وجود

... loading ...

وجود
وجود

تحریک ِکشمیر دلالوں کے نرغے میں

جمعه 28 اپریل 2017 تحریک ِکشمیر دلالوں کے نرغے میں


یوں تو انسانی سماج دلالوں سے ہر وقت پریشان رہتا ہے مگر تحریک کشمیر کے دلالوں کی کہانی کئی حوالوںسے انتہائی نرالی ہے ۔دلال باضمیراور دیانت دار ہوتو اس کے کاروبارپر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا ہے ،مگر جب معاملہ کسی قوم کا ہومسئلہ سنگین تر ین بن جاتا ہے اس لیے کہ قوموں کے اجتماعی اور انفرادی مسائل میں آسمان و زمین کا فرق ہوتا ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے ناسور کی کوکھ سے جہاں ’’بدترین انسانی المیہ‘‘ نے جنم لیا ہے وہی یہ مسئلہ بعض ضمیر فروش افراد اور جماعتوں کے لیے مال کمانے کا ذریعہ بن چکا ہے ۔تحریک پسند افراد کے لیے شیخ محمد عبداللہ کو برابھلا کہنا ایک فرض کی صورت اختیار کر چکا ہے اور ان افراد میں میں خود بھی شامل ہوں پر جب خود ہماری ذات کی باری آتی ہے تو ہم لیپا پوتی کے حربوں اور ماہرانہ طریقوں کے ساتھ اپنے متعلق ساری کہانی ہی بدل دیتے ہیں۔ برطانوی سامراج نے کشمیریوں کو ایک ظالم قوم کے ہاتھوں فروخت کردیا ۔خریدنے والے کوئی ان پڑھ یا جاہل لوگ نہیں تھے، جموں کے انتہائی بااثر ہندو خاندان نے انسانی جذبات سے عاری ہو کر جاگیردارانہ سوچ کے تحت پوری قوم کو خرید کر اپنا غلام بنا لیا اور پھر آسمان نے وہ دن بھی دیکھے جب کشمیر کے انسانوں کے ساتھ اس سنگدل خاندان نے جانوروں جیسا سلوک کرنا اور کرانا شروع کردیا ۔پوری ایک قوم کو چند بااثر ہاتھوں میں دیکر سیاسی غلامی کے بعد جسمانی اور ذہنی غلامی میں پھینک دیا حتیٰ کہ کشمیر کی ایک بڑی آبادی علم اور پر سکون زندگی کے خواب سے بھی ناآشنا ہو گئی ۔ان ظالموں نے کشمیر ی قوم کو چند جاگیرداروں اور وڈیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا جن کی نسلیں آج تک ہمارے سروں پر کسی نہ کسی شکل میں سوار ہیں ۔جو مظالم مقامی جاگیرداروں نے ڈوگروں کی پشت پناہی کی بنیاد پر ڈھائے وہ داستانیں سن کر سنگدل سے سنگدل انسان کی روح بھی کانپ اٹھے گی ۔ایک سو سال تک کشمیر پر حکومت کرنے والے اس دلال خاندان اور ان کے شریکِ کاروبار برطانیہ کے مظالم کو آج تک کشمیر میں لوگ یاد کرتے ہیں ۔
ڈوگرہ راج کے خاتمے کے ساتھ ہی قوم کی زمام ’’شیخ عبداللہ اینڈ کمپنی ‘‘کے ہاتھ میں آئی انہوں نے تحریک شخصی راج کے خاتمے سے شروع کی جس میں انہیں حتمی کامیابی ملنے سے قبل ہی صورتحال بالکل الٹ گئی ،تقسیمِ برِصغیر کا مرحلہ پیش آیا تو کشمیر جیسے راجواڑوں کو بھی اس تقسیم سے دوچار کردیا گیا،یہیں سے کشمیر میں شخصی راج کا خاتمہ تو ہوا مگر مہاراجہ ہری سنگھ نے ’’باپ دادا کی جاگیر کشمیر‘‘ کو قبائلی حملے کے بہانے اپنے ہم مذہب ’’بھارتی برہمنوں‘‘کے ساتھ الحاق کر کے پھر دلالوں کا رول نبھا کر قومِ کشمیر کو متاعِ حقیر سمجھ کر فروخت کردیا ۔اس کے بعد یہی رول کشمیر کے شیخ عبداللہ، بخشی،صادق،قاسم سے لیکر فاروق عبداللہ سے ہوتے ہوئے مفتی سعید تک سب نے نبھایا ۔گویا قوم بکتی گئی ،درجنوں چہرے بدلے مگر ہوا کچھ بھی نہیں سوائے اس کے کہ ہر نئے آنے والے نے کشمیری قوم کو نئے دلدل اور نئی مصیبت میں گرفتار کرتے ہو ئے کبھی ایک چیز بیچ ڈالی کبھی دوسری چیز حتیٰ کہ وہ خصوصی پوزیشن بھی جس کے ہوتے ہو ئے بھارتی ریاست کے ساتھ صرف تین چیزوں کو لیکر کام کرنے کا فیصلہ لیا گیا تھا، مگر ہوا وہی کہ جو ہر بیچی جانے والی قوم کے ساتھ ہوتا ہے یعنی بھارت نے ساری چیزیں اپنے اختیار میں لیکر اب صرف تین چیزیں باقی چھوڑی ہیں ،ایک یہاں کے زندہ انسان، دوم زمین، سوم ہوا۔
1987ء کے الیکشن دھاندلی سے جموں و کشمیر کے نوجوان مکمل طور پر امن ذرائع سے مایوس ہو گئے اور انہوں نے 1990ء میں باضابط ’’گوریلا جہاد‘‘ کا آغاز کیا ۔عسکری تربیت کے حصول کے لیے ہزاروں نوجوانوں نے آزاد کشمیرہجرت کی ۔جن میں ہزاروں اپنے وطن واپس لوٹے ،ہزاروں نا معلوم مقامات پر دفن ہوگئے اور ہزاروں لاپتہ ۔پچاس ہزار کے قریب جیلوں سے رہا ہوکر دوبارہ بمشکل معاشرے میں ایڈجیسٹ ہو گئے ۔مگر جس چیز کو قوم کے لیے بھول جانا ناممکن ہے وہ ہے ’’ہزاروںدامنِ عفت تارتارشدہ عزت مآب مائیں اور بہنیں،دس ہزار لاپتہ انسان ،ہزاروں بیوائیں ،لاکھوں یتیم ،ہزاروں جسمانی طورمعذورنوجوان،ہزاروں قیدی اور اب سینکڑوں بینائی سے محروم مردو خواتین اور کھربوں مالیت کی برباد شدہ پراپرٹی ۔‘‘اور یہ سب اس تحریک کے لیے جس کے لیڈروں کا قوم سے تقاضا ہے کہ’’ تم قربانی دو ہم آزادی دیں گے‘‘قوم نے ممکنہ حد تک سب کچھ لیڈروں کی خواہش کے عین مطابق تحریک کے لیے وقف کردیا، پر آزادی کا سورج ابھی تک طلوع نہیں ہوا جس کا قوم کو صدیوں سے انتظار ہے ۔اسی بیچ شہداء،یتیموں،بیواؤں ،زخمیوں اور قیدیوں کے نام پر کشمیر کے اندر اور باہر بھارت،پاکستان،ایران حتیٰ کہ عربی ،افریقی،مغربی اور یورپین ممالک تک دلالوں کی کئی ٹیمیں سرگرم ہوگئیں اور انہوں نے ہمارے شہداء سے لیکر مجروحین اور نابیناؤں تک’’ کروڑوں درہم و ڈالر‘‘ جمع کر کے عالیشان عمارتیں تعمیر کیں حتیٰ کہ پاکستان سے لیکر سارک اور مسلم ممالک تک مقرر کردہ ’’ مفت تعلیمی کوٹا‘‘یعنی ایم ،بی،بی،ایس اور انجینئر نگ کی مخصوص نشستیںبھی نقد رقوم کے عوض غیر مستحق افراد کو بیچ ڈالیںجوشہدائِ کشمیر کے بچوں کے لیے مختص کی گئی تھیں۔
کشمیر اور آزاد کشمیر کے پہاڑوں سے لیکر وادی کے میدانوں تک کس کس فرد نے کس کس نام پر کیسی کیسی وارداتیں انجام دے رکھی ہیں ۔کئی خواتین و حضرات نے مختلف این ،جی ،اوز کھول رکھی ہیں ،کئی دفاتر کھولے بیٹھے ہیں ،کئی مساجد سے لیکر بازاروں تک چندہ کر کے دنیا کے مہنگے ترین شہر لندن اور دبئی میں وسیع جائیدادیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔حیرت کی بات یہ کہ بعض مسلم ممالک کی معروف سرکاری تنظیموں کو بھی بھاری رقوم لیکر چونا لگا دیا گیااور وہ لوگ نا ہی مطالبہ کر سکے اور نا ہی شکایت !اس لیے کہ پیسہ دیا تھا دو نمبر طریقہ پر اور چونا لگانے والوں نے بھی دو نمبری طریقہ اختیار کرتے ہو ئے اس کو دو نمبر طریقہ پر ہضم کر لیا ۔حیرت یہ کہ کشمیر میں مقیم لیڈران سے متعلق یہ خودساختہ غیر ملکی سفراء نہ صرف یہ کہ بہت بد ظن ہیں بلکہ سوشل میڈیا کے سہارے ان کے لیل و نہار وادی کشمیر میں مقیم لیڈران سے متعلق غلط فہمیاں پھیلانے میں ہی گزرتے ہیں ۔کشمیر کے سوداگروں کی روح فرسا کہانیاں یو ں توتاریخ کا حصہ بن چکی ہیں مگر’’ انسان خوردیومسئلہ کشمیر‘‘کے ہوتے ہو ئے ان کا یہ کاروبار جاری و ساری ہے ۔کہنے کو یہ مسئلہ کشمیر اور مظلوم کشمیریوں کی ترجمانی کا کام انجام دیتے ہیں مگر سچائی یہ ہے کہ ان کے ہاں یہ صرف ایک دھندہ باقی رہ چکا ہے ترجمانی بس زبانی جمع خرچ ہے ۔مغرب اور یورپ میں چونکہ ’’انسانی حقوق‘‘کی آڑ میں اس طرح کے پروگرام کرنے اور این،جی،اوز چلانے اور تنظیمیں بنانے کی مکمل آزادی حاصل ہے لہٰذا ان سوداگروں کی ایک بڑی تعداد انہی ممالک میں پھیلی ہوئی ہے۔حد تو یہ کہ بعض حضرات کے ’’مالی خورد برد‘‘کے واقعات سے ایک بڑی دنیا واقف ہے ۔اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف ان ’’کشمیری سفراء اور ترجمانوں‘‘کے نزدیک کشمیر کی لیڈر شپ ’’بکاؤ مال‘‘ہے ۔کچھ کے نزدیک یہ پاکستان کے ایجنٹ ہیں اور کئی انہیں ہندوستان سے لاشوں کے عوض مال وصولنے والے قرار دیتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے سے جڑے یہ ہزاروں سفراء نہ کسی نظم کے پابند ہیں اور نہ ہی ان کی پشت پر کوئی تحریک کھڑی ہے اس لیے کہ ان میں ہر ایک بزعم خود ایک تحریک اور تنظیم ہے ۔
سوشل میڈیا کی ’’برکت‘‘سے دنیا ایک فون میں سمٹ چکی ہے ان خواتین و حضرات (جن میں کچھ کشمیری اور کئی آزاد کشمیری ہیں)نے اپنے سمارٹ فونز کی ’’کرامات کے طفیل‘‘اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بعض معصوم کشمیریوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔سادگی کا عالم یہ کہ چند میٹھے بولوں اور تعریف و توصیف کے بعد’’ کشمیری مجاہدین‘‘اور حریت پسند لیڈر شپ کے حوالے سے یہ سفراء معصوم کشمیری نوجوانوںکے ذہنوں کو زہر آلود ہ کر دیتے ہیں اور ببانگ دہل کہتے ہیں کہ جب تک موجودہ لیڈرشپ ’’تخت ِ حریت‘‘پر بیٹھی ہے تب تک مسئلہ کشمیر کا حل ہو جانا خواب ہے ۔آپ ان سے حل پوچھیے تو پہلے ’’ہوں ہاں‘‘پھر سیدھے یہاں تک ارشاد فرمائیں گے کہ کسی طرح تحریک کو غیر مذہبی بنا دو تاکہ جموں کے ڈوگرہ اور لداخ کے بودھ شامل تحریک ہو سکیں !اس کے بعد پاکستان کی پالیسی اور اس کے معاً بعد پاکستان کے وجود اور دوقومی نظریے پر تنقید و تنقیص کی باری آئے گی ۔حد یہ کہ ان سفراء میں بعض ’’دین سے ناواقف‘‘ہونے کے باوجود براہ راست دین کی وہ تعبیر و تشریح کرنے بیٹھتے ہیں کہ عام مسلمان سن کر کانپ اٹھے۔۔۔ اس لیے کہ انہیں تحریک کشمیر کے مذہبی اور کشمیری رنگ سے ہی چڑ نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک پوری دنیا میں فتنے و فساد کی جڑ اسلام پسند ہیں !۔
یہ حضرات مسلم اور غیر مسلم ممالک میں کروڑپتی بن کر آزاد فضاؤں میں رہ کر اپنی تندوتیز تنقید کا نشانہ صرف کشمیر کے لوگوں کو بناتے ہیں اور لقمان سے زیادہ عقل مند ی کے وہم میں مبتلا یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ کشمیر کب کا آزاد ہو چکا ہوتا اگر اس تحریک کو سیکولر اور جمہوری بنیادوں پر چلایا جاتا اور ’’پاکستانی بندوق اور عسکریت‘‘کو تحریک سے الگ کرلیا جاتا ؟آپ پوچھیے کہ اگر مذہب ہی واحد رکاوٹ ہے تو بھارت کس مذہب دشمنی میں چین کا دشمن جبکہ امریکا کا دوست بن چکا ہے ؟آپ کہیے کہ اگر آج بھارت کو ساراسردرد صرف مذہبی رنگ سے ہے تو شیخ محمد عبداللہ نا ہی مذہبی انسان تھا اور نا ہی اس کا سرخ پرچم کسی پاکستان کی ترجمانی کرتا تھا تو پھر بھارت نے اس کو جیل کیوں بھیجا ؟ اور تو اور شہید مقبول بٹ بھی کسی پاکستان کی تحریک نہیں چلا رہاتھا ۔دورِ حاضر کی خود غرض دنیا کو جب اپنامسئلہ مذہبی رنگ سے حل ہوتا ہوا نظر آتا ہے تو وہ روس کے خلاف جنگ کو جہاد اور لڑنے والوں کو مجاہدین قرار دیتی ہے اور تواور اس کو طالبان کی حمایت میں بھی کوئی پریشانی مانع نہیں بنتی ہے اور جب اس کے منہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے تو وہ طالبان کو تہہ تیغ کرنے کے بعد خفیہ مذاکرات کے ذریعہ اپنی جان چھڑانے کی کوششوں میں تمام تر حدود توڑ دیتا ہے ۔بھارت کو مسئلہ حل کرنے میں مذہب رکاوٹ نہیں بلکہ وہ اس مسئلے کو فی الحال ہر دو صورتوں میں حل ہی نہیں کرنا چاہتا ہے چاہے اس کے سامنے لیڈر شپ مذہبی ہو یا سیکولر ۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ بیرونِ کشمیر کشمیری شہداء کی ترجمانی کرنے والے سبھی دلال ہیں ،نہیں بالکل ایسا نہیں ہے بلکہ کئی ایسی محترم اور معزز شخصیات بھی ہیں جن کے رات دن کشمیریوں کے لیے وقف ہیں ۔پاکستان سے لیکر یورپ ،مغرب،افریقہ اور مسلم ممالک تک ایک اچھی خاصی تعداد بین الاقوامی سطح پر کشمیر کاز کے لیے سرگرم حضرات کی موجود ہے جن کا نہ صرف کشمیری لیڈرشپ سے رابطہ ہے بلکہ وہ حتیٰ الامکان ان کے رابطے میںرہتے ہیں تاکہ اندرون و بیرون دونوں محاذوں پر ایک ربط و ضبط قائم رہے ۔ ان میں بہت سوں نے بیرون ممالک ہجرت کر کے کشمیریوں کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہے بلکہ ان میں بہت سے ایسا امانت دار بھی ہیں جن کی ذاتی زندگی غربت کے تند و تیز تھپیڑوں میں ہی گزری ہے ۔وہ کشمیری قوم،مجاہدین،لیڈرشپ اور عوام کے مشکلات کاادراک کرتے ہو ئے پورے احترام کے ساتھ ان کے صف میں اپنے آپ کو کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر انہیں کوئی تنقید کرنی ہو یا تجویز بھی دینی ہو تو اس میں توہین و تحقیر کے بالکل برعکس ان کا دردِ دل نظر آتا ہے اس لیے کہ انہیں اس بات کا بھرپور ادراک ہے کہ اگر وادی کشمیر اور جموں کے مسلم علاقوں میں یہ تحریک قائم نہ ہوتی تو نہ مسئلہ کشمیر ہوتا اور نا ہی کشمیر کا کوئی ذکر سوائے تاریخ کے گمشدہ اوراق میں۔


متعلقہ خبریں


جنوبی کشمیر کے دہشت ناک حالات کی اصل کہانی الطاف ندوی کشمیری - جمعه 21 اپریل 2017

قارئین کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ 2016ء کے عوامی احتجاج سے قبل بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ ترین فوجی آفیسرجنرل ڈوانے ببانگ دہل یہ بات کہی تھی کہ جنوبی کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور یہاں ہماری حالت بطخوں کے مانند ہو چکی ہے ۔عوام کھل کر عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ ان...

جنوبی کشمیر کے دہشت ناک حالات کی اصل کہانی

ذاتی رائے ۔۔۔غور کرنے میں کوئی مضا ئقہ نہیں !!! شیخ امین - جمعرات 08 دسمبر 2016

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور جموں و کشمیرنیشنل کانفرنس کے سربراہ نے 5دسمبر 2016کو اپنے والد اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم شیخ محمد عبد اللہ کے یوم پیدائش کے موقع پرایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "یہ آگ تب تک بجھ نہیں سکتی ،جب تک ہندوستان اور پاکستان ہم سے انصاف ن...

ذاتی رائے ۔۔۔غور کرنے میں کوئی مضا ئقہ نہیں !!!

قابل غورمشورہ!!! شیخ امین - پیر 28 نومبر 2016

8جولائی 2016کو حزب المجاہدین کے جواں سال قائد برہان مظفر وانیؒ بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہادت سے سرفراز ہوئے۔ان کی شہادت کے فوراََ بعد پوری ریاست میں با لعموم اور وادی میں با لخصوص بھارت مخالف مظا ہرے شروع ہوئے ،جو تادم تحریر جاری ہیں۔شہید برہان کے جنازے میں ایک ملین سے زیادہ لوگوں...

قابل غورمشورہ!!!

 بھارتی فوج کی دیدہ دلیری فوجی پوسٹ کے بعد مسافر بس،ایمبولینس پر گولہ باری ابو محمد نعیم - جمعرات 24 نومبر 2016

وادیٔ نیلم میں مسافر بس کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایاگیا ، تین شہری موقع پر شہید ، زخمیوں میں شامل سات افراد ہسپتال میں دم توڑ گئے گزشتہ روز ہندوستانی فوج نے اپنے 3 فوجیوں کی ہلاکت تسلیم کی تھی اور ٹوئٹ میں اس کارروائی پر شدید ردعمل دینے کی دھمکی دی تھی بھارتی افواج کی...

 بھارتی فوج کی دیدہ دلیری فوجی پوسٹ کے بعد مسافر بس،ایمبولینس پر گولہ باری

کشمیر کہانی ۔۔۔۔خون کہانی شیخ امین - منگل 08 نومبر 2016

27؍ اکتوبر 1947ء کو بھارتی سامراج نے سرزمین جموں و کشمیر پر فوجیں اُتار کر جابرانہ قبضہ جمایا اور ایک امن پسند قوم کو بنیادی حق سے محروم کرکے جبری غلامی میں مبتلا کرکے رکھ دیا۔ جابرانہ فوجی قبضے کے بعد ڈوگرہ فورسز اور آر ایس ایس سے وابستہ غنڈوں اوردہشت گردوں نے نہرو اور پٹیل کی ب...

کشمیر کہانی ۔۔۔۔خون کہانی

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر