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ اگر تحقیق کار ایسی گہرائی معلوم کرلیں جہاں پانی آلودہ نہ ہو تو وہاں ان کا محکمہ فوراً کنواں تیار کرلے گا۔اسلام آباد کے ایک رہائشی علی حسن کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو صاف پانی دستیاب نہیں ہے اور وہ زیر زمین پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں تو ان کے لیے یہ انتہائی پریشان کْن نتائج ہیں ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرے۔خیال رہے کہ گزشتہ برس پارلیمنٹ میں ایک سروے پیش کیا گیا تھا جس کے مطابق پاکستان بھر کے 24 مختلف اضلاع میں 2 ہزار807 مختلف گاؤں کے 80 فیصد پانی کے ذرائع آلودہ ہیں ۔
(یہ خبر ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ پر شائع ہوئی۔)

تہمینہ حیات


متعلقہ خبریں


عمران خان کا پارٹی قیادت کوگرین سگنل، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت وجود - اتوار 28 اپریل 2024

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے اپنی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت دے دی۔پاکستان تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ ہے، تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی اجازت دیے جانے کی تصدیق ک...

عمران خان کا پارٹی قیادت کوگرین سگنل، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت

اسرائیل کیخلاف احتجاج،امریکا سے آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گیا وجود - اتوار 28 اپریل 2024

امریکا کی مختلف جامعات میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مظاہروں میں گرفتار طلبہ اور اساتذہ کی تعداد ساڑھے پانچ سو تک جا پہنچی ۔ کولمبیا یونیورسٹی نے صیہونیوں کیخلاف نعروں پر طلبہ کو جامعہ سے نکالنے کی دھمکی دے ڈالی ۔ صہیونی ریاست کیخلاف احتجاج آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گئے ۔ سڈن...

اسرائیل کیخلاف احتجاج،امریکا سے آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گیا

سڑکوں، فٹ پاتھوں سے تجاوزات 3دن میں ختم کرنے کا حکم وجود - اتوار 28 اپریل 2024

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے کراچی تجاوزات کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیاہے۔سپریم کورٹ نے ملک بھر سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔حکم نامے کی کاپی اٹارنی جنرل، تمام ایڈووکیٹ جنرلز اور تمام سرکاری اداروں کو بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔پیمرا کو اس ضمن میں ...

سڑکوں، فٹ پاتھوں سے تجاوزات 3دن میں ختم کرنے کا حکم

اے وی ایل سی گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی،شہری ٹریکر لگی گاڑیاں خود تلاش کرنے لگے وجود - اتوار 28 اپریل 2024

کراچی پولیس کا اسپیشلائزڈیونٹ مسروقہ گاڑیاں برآمد کرنے میں ناکام ہو گیا ہے، اے وی ایل سی کی جانب سے شہریوں کی مسروقہ گاڑیوں کو برآمد کرنے میں روایتی سستی کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔کراچی کے علاقے گلشن حدید میں اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل(اے وی ایل سی)گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی ...

اے وی ایل سی گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی،شہری ٹریکر لگی گاڑیاں خود تلاش کرنے لگے

کراچی ، ناکے لگا کر چالان کرنا ٹریفک اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا وجود - اتوار 28 اپریل 2024

کراچی میں ناکے لگا کر شہریوں کے چالان کرنا ٹریفک پولیس اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا۔تفصیلات کے مطابق ڈی آئی جی ٹریفک پولیس احمد نواز نے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی جانب سے غیر قانونی چیکنگ پر ایکشن لے لیا۔ڈی آئی جی نے ایس او محمود آباد اور ریکارڈ کیپر سمیت 17افسران و اہلکاروں کو معطل ...

کراچی ، ناکے لگا کر چالان کرنا ٹریفک اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا

شکارپور اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائے گی، آئی جی سندھ وجود - اتوار 28 اپریل 2024

آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی ہدایت پر ضلع شکارپور سے کراچی رینج میں تبادلہ کیے جانے والے پولیس افسران کے خلاف شوکاز نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے مطابق اِن اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائیگی۔ترجمان پولیس کے مطابق اہلکاروں کے خلاف ملزمان کے سات...

شکارپور اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائے گی، آئی جی سندھ

سیشن جج وزیرستان کو مسلح افراد نے اغوا کر لیا،گاڑی نذر آتش وجود - اتوار 28 اپریل 2024

وزیرستان میں تعینات سیشن جج شاکر اللہ مروت کو نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا جبکہ وزیراعلی نے نوٹس لے کر آئی جی کو بازیاب کرانے کی ہدایت جاری کردی۔تفصیلات کے مطابق سیشن جج وزیرستان کو ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے سنگم سے نامعلوم افراد نے اسلحے کے زور پر اغوا کیا اور اپنے ہمراہ لے گ...

سیشن جج وزیرستان کو مسلح افراد نے اغوا کر لیا،گاڑی نذر آتش

پی ٹی آئی میں پارٹی رہنمائوں کے درمیان اختلافات، شبلی فراز، شیر افضل مروت آمنے سامنے آگئے وجود - اتوار 28 اپریل 2024

پاکستان تحریک انصاف میں پبلک اکانٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے لیے پارٹی رہنمائوں کے درمیان اختلافات شدت پکڑتے جارہے ہیں۔تفصیلات کے مطابق چیئرمین پبلک اکانٹس کمیٹی کی تقرری کے معاملے پر تحریک انصاف کے رہنمائوں میں اختلافات اب منظر عام پر آگئے ہیں۔پی ٹی آئی رہنما اور سینیٹر شبلی فرا...

پی ٹی آئی میں پارٹی رہنمائوں کے درمیان اختلافات، شبلی فراز، شیر افضل مروت آمنے سامنے آگئے

پی ٹی آئی فوج کو دوبارہ سیاست میں دھکیل رہی ہے، حکومتی اتحاد وجود - اتوار 28 اپریل 2024

پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ تحریک انصاف اسٹیبشلمنٹ سے مذاکرات کا مطلب اور خواہش پوری کرلے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا ہے کہ تحریک انصاف ایک بار پھر فوج کو سیاسی میں دھکیل رہی ہے۔تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی جانب سے پا...

پی ٹی آئی فوج کو دوبارہ سیاست میں دھکیل رہی ہے، حکومتی اتحاد

نون لیگ میں کھینچا تانی، شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ وجود - هفته 27 اپریل 2024

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے تنظیمی اجلاس میں پارٹی قائد نوازشریف کو پارٹی صدر بنانے کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کرلی گئی جبکہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ خاں نے کہاہے کہ (ن) لیگ پنجاب کے اجلاس کی تجاویز نواز شریف کو چین سے وطن واپسی پر پیش کی جائیں گی،انکی قیادت میں پارٹ...

نون لیگ میں کھینچا تانی، شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ

ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شائع کرانے کا فیصلہ، سندھ حکومت کا اہم اعلان وجود - هفته 27 اپریل 2024

سندھ حکومت نے ٹیکس چوروں اور منشیات فروشوں کے گرد گہرا مزید تنگ کردیا ۔ ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شایع کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔منشیات فروشوں کے خلاف جاری کریک ڈائون میں بھی مزید تیزی لانے کی ہدایت کردی گئی۔سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔جس میں شرج...

ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شائع کرانے کا فیصلہ، سندھ حکومت کا اہم اعلان

مودی کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے خدشات، بھارتی مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار وجود - هفته 27 اپریل 2024

بھارتی ہندو انتہا پسند سیاسی جماعت بی جے پی کے کٹھ پتلی وزیراعظم نریندر مودی کے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بڑھتے خدشات کے پیش نظر بھارتی مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔مسلسل 10 برس سے اقتدار میں رہنے کے بعد بھی مودی سرکار ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہونے کے خواہش مند ہیں۔ نری...

مودی کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے خدشات، بھارتی مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر