وجود

... loading ...

وجود
وجود

دِل والی دِلی میں

پیر 05 جون 2017 دِل والی دِلی میں

وہ خود کہتی ہیں کہ
میری تشکیک دلیلوں سے کہیں آگے ہے
” کیا “ سے خالی کبھی ہوتی ہوں نہ ” کیوں “ سے خالی
یہی تخیل فن اور فطرت کے تعلق کی پردہ کشائی کرتا ہے ۔ اسی لیے فنکاروں کو معاشرے کا اعلیٰ ترین طبقہ قرار دیا جاتا ہے ۔پروفیسر راشدہ ماہین ملک کے سفر نامہ بھارت ” دل والی دلی میں “ کا مطالعہ اگر چہ میں نے بہت دیر سے کیا لیکن کتاب پڑھنے میں بڑا لُطف آیا ۔ عمدہ تحریر مصنفہ کے گہرے مشاہدے کی عکاس ھے جس میں اپنی تاریخ ، اردو ادب سے دلچسپی اور غالب سے محبت اور عقیدت کا والہانہ اظہار ملتا ہے ۔ اس ادبی سفر نامے کو پڑھ کر یہ یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ ” تخیل سے تخلیق بھی وہی کر سکتا ہے جس کی جڑیں زندگی میں خوب مضبوطی سے گڑی ہوں ۔“
مجھ سے ہوتا ہی نہےں ترکِ رہِ شوقِ سفر
سو مےں کرتی ہی نہےں دل کو جنوں سے خالی
پروفیسر راشدہ ماہین ملک کی ادبی صلاحیت، غیر معمولی بصیرت و قوت ِ مشاہدہ نے تخیل اور تخلیق کے تعلق کو ” شال میں لپٹی رات “ اور ”باغ “ کی صورت میں پہلے ہی ادبی حلقوں میں تسلیم کر والیا تھا جبکہ اقبالیات سے وابستگی نے اُن کی سوچ میں توازن کے موتی پروئے اور اُنہیں نثر پر بھی کامل گرفت عطا کی ۔
”دل والی دلی میں“ اُن کے ایک مختصر ادبی دورے کی رُوداد ہے ۔ لیکن یہ اس انداز میں لکھی گئی ہے کہ قاری کتاب ختم ہونے تک اُس کے سحر سے باہر نکل ہی نہیں پاتا ۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت اور حقائق کی تلخی کبھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ پاکستان سے کوئی خاتون تن تنہا واہگہ بارڈر عبور کر ے ، لکھنؤ اور دہلی مےں مشاعرے لوٹے اور واپس آ جائے ۔ لیکن راشدہ نے اپنے کہے کا مان رکھا اور دل کو جنوں سے خالی نہیں ہونے دیا ۔ اُس کے اعتماد اور جرا¿ت کو ناصر علی سید نے کتاب کی اشاعت کے موقع پر حیرانگی سے تسلیم کیا تھا اور اب کتاب کا ہر قاری راشدہ ماہین ملک کے اعتماد اور جنون کا معترف ہے ۔
جمیل اصغر کی جانب سے لکھنؤ کے مشاعرہ میں شرکت کی دعوت سے لے کر سفر کا ارادہ باندھنے ، ویزا کے حصول ، واہگہ بارڈر عبور کر کے امرتسر پہنچنے ، دہلی لکھنؤ اور پھر واپسی کا احوال، غرضیکہ اس سفری روداد کا ہر حصہ دلچسپ ، معلومات اور تاریخ سے جڑا نظر آتا ہے ۔ ایک ادبی دورے کو اس قدر خوبصورت انداز میں قلمبند کیا گیا ہے کہ قاری کہیں بھی بوریت یا بوجھل پن محسوس نہیں کرتا ۔ سرحد کی لکےر کے اُس اور اِس پار کے بارے میں جاننے کی خواہش دونوں اطراف کے باسیوں کے دل میں گزشتہ ساڑھے چھ دہائیوں سے مچل رہی ہے ۔ تقسیم ہند کو دونوں طرف آزادی قراردیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے فیض احمد فیض ، ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد اور عابد علی عابد کا نقطہ نظر بھی موجود ہے ۔ فیض احمد فیض نے اس آزادی کو داغ داغ اُجالا کہا تھا ۔ تقیسم ہند کے بعض حقائق خاصے ہی نہیں بہت زیادہ تلخ ہیں جیسے کہ فراق گورکھپوری کو کہنا پڑا تھا کہ ” تقسیمِ ہندوستان نے حضرت محروم سے ضعیفی میں اور آزاد سے جوانی میں ان کا محبوب وطن چھُڑا دیا “۔۔۔ میری مٹی کے عظیم فرزند ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کی ایک نظم کے آخری اشعار دیکھ لیجیے کس کرب کے مظہر ہیں ۔
وطن کی اے مقدس سر زمیں احساس بھی کچھ ہے
کہ تُجھ سے چھٹ کے تیرے سوختہ جانوں پہ کیا گزری
تُجھے اے کاش دہلی اور شملہ یہ بتا سکتے
میانوالی کے صحرا تیرے دیوانوں پہ کیا گزری
شعوری یا لا شعوری طور پر انڈیا جانے والا ہر پاکستانی ان احساسات کو اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے ۔ مشاعرہ پڑھنے کے لیے جانے والی راشدہ اپنے سفر ی تجربات اور مشاہدات کو جس انداز میں بیان کرتی ہیں وہ ان کے تخیل کی صداقت کا اظہار یہ بن جاتا ہے ۔ اٹاری بارڈر پر امرتسر جانے والے کیری ڈبہ میں بیٹھتے ہی اُن کے پہلے احساسات کی گہرائی ان سطور میں محسوس کی جا سکتی ہے کہ ” میں ارد گرد کھیتوں کو دیکھتی ہوئی سوچتی جا رہی تھی کہ یہ تو پاکستان جیسے کھیت ہیں ۔ ہوا بھی ویسی ہی ہے۔ اور آکسیجن لیول بھی وہی ہے ۔ کچھ بھی تو بدلا بدلا دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ اگر کچھ تبدیلی دکھائی دے رہی تھی تو وہ یہ کہ جو شخص نظر آتا تو اُس کا لباس اور حُلیہ روایتی سکھ سرداروں جیسا نظر آتا ۔ سڑک کے کنارے ایک شخص نظر آیا تو میں نے بے خیالی میں کیری ڈبہ کے سکھ بابا سے پوچھا یہ شخص سکھ سردار تو نظر نہیں آتا تو انہوں نے بتایا کہ یہ سردار نہیں لالہ ہے ۔۔‘
راشدہ ماہین ملک کی ان ابتدائی سطور نے تقسیم ہند کا فلسفہ بیان کر دیا ۔امرتسر سے دہلی تک کے سات گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد جب آدھی رات گئے وہ دہلی کی سڑکوں سے گزر رہی تھیں تو شب کے سناٹے اور سکوت میں غالب نے اُس کے دل و دماغ پر بسیرا کر لیا وہ لکھتی ہیں کہ ” دہلی سو رہی تھی اور میں ماضی کے جھرونکوں سے جھانکتی ہوئی غالب کی یاد آنے پر مسکرانے لگی ۔ دہلی کی فضا میں لگا جیسے غالب مجھے خوش آمدید کہ رہے ہیں۔سڑک کنارے وہاں کے پرانے درختوں کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ شاید غالب ان بوڑھے درختوں کے پاس سے گزرے ہوں گے ۔ یا کبھی ان درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے ہوں گے “۔۔
دہلی ، لکھنؤ اور غالب کے ذکر سمیت کچھ بھی بیان کرتے وقت راشدہ تاریخ کے جھروکے سے جھانکتی نظر آتی ہیں، یہ سب کچھ ان کے عمیق مطالعے کا آئینہ دارہے۔ ایک جگہ وہ لکھتی ہیں کہ ” یہاں میں ایک نکتے کی وضاحت کرتی چلوں کہ ہندوستان میں قسم قسم کے کھانے اور مٹھائیاں بنتی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں مگر ان مزیدار کھانوں اور مٹھائیوں کی ایجاد کا تمام سہرا مسلمان شہنشاہوں اور ان کے مطبخ کے باروچیوں کے سر جاتا ہے ۔ یہ ایک تاریخی نکتہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے وارد ہونے سے پہلے ہندوستانی لوگ عام طور پر سبزی اور دال پر گزارہ کرتے تھے اور وہ بھی روایت شاہد ہے کہ اُبلی ہوئی ۔۔ جس میں برائے نام مرچ مصالحے ہوتے تھے یہ لوگ لہسن اور پیاز کچا کھاتے تھے ۔ میٹھے کا استعمال بھی ان لوگوں میں محدود پیمانے پر تھا ۔ حلوہ اور پلاؤ تو خالصتاً مسلمان ہی لائے ۔لباس کے معاملے میں بھی ہندو لوگ مسلمانوں کے دستِ نگر تھے ۔ ورنہ ہندوستانی پرانے زمانہ میں مرد اور عورتیں دو چادریں استعمال کرتے تھے ۔ ایک چادر کمر پر باندھ لی اور دوسری چادر اُوپری جسم کو ڈھانپنے کے لیے اوڑھ لی ۔ اور انہی دو چادروں نے عورتوں میں ساڑھی کا رواج دیا “۔
” دِل والی دلی میں “ ایک ایسا پُر فسوں سفر نامہ ہے جو سارے کا سارا کالم میں کوٹ کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن طوالت کا خوف اور کالمانہ ہیئت اس کی اجازت نہیں دیتی ۔
لکھنو کے قیام کی یادیں ، مشاعروں کی رودادیں ، دہلی کی یاترا ، غالب کے مزار پر حاضری ، غالب کے مکان اور لال قلعہ کی سیر ، دہلی کے چاندنی چوک کی ایک گلی کے نکڑ پر کھڑے موبائل بُک شاپ والے کا تذکرہ ، کریم الدین سائیکل رکشہ والے کی باتیں ، تاتار کا افسانہ ، مغلوں کی کہانی ، شاہجہان کی شاہانہ لغزشوں کا احوال ، بہادر شاہ ظفر کی بے بسی کا نوحہ ، غالب کا جہاں ، لکھنؤ کے شعراءکے دبستان کی سوغاتیں ،مختلف کیفیات کا ست رنگا امتزاج بن جاتا ہے ۔ بعض مقامات پر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ راشدہ ماہین ملک نے اپنی تحریر میں سلگتے ہوئے شرارے اور مہکتے ہوئے انگارے رکھے ہوئے ہیں ۔ اس خوبصورت نثری فن پارے میں دھیما پن ، سلگاؤ، لمساتی کیفیت ، حدت ، ملائمت ، تُندی ، اُلجھاؤ ، سلجھاؤ، حرارت اور ارتکاز کے ساتھ ساتھ سُرخ گلابوں جیسی آگ اور سرشار جذبوں کی خوشبو بھی مہکتی ہے ۔ راشدہ ماہین ملک شعوری اور نظریاتی پاکستانی ہیں ،اپنی اس شناخت کو انہوں نے انڈیا میں خود سے کیے جانے والے مختلف سوالات کے جوابات میں خوب اُجاگر کیا ہے ۔ ماہین ملک نے یہ خوبصورت کتاب میرے حوالے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” مجھے اُمید ہے کہ آپ اسے ایک ہی نشست میں پڑھ لیں گے “۔۔ واقعی یہ کتاب میں نے نہ صرف ایک ہی نشست میں پڑھ لی بلکہ ازبر بھی کر لی ہے۔
٭٭….٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر