وجود

... loading ...

وجود
وجود

حکومت اور عدلیہ کا ٹکراؤ

پیر 05 جون 2017 حکومت اور عدلیہ کا ٹکراؤ


پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر اور شعلہ بیان مقرر سید نہال ہاشمی کے ساتھ وہی ہوا جو سندھ کے شعلہ بیان سیاستدان غازی صلاح الدین کے ساتھ ہوا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مرحوم جام صادق علی سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے اور غازی صلاح الدین ان کی کابینہ میں مشیر کے درجے پر فائز‘ سندھ میں 17جنوری کو ہر سال قوم پرست سیاستدان جی ایم سید کی سالگرہ بڑے اہتمام سے منائی جاتی ہے۔ ان کی زندگی میں سالگرہ کا ایک بڑا اجتماع نشترپارک میں منعقد ہوا جس میں وزیر اعلیٰ جام صادق علی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
جام صاحب بڑے ہوشیار اور زیرک سیاستدان تھے۔ ہر ایک سے بنا کر رکھتے تھے۔ سائیں جی ایم سید کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی جگہ غازی صلاح الدین کو تقریب میں بھیج دیا۔ جلسہ میں وفاق اور پنجاب کے خلاف خوب دھواں دار تقاریر کی گئیں‘ سندھو دیش کے ترانے بجائے گئے۔ اس پر خوب تنقید اور لے دے ہوئی۔ تیسرے دن جام صادق علی نے خود کو بچانے کے لیے غازی صلاح الدین کی قربانی دے دی اور انہیں جی ایم سید کی سالگرہ میں شرکت کی پاداش میں کابینہ سے فارغ کردیا گیا۔ نہال ہاشمی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ان کی 28مئی کو کی گئی ایک متنازعہ تقریر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی۔ اس تقریر میں انہوں نے جوش جذبات میں وہ کچھ کہہ دیا جو مسلم لیگ کے بڑے بڑے لیڈر بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔ وہ وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی اسی دن پیشی پر سخت غصہ میں تھے۔ شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری دکھانے کا شاندار موقع جان کر خوب دل کی بھڑاس نکال دی۔ ان کا کہنا تھا کہ” تم جس کا احتساب کررہے ہو‘ وہ نواز شریف کا بیٹا ہے۔ ہم نواز شریف کے کارکن ہیں۔ جنہوں نے حساب لینا ہے اور جو لے رہے ہیں، کان کھول کر سن لو، ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ تم آج حاضر سروس ہو‘ کل ریٹائر ہوجاو گے۔ ہم تمہارے بچوں اور خاندان کے لیے پاکستان کی زمین تنگ کردیں گے۔ احتساب کرنے والوں ہم تمہارا یوم حساب بنا دیں گے۔“ نہال ہاشمی کی اس شعلہ بیانی نے ہلچل مچادی۔ انہیں وزیر اعظم ہاؤس طلب کرکے مبینہ سرزنش کی گئی۔ سینیٹ اور پارٹی کے عہدے سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ مسلم لیگ کے ترجمان ڈاکٹر آصف کرمانی نے ان سے ملاقات کرکے انہیں وزیر اعظم کی ناراضگی اور فیصلے سے آگاہ کردیا اور شاہ سے بڑھ کر اس کی وفاداری ان کی رسوائی بن گئی۔ نہال ہاشمی نے جو کچھ کہا‘ اسے کہنے کے لیے ان میں جرأت کہاں سے آئی۔ ان کے بقول یہ ان کی ذاتی رائے تھی۔ وہ مسلم لیگ ن کے اہم رہنما اور سینیٹر تھے۔ کسی سیاسی اجتماع میں کی گئی ان کی تقریر ذاتی رائے کیسے ہوسکتی ہے۔ وہ خود ایک بڑے وکیل اور قانون دان ہیں‘ انہیں تو قانون اور آئین کی باریکیوں کا زیادہ علم ہونا چاہیے۔
انہیں سولی پر چڑھایا گیا ہے یا وہ خود اقتدار کی قربان گاہ میں اپنی قربانی کے لیے پیش ہوئے ہیں‘ اس کا تعین باقی ہے۔ شاید انہیں خیال ہو کہ اسی قسم کی باتیں کرکے خواجہ آصف وزیر بن گئے۔ محمد زبیر گورنر سندھ ہوگئے اور حنیف عباسی سے لے کر عابد شیر علی تک شاہ کی وفاداری کے مزے لوٹ رہے ہیں، لہٰذا اداروں کے خلاف سخت قسم کی تقریر سے قیادت خوش ہوجائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وزیر اعظم کے لیے اس”گستاخی“ کو سنبھالنا مشکل تھا ۔ انہوں نے پرویز رشید‘ مشاہد اللہ خان‘ راو تحسین علی خان اور طارق فاطمی کی طرح نہال ہاشمی کی بھی”بلی“ چڑھادی اب ان کا نام پانچویں شہید کے طور پر تاریخ میں درج ہوجائے گا۔ صدر جنرل محمد ضیاءالحق مرحوم نے اپنی صدارت کے دور کو تاحیات بنانے کے لیے دسمبر 1984ءمیں صدارتی ریفرنڈم کرایا تھا، جس کی شفافیت کا ڈھول پیٹنے میں ان کے ”پانچ پیارے“ پیش پیش تھے۔ ان میں راجہ ظفر الحق‘ غلام دستگیر خان‘ حیدرآباد کے میر علی احمد تالپور اور دیگر دو سیاستدان شامل تھے۔ بعد ازاں 1985ءمیں عام انتخابات کرائے گئے تو یہ پانچوں وفادار الیکشن ہار گئے یا انتخابات اور یفرنڈم کو غیر جانبدارانہ اور صاف و شفاف ثابت کرنے کے لیے انہیں ہرادیا گیا تھا۔
عقلمند لوگ وفا کے جنون میں اپنے انجام کا بھی خیال رکھتے ہیں‘ نہال ہاشمی نے سوچا ہوگا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اسلام آباد کی ایک تقریب سے خطاب کے دوران اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی اور اشاروں میں یہ بتادیا کہ آپ تو تین سال کے لیے عہدے پر فائز ہیں‘ ہم ہمیشہ رہیں گے۔ اس لیے ہماری طرف مت دیکھو‘ اس بیان کے بعد اداروں کا دباؤ بڑھا، ڈیڑھ سال کی ازخود جلا وطنی اختیار کی۔ واپس آئے تو نئی طاقت کے ساتھ سیاست شروع کردی۔ اداروں سے مفاہمت کی اور اپنے کئی اسیر ساتھیوں کو رہا کرالیا۔ سہیل انور سیال کو لاڑکانہ کے ایک واقعہ پر وزارت داخلہ سے ہٹایا گیا تھا ،انہیں پھر وزیر داخلہ بنادیا گیا۔ مسلم لیگ ن نے میاں نواز شریف کی سابقہ حکومت میںسپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا۔ چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ سمیت دیگر ججوں نے کمروں میں بند ہوکر جان بچائی تھی، لیکن میاں صاحب کی تیسری حکومت میں کئی حملہ آور اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوگئے۔ تیسرا واقعہ حال میں پیش آیا جب گورنر سندھ محمد زبیر عمر نے فرمایا کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا ضرب عضب‘ نیشنل ایکشن پلان اور کراچی کے امن و امان میں کوئی کردار نہیں ہے۔ وہ عام سے جرنیل تھے (شاید 40اسلامی ملکوں کی مشترکہ فوج کی سربراہی انہیں سونپنے والوں سے غلطی ہوگئی ہے) گورنر محمد زبیر کے بقول امن و امان کے قیام اور دہشت گردی ختم کرنے کا سارا کریڈٹ وزیر اعظم نواز شریف کوجاتا ہے۔ ممکن ہے کہ نہال ہاشمی کے ذہن میں یہ سارے واقعات ہوں اور”بادشاہ سلامت“ ان سے بہت خوش ہوکر کوئی اہم عہدہ سونپ دیں۔ ان کا اندازہ غلط نکلا اور برق ان پر آگری۔
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
پاکستان کے طبقاتی معاشرے میں غریب یادرمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی سیاسی کارکن اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے عزت اور مرتبہ حاصل کرنے میں کامیا ب تو ہوجاتا ہے لیکن عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ اس طبقاتی سماج کے اوپر والے سیاستدان جب کسی مشکل میں پھنستے ہیں تو قربانی کا بکرا بیچارے سیاسی کارکنوں کو ہی بنایا جاتا ہے۔ نہال ہاشمی کے واقعہ پر کراچی میں شام کے ایک اخبار نے شہ سرخی جمائی”تیرا کیا بنے گا کالیا۔“ یہ امیتابھ بچن کی ایک فلم کا مشہور ڈائیلاگ ہے جو کافی عرصہ تک زبان زد خاص و عام رہا اور ایک محاورہ بن گیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تو اپنی سابقہ اہلیہ جمائما خان سے بنی گالا کی جائیداد کی خریداری کے لیے بینک اسٹیٹمنٹ منگوا کر عدالت میں منی ٹریل پیش کردی ہے لیکن شریف خاندان کے لیے قطری شہزادے کا خط بھی کام نہیں آرہا ہے کہ اسی اثناءمیں نہال ہاشمی نے یہ غضب ڈھایا ہے۔ عدلیہ اور حکومت کی لڑائی کچھ اور بڑھ گئی ہے۔ یہ واقعہ آگ میں پیٹرول ڈال گیا ہے۔ حسین اور حسن نواز شریف کئی کئی گھنٹے جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوئے ہیں۔ وہ جے آئی ٹی کے اراکین کو مطمئن نہیں کرسکے ہیں۔ نہال ہاشمی کو حسین نواز کی باربار پیشی پر ہی غصہ تھا۔ وہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور دھمکیاں دے گئے۔ ”پناما“ نامی فلم کا نیا سین شروع ہوچکا ہے جس کا اختتام ٹریجڈی کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔ دنیا کے ایک بڑے فاتح نپولین بونا پارٹ نے تمام جنگیں لڑنے کے بعد اپنے آخری زمانے میں کہا تھا”دنیا کے بارے میں کیا چیز مجھے سب سے زیادہ تعجب میں ڈالتی ہے‘ وہ چیز ہے طاقت کی یہ بے بسی کہ اس کے ذریعے کسی چیز کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ بالآخر ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ دماغ تلوار کو فتح کرلیتا ہے۔“ اقتدار کے ایوانوں میں زبان کی تلوار سے لڑائی لڑنے والوں کو دماغ کی طاقت استعمال کرنی چاہیے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر