... loading ...
پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کو آج چار سال مکمل ہوچکے ہیں اپنی چار سالہ مدت میں اس حکومت نے چار بجٹ دیئے ہیں ، ہر بجٹ میں سادگی کا درس دینے والی پنجاب حکومت نے ’’شاہانہ‘‘ اخراجات کی حد پار کردی ، جس کی وجہ سے صوبے کے ترقیاتی منصوبے متاثر ہوئے ہیں ، متاثر ہونے والے منصوبوں میں چھوٹے منصوبوں کی اکثریت ہے ، پنجاب کے اب تک پیش کئے گئے تمام بجٹ میں 424ارب روپے سے زائد کے اخراجات کئے گئے ، اب تک شروع کئے گئے میگا منصوبوں میں سے اکثر مکمل کر لئے گئے تاہم ان میں سے بعض اب بھی زیر تکمیل ہیں البتہ اس معاملہ میں چھوٹے منصوبوں کے ساتھ ناانصافی کی تمام حدیں پار کرلی گئی ہیں ، پنجاب کے حکومتی اخراجات میں اب تک 122فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے صرف 9ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقریبات پر 91کروڑ روپے سے زائد خرچ کر دئے گئے ہیں،صوبائی حکومت نے قائد اعظم سولر پاور پراجیکٹ بہاول پور، قادر آباد کول پاور پراجیکٹ کی افتتاحی تقریبات پر 14کروڑ 96لاکھ 56ہزار روپے خرچ کر ڈالے ، لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس کے افتتاح پر 31کروڑ روپے خرچ کئے گئے، پنجاب حکومت نے چار سال میں 1585ارب روپے ترقیاتی بجٹ کے لئے مختص کئے 3485ارب روپے غیر ترقیاتی منصوبوں کے لئے رکھے ، ان چا رسال میں 424ارب ،30کروڑ 52لاکھ روپے کی سپلمنٹری گرانٹ کی منظوری دی، اللوں تللوں پر خرچ کرنے کے لئے پنجاب بھر کے بنیادی مراکز صحت کے لئے مختص 40کروڑ روپے پر بھی ہاتھ صاف کیا گیااور ان مراکز پر خرچ کرنے کی بجائے وزیرا علیٰ پنجاب کے لئے ہیلی کاپٹر خریدا گیا ، بجٹ میں رقوم رکھے جانے کے باوجود ان بنیادی مراکز کو رقم نہ دی گئی جس سے پنجاب بھر کے دیہی عوام کو بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی میں بھی مشکلات کا سامنا رہا ، ترقیاتی بجٹ میں سے 12ارب 84کروڑ روپے نکال کر وی آئی پی فلائٹ اور ہیلی کاپٹر خریدے گئے، جہاز کی خریداری میں معاونت کرنے والے کنسلٹنٹ کو فیس کی مد میں 18لاکھ روپے ، ماہرین کو روس بھجوانے کے لئے 21لاکھ 55ہزار روپے خرچ کئے گئے، ائیر کرافٹ کے لئے ٹینڈر نوٹس پر 30لاکھ روپے خرچ کئے گئے، وی آئی پی ائیر کرافٹ کی جرمنی میں انسپکشن پر 5کروڑ 34لاکھ روپیاڑائے گئے، وزیر اعلیٰ پنجاب کے زیر استعمال ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کو 14کروڑ روپے دیئے گئے، وزیر اعلیٰ صوابدیدی فنڈز پر 6کروڑ روپے خرچ کئے گئے، امیر قطر کو 3 دینے کے لئیبیل اور گائے 50 لاکھ روپے میں خریدی گئیں ، صاف پانی پراجیکٹ سے 1ارب 3کروڑ روپے نکال کر وی وی آئی پی مہمانوں کے لئے مرسڈیز اور دیگر گاڑیاں خریدی گئیں ، سعودی شاہی خاندان کے ایک اہم فرد کے لئے 2عربی نسل کے گھوڑے ،2اونٹ اور گائیں خریدنے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کئے گئے، پنجاب حکومت نے میڈیا اور ’’جھوٹ‘‘ بریگیڈ کی مدد سے اپنا امیج بہت اچھا بنایا ہوا ہے حالانکہ پنجاب کے ترقیاتی منصوبے ہوں یا صوبائی محکمے سب کی حالت انتہائی خراب ہے ، نمائشی منصوبوں کی مدد سے ووٹ لینے کا تجربہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو ’’راس‘‘ آگیا ہے ، اس لئے انہوں نیچھوٹے منصوبوں اور چھوٹے شہروں خاص طور پر جنوبی پنجاب کے ساتھ زیادتیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کررکھا ہے، جنوبی پنجاب صوبہ بھر میں سب سے پسماندہ خطہ ہے یہاں کے باشندوں کے پاس ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے ، متاثر ہونے والے بنیادی مراکز صحت کی اکثریت کا تعلق بھی اسی خطہ سے ہے ، 11اضلاع پر مشتمل اس خطہ سے گزشتہ 30سال سے ن لیگ کامیابی حاصل کرتی آرہی ہے ، اس کے باوجود اس خطہ کے ساتھ مناسب سلوک نہیں کیا جارہا ، 2012کی پنجاب اسمبلی میں اس وقت کے وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ خان جو اب بھی اسی منصب پر فائز ہیں، نے دو قرار دادیں پیش کیں ، ان کے تحت نیا صوبہ جنوبی پنجاب اور بہاول پورکی بحالی شامل تھی ، ن لیگ نے ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت جنوبی پنجاب خصوصا َ بہاول پور کے عوام سے ووٹ لیا ، ملتان سے تعلق رکھنے والے گورنر ملک رفیق رجوانہ نے بھر پور کوشش کرکے ملتان میں سول سیکرٹریٹ کے قیام اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی تعیناتی کے لئے راہ ہموار کی، ایس اینڈ جی اے ڈی پنجاب نے ایک سمری وزیر اعلیٰ کو بھجوائی جس کے مطابق نیا سیکرٹریٹ اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری تعینات کیا جانا تھا جب یہ بات اہلیان بہاول پور کو ہوئی تو وہاں سے سخت رد عمل آیا جس کا سامنا وزیر اعلیٰ اور حکومت پنجاب کے لئے مشکل تھا اس لئے یہ سمری مسترد کرد ی گئی ، سمری مسترد ہونے سے اہلیان بہاول پور نے سکھ کا سانس لیا البتہ اب ایک بار پھر یہاں احساس محرومی شدت اختیار کرتا جارہا ، اب صوبہ بحالی کا نعرہ اور پنجاب اسمبلی کی قرار داد پر عمل درآمد کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے ، بہاول پور میں سولر پاور کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا گیا تھا اس پر بھی اب سوالیہ نشان لگ چکا ہے ،بڑی دھوم دھام سے شروع کئے گئے منصوبے کو بیچنے کے لئے صوبائی کابینہ نے منظوری دے دی ہے ، 2015میں بہاول پور کے صحرا چولستان میں 100میگا واٹ کا منصوبہ شروع کیا گیا جو بتدریج ایک ہزار میگا واٹ ہونا تھا ، حکومت نے دعویٰ کیا کہ یہ 100میگا واٹ کا منصوبہ اب تک 2ارب روپے کا منافع دے چکا ہے ، اس منصوبے کا افتتاح بھی وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے کیا تھا ، آج معلوم ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ بھی نندی پور کی طرح وزیر اعلیٰ کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے ، 100میگا واٹ کا منصوبہ اب حکومتی رپورٹ کے مطابق 50میگا واٹ بجلی پیدا کررہا ہے ، اس منصوبے پر کام کرنے والے بتاتے ہیں کہ یہاں 18میگا واٹ بجلی پیدا ہورہی ہے تاہم اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی ، اب معلوم ہوا ہے کہ 16.5ارب روپے کا منصوبہ اب اونے پونے داموں بیچا جارہا ہے ، 7ارب روپے میں ایک ترک فرم کو فروخت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، اس منصوبے کو بیچنے پر اہلیان بہاول پور کو اتنے تحفظات نہیں ہیں جتنے اس کے ساتھ 7ہزار 500ایکڑ اراضی دیئے جانے پر ہیں ، پنجاب میں دیگر صوبوں کے مقابلہ میں ترقی کا سفر تیز ہے تاہم اتنا تیز بھی نہیں جتنا میڈیا اور اخباری اشتہارات میں دکھایا جاتا ہے۔
٭٭…٭٭